قصہ”فرمان امروز” کا

کسی بھی رپورٹر کی طرح میرے ذہن میں بھی قومی سیاست سے جڑے کئی اہم واقعات کا ایک انبار لگاپڑا ہے۔
غالبؔ اپنے ذہن میں آئے چند خیالات کو ’’مال اچھا ہے‘‘ ٹھہرا کر ’’الگ باندھ‘‘ کر کسی کونے میں رکھ دیا کرتا تھا۔ مجھے خبر نہیںکہ ’’مال اچھا ہے‘‘ اس گٹھری میں سے کن خیالات کو اس نے بالآخر اپنے اشعار کی صورت بھی بیان کیا ہے۔

اپنے بارے میں اگرچہ ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ جن واقعات کو میں نے کئی برسوں سے ذہن کے کسی گوشے میں الگ باندھ کر رکھا ہوا ہے، وہ کتاب کی صورت کبھی بیان نہ ہوپائیں گے۔ کوئی بھی کتاب لکھنے کے لئے مواد اور یکسوئی سے کہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے نظم کی اور نظم خدا کے فضل سے میرے جیسے ماں کے لاڈلوں کو نصیب ہی نہیں ہوپاتا۔

کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ’’ڈنگ ٹپانے‘‘ کی عادت پختہ ہوچکی ہے اور عمر کے جس حصے میں پہنچ گیا ہوں وہاں عادت محض ایک رویہ نہیں عافیت کی ضمانت بن جاتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ جو بات جب یاد آئے، اُگل دی جائے اور کتاب لکھنے کی فکر سے نجات پالیا جائے۔
ایک ٹویٹ کی معرفت جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے امکانات کو قطعاََ رد کردیا تو مجھے یاد آگئے جنرل اسلم بیگ۔ اگرچہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ میں انہیں جنرل شریف کی نوعیت کا Gentleman Soldierہرگز نہیں مانتا۔

17اگست 1988ء کے فضائی حادثے میں جنرل ضیاء کی امریکی سفیر اور پاکستانی فوج کے کئی اہم افسروں کے ہمراہ ہلاکت کے بعد ہمارے ملک میں فوری طورپر ایک اور مارشل لاء لگانے کی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔ افراتفری کا سماں تھا جسے سنبھالنے کے لئے غلام اسحاق خان جیسا زیرک، کم گو مگر ریاستی معاملات سنبھالنے کے حوالے سے انتہائی جہاں دیدہ شخص موجود تھا۔

اس دن چیئرمین سینٹ ہوتے ہوئے غلام اسحاق خان صدر ضیاء کی ہلاکت کے بعد آئینی طورپر اس ملک کے قائم مقام صدر اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بن گئے۔ اچانک آئی آندھی سے معمولات کے ساتھ چپکے رہ کر خود کو سنبھالنے کا موقعہ مل گیا۔ نئے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور بالآخر ان کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جماعت قومی اسمبلی کی واحد اکثریتی جماعت بن کر اُبھری۔
اس جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو چونکہ فوجی آمر نے پھانسی لگایا تھا، اس لئے عسکری قیادت کے ایک بڑے حصے میں بے نظیر کو وزیر اعظم تسلیم کرنے کے ضمن میں کافی تذبذب پایا جارہا تھا۔

غلام اسحاق خان کی بطور قائم مقام صدر موجودگی مگر اطمینان کا باعث بنی۔ ہمارے دائمی حکمرانوں نے فرض کرلیا کہ ’’بابا‘‘ معاملات سنبھال لے گا۔
’’بابے‘‘ نے معاملات خوب سنبھالے۔ محترمہ کو وزیر اعظم کا حلف دلوانے سے پہلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نواز شریف کے وزیر اعلیٰ بن جانے کو یقینی بنایا۔ مرکزی حکومت محترمہ کے حوالے کرنے سے پہلے یہ اہتمام بھی کرلیا گیا کہ خارجہ اور خزانے سے جڑے معاملات کو صرف ملکی اور غیر ملکی اشرافیہ کے دو بااعتماد ’’بابے‘‘-صاحبزادہ یعقوب علی خان اور -وی-اے -جعفری- ہی سنبھالا کریں گے۔ یہ بات بھی یقینی بنائی گئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نواب زادہ نصراللہ جیسے ’’بابائے جمہوریت‘‘ کو نظرانداز کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کو باقاعدہ صدر منتخب کروائیں گی۔ ایک ایسا صدر جس کے پاس آئین کے آرٹیکل 58-2/Bکے تحت قومی اسمبلی کو توڑنے اور کسی منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا اختیار بھی موجود تھا۔
’’آدھا تیتر-آدھابٹیر‘‘ جیسے سمجھوتوں پر مبنی اس نظام کے ساتھ بالآخر وہ ہونا ہی تھا جو 6اگست 1990ء کے دن محترمہ کی پہلی حکومت کی برطرفی کی صورت ہوا۔

نواز شریف کے بدترین دشمنوں سے قطع نظران کے بے شمار دیوانے بھی آج تک نہیں سمجھ پائے کہ 6اگست 1990ء کے اقدام کا حتمی ہدف محترمہ کے بعد نواز شریف کو وزیر اعظم منتخب کروانا ہرگز نہیں تھا۔ غلام اسحاق خان سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ اسلم بیگ، غلام مصطفیٰ جتوئی کو نیا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ ’’مینڈیٹ‘‘ کی حقیقتوں نے مگر یہ ہونے نہ دیا۔ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تو چند ہی ماہ بعد ’’بابے‘‘ کے علاوہ جنرل اسلم بیگ نے بھی شدت سے محسوس کرنا شروع کردیا کہ لاہور سے آیا یہ نوجوان صنعت کار وہی کرتا ہے جو اس کے دل میں ہے۔ موصوف پر نکیل ڈالنے کے منصوبے شروع ہوگئے۔

اسی دوران صدام حسین نے کویت پر قبضہ کرلیا اور امریکہ نے عراق پر کویت کو آزاد کروانے کے نام پر پہلی جنگ مسلط کردی۔ نواز شریف مذاکرات کے ذریعے اس قضیے کو حل کروانے کے مشن پر عرب ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے تو جنرل اسلم بیگ نے ایک ایمان افروز ’’فرمان امروز‘‘ جاری کردیا۔ اس فرمان کے ذریعے موصوف نے بڑھک یہ لگائی کہ عراق امریکہ کے لئے ایک اور ویت نام ثابت ہوگا۔

جنرل اسلم بیگ کو صدام اور عراق سے کوئی خاص محبت نہ تھی۔ موصوف کے ایمان افروز ’’فرمان امروز‘‘ کا اصل مقصد صرف اور صرف اس وقت پاکستان میں امریکہ کے خلاف موجود جذباتی نفرت سے فائدہ اٹھاکر خود کو ’’مردِ حق‘‘ ثابت کرنا تھا جو ’’بزدل سیاسی حکومت‘‘ کو اس کی اوقات میں رکھنے کی اخلاقی قوت بھی حاصل کرپائے۔

اسلم بیگ کا ’’مردِ حق‘‘ بن کر عوام کے سامنے آنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ 17اگست 1991ء کو موصوف کی معیادِ ملازمت ختم ہورہی تھی۔ نواز شریف مگر محترمہ سے ’’تمغہ جمہوریت‘‘ حاصل کئے اسلم بیگ کی معیادِ ملازمت میں توسیع کا اشارہ تک نہیں دے رہے تھے۔ بیگ صاحب نے نواز شریف کے حواریوں اور غلام اسحاق خان کے چند بااعتماد افراد کے ذریعے وزیر اعظم کے ذہن کو اپنی معیادِ ملازمت کے حوالے سے جاننے کی بہت کوشش کی۔ کوئی حوصلہ افزاء اشارے نہ ملنے کی وجہ سے ’’اچانک‘‘ پاکستان مسلم لیگ کے قومی اسمبلی میں بیٹھے اراکین میں سے میاں زاہد سرفراز جیسے ’’مردانِ حق‘‘ باغیانہ تقاریر کرنا شروع ہوگئے۔ بے شمار روابط کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور غلام مصطفیٰ جتوئی کے درمیان بھی ’’صلح‘‘ کروادی گئی۔ محمد خان جونیجو جب قومی اسمبلی آتے تو حکمران جماعت کے کئی افراد انہیں والہانہ انداز میں اپنے گھیرے میں لے لیتے۔ اسمبلی میں نظر آتی اس ہل چل کی وجہ سے میڈیا میں نواز شریف کی پہلی حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ماحول بن گیا۔

نفسانفسی کے اس ماحول میں نواز شریف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوئے لوگوں میں ایک ملک نعیم بھی تھے۔خوشاب سے منتخب ہونے والے اس دراز قد مردِ وجیہہ کا ذہن بھی بہت زرخیز تھا۔ فوج کے ایک مشہور بریگیڈئر سجاول کے فرزند تھے اور میکاولی کی کتاب ہر وقت ان کے سرہانے رہتی تھی۔ موصوف کی میرے ساتھ بہت دوستی تھی۔ ایک دن مجھے بہت بے چینی سے کہا کہ کسی نہ کسی طرح شکر گڑھ کے چودھری انور عزیز کو ڈھونڈ کر ان کی ملک نعیم سے F-7/2میں واقع پنجاب ہاسٹل کے ایک کمرے میں طویل مگر خفیہ ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔

ملک نعیم کے حکم کی تعمیل ہوگئی۔ رات گئے تک ہوئی ملاقات میں تذکرہ صرف بیگ صاحب کی مچائی ہلچل تک محددو رہا۔ اس ہلچل کے مسلسل تذکرے سے دق ہوکر چودھری انور عزیز نے تجویز پیش کی کہ اسلم بیگ کا جانشین ڈھونڈ کر اس کا اعلان کیوں نہیں کردیا جاتا۔ ملک نعیم جواباََ خاموش رہے مگر ان کی آنکھوں میں آئی چمک نے مجھے سب کچھ بتادیا۔

اس کے بعد کیا ہوا مجھے ہرگز علم نہیں۔ 11جون 1991ء کی تاریخ البتہ خوب یاد ہے۔ سلیم عباس جیلانی ان دنوں سیکرٹری دفاع ہوا کرتے تھے۔ میرے ساتھ ان کی شفقت میرے سسر کی بدولت تھی۔ وہ قومی اسمبلی میں موجود وزیر اعظم کے دفتر سے اپنی بغل میں ایک فائل اٹھائے نکلے اور تیزی سے لفٹ کی طرف جانا شروع ہوگئے۔ مجھے شک ہوا کہ کوئی اہم معاملہ ہوگیا ہے۔ ان کے پیچھے پڑگیا۔ وہ طرح دیتے رہے۔ میں ڈھیٹوںکی مانند ڈٹا رہا۔ بالآخر ان کی گاڑی پورچ میں آئی تو اسے دیکھ کر مجھے صرف اتنا کہا:”Asif Nawaz is Your New Army Chief”۔اس کے بعد جو ہوا وہ آپ خوب جانتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے