قصہ ختم

ویرم نارووال سے آدھ گھنٹے کے فاصلے پر چھوٹا سا پسماندہ گاؤں ہے‘ گاؤں میں محمد حسین نام کا ایک غریب کسان رہتا ہے‘ محمد حسین کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے‘ بڑا بیٹا راشد حسین فوج میں لانس نائیک ہے‘ دوسرا بیٹا عابد حسین بے روزگار اور کم پڑھا لکھا ہے‘ یہ گاؤں میں رہتا اور بھینسوں کا دودھ بیچتا ہے‘ تیسرا بیٹا محمد احمد بھی کھیتی باڑی اور دودھ کا کاروبار کرتا ہے جب کہ بیٹی راشدہ شادی شدہ ہے اور یہ اپنے گھر میں آباد ہے۔

محمد حسین کے تین بچے شادی شدہ ہیں لیکن درمیانے بیٹے عابد حسین نے شادی نہیں کی‘ یہ مذہبی رجحان رکھتا ہے‘ موبائل فون پر مختلف علماء کرام کی تقریریں سنتا رہتا ہے اور یہ اپنی زندگی دین کے لیے وقف کرنا چاہتا ہے چنانچہ اس نے شادی نہیں کی‘ اس کا کل اثاثہ دو بھینسیں ہیں‘ یہ دودھ بیچ کر اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔

یہ ایک مذہبی تنظیم کی لوکل یوتھ ونگ کا صدر (کمانڈر) بھی ہے‘ نومبر 2017ء کے فیض آباد دھرنے نے عابد حسین کے دماغ پر اثرکیا‘ یہ سمجھتا ہے پارلیمنٹ بالخصوص حکومت نے جان بوجھ کر ختم نبوت کے حلف نامے سے قادیانیوں کا ذکر گول کیا اور یہ لوگ توہین رسالت کے مرتکب ہیں‘ یہ دھرنے اور دھرنے کے دوران تقریروں کوبھی غور سے سنتا رہا‘ اس نے دھرنے کے آخر میں ذمے داروں سے انتقام لینے کی ٹھان لی‘ یہ کیونکہ چھوٹے علاقے کا رہنے والا تھا‘یہ لاہور اور اسلام آباد نہیں جا سکتا تھا چنانچہ اس نے اپنے انتقام کو سیالکوٹ کے اردگرد رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سیالکوٹ میں چار لوگ اس کا ٹارگٹ ہو سکتے تھے‘ وزیر قانون زاہد حامد‘ وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف‘ وزیر داخلہ احسن اقبال اور پرائیویٹائزیشن کے وفاقی وزیر دانیال عزیز‘ عابد حسین نے ریکی شروع کی‘ پتہ چلا زاہد حامد لاہور رہتے ہیں‘ یہ سیالکوٹ نہیں آتے‘ خواجہ آصف اور دانیال عزیز اسے دور پڑتے تھے۔

ان تک پہنچنا مشکل تھا‘ 10 مارچ 2018ء کو سیاہی پھینکنے کے واقعے کے بعد خواجہ آصف کی سیکیورٹی بھی مزید ٹائیٹ ہو گئی تھی‘ دانیال عزیز کے آنے جانے کا پروگرام حتمی نہیں ہوتا تھا اور پیچھے رہ گئے احسن اقبال‘ یہ عابد حسین کے لیے سوٹ ایبل ٹارگٹ تھے‘ کیوں؟ دو وجوہات تھیں‘ یہ احسن اقبال کے حلقے میں رہتا تھا چنانچہ یہ آسانی سے ان تک پہنچ سکتا تھا اور دو‘ احسن اقبال بڑی باقاعدگی سے اپنے حلقے کا دورہ کرتے رہتے تھے‘ ان کی آمدورفت کا شیڈول پورے علاقے کو معلوم ہوتا تھا۔

عابد حسین نے احسن اقبال کے آنے‘ جانے اور دوروں کے شیڈول کا مطالعہ کیا اور وزیرداخلہ کو سلمان تاثیر کی طرح لوگوں کے درمیان قتل کر نے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ فیصلہ کرنے کے بعد عابد حسین کو دو اشیاء درکار تھیں‘ پستول اور واردات کی تاریخ کا تعین‘ عابد حسین کو پستول کاشف سے مل گیا‘ کاشف عمارتی سامان کا کاروبار کرتا ہے‘ اس کے پاس 30 بور کا ایک دیسی پستول موجود تھا‘ عابد حسین نے اس سے یہ پستول 15 ہزار روپے میں خرید لیا‘ یہ رقم اس نے دودھ بیچ کر اکٹھی کی تھی۔

کاشف نے اسے 9 گولیاں بھی دے دیں اور پستول چلانے کا طریقہ بھی سکھا دیا‘ اگلا مرحلہ احسن اقبال کو تلاش کرنا تھا‘ عابد حسین اس کے بعد وزیر داخلہ کو تلاش کرنے لگا‘ کنجروڑ نارووال کا چھوٹا سا قصبہ ہے‘ آبادی تیس چالیس ہزار ہے اور لوگ احسن اقبال کو پسند کرتے ہیں‘ کنجروڑ میں عیسائی کمیونٹی بھی رہتی ہے‘ گل فام اس کرسچین کمیونٹی کا لیڈر ہے‘ عابد حسین گل فام کا جاننے والا تھا‘ گل فام بہت عرصے سے احسن اقبال کو عیسائی ووٹروں سے خطاب کی دعوت دے رہا تھا‘ وہ اس دعوت کا ذکر عابد حسین سے بھی کرتا رہتا تھا۔

عابد حسین نے اسے قائل کر لیا جب بھی احسن اقبال اس کی دعوت قبول کر لیں یہ اسے بھی بلا لے‘ یہ احسن اقبال کے ساتھ تصویر بنانا چاہتا ہے‘ گلفام نے وعدہ کر لیا‘ احسن اقبال کے لوکل آرگنائزر نے 6مئی کو کنجروڑ میں کارنر میٹنگ طے کر دی‘ گلفام نے وعدے کے مطابق عابد حسین کو مطلع کر دیا‘ عابد حسین نے اپنے ایک دوست عظیم کو تیار کیا کہ وہ اسے اپنے موٹر سائیکل پر کنجروڑ لے جائے‘ عظیم منظور پورہ کا رہائشی ہے۔

عظیم اسے اپنے موٹر سائیکل پر کنجروڑ لے گیا‘ کنجروڑ میں احسان کے ڈیرے پر جلسہ تھا‘ عابد حسین جلسے سے اڑھائی گھنٹے پہلے وہاں پہنچا اور گلفام کے ساتھ جلسے کی تیاری کرنے لگا‘ یہ کرسیاں بھی لگاتا رہا‘ دریاں بھی سیدھی کرتا رہا اور ساؤنڈ سسٹم بھی سیٹ کرتا رہا‘ یہ ان دو اڑھائی گھنٹوں میں گلفام کے ساتھ ساتھ رہا یوں یہ مہمان سے میزبان بن گیا اور لوگ اس سے مشورے کرنے لگے‘ احسن اقبال آئے‘ لوگوں سے ملے‘ تقریر کی اور یہ شام پانچ بج کر 50 منٹ پر اپنی گاڑی کی طرف بڑھے‘ لوگ اکٹھے ہوئے اور حسب دستور وزیرداخلہ کو چٹیں اور درخواستیں پکڑانے لگے۔

عابد حسین ان لوگوں میں شامل ہو کر احسن اقبال کے قریب پہنچ گیا‘ اس نے نیفے میں رکھے ہوئے پستول پر ہاتھ رکھا‘ یہ پستول نکال رہا تھا کہ احسن اقبال کا فون بج گیا‘ احسن اقبال نے فون کان کے ساتھ لگایا‘ عابد حسین نے پستول نکالا اور دو سیکنڈ میں فائر کر دیا‘ گولی احسن اقبال کی کہنی پر لگی‘ وہاں سے مڑی اور پیٹ میں گھس گئی‘ قریب کھڑے ایلیٹ فورس کے جوان حیدر نے عابد حسین کو جھپٹ لیا اور سیکنڈ کے تہائی حصے میں پستول کا میگزین نکال لیاتاہم پستول کے چیمبر میں دوسری گولی چڑھ چکی تھی‘ عابد حسین نے دوسرا فائر کیا لیکن حیدر نے پستول موڑ دیا‘ دوسری گولی ضایع ہو گئی‘اس دوران ایلیٹ فورس کے جوانوں نے ملزم کو گرا لیا‘ احسن اقبال زخمی ہو کر گرگئے۔

عابد حسین کو تھانے پہنچایا گیا‘ ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا‘ یہ ٹرینڈ نہیں تھا‘ پستول میں 9 گولیاں تھیں‘ یہ اگر ٹرینڈ ہوتا تو یہ کبھی ایک گولی نہ چلاتا‘ یہ ٹریگر دباتا اور ایلیٹ کے جوان کے جھپٹنے سے پہلے پستول خالی کردیتا‘ دوسرا‘ یہ اکیلا تھا‘اسے سہولت کار کی سہولت حاصل نہیں تھی‘ یہ اگر دو تین لوگ ہوتے تو ایک کے بعد دوسرا سامنے آ جاتا اور دوسرے کے بعد تیسرا حملہ کر دیتا اور یوں زیادہ نقصان ہو جاتا‘تیسرا‘ یہ حملہ پلاننگ کے بغیر کیا گیا تھا کیونکہ اگر اس میں منصوبہ بندی شامل ہوتی تو عابد حسین کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی اور یہ حملہ 15 ہزار روپے کے دیسی پستول سے نہ کیا جاتا‘ عابد حسین کی جیب میں دستی بم ہوتا یا پھر یہ خودکش جیکٹ پہن کر احسن اقبال کے قریب پہنچ جاتا اور یوں احسن اقبال آج ہم میں موجود نہ ہوتے لیکن عابد حسین کیونکہ ایک ان پڑھ‘ دیہاتی اور کم وسیلا شخص تھا۔

یہ ٹرینڈ بھی نہیںتھا اور اس کے پیچھے کسی تنظیم کا باقاعدہ ہاتھ بھی نہیں تھا چنانچہ احسن اقبال بچ گئے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسن اقبال پر خصوصی کرم تھا‘ اللہ کو ان کی زندگی عزیز تھی ورنہ عابد حسین اپنے مقاصد میں واضح تھا‘ عابد حسین اس واقعے کے بعد مکمل طور پر مطمئن تھا‘ اس نے پولیس کوہر تفصیل بتائی‘ اس نے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار نہیں کیا‘ یہ پولیس کو حملے کی وجوہات بھی بتاتا رہاتاہم یہ بار بار اپنا بیان تبدیل کر لیتا تھا۔

یہ شروع میں کہتا رہا مجھے حضرت داتا گنج بخشؒ نے خواب میں آ کر احسن اقبال کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ اب موبائل فونز کی تقریروں کو اس واردات کا ذمے دار قرار دے رہا ہے‘ یہ دل سے سمجھتا ہے احسن اقبال کا قتل جائز تھا اور اللہ تعالیٰ کو اس کی قربانی منظور نہیں تھی ورنہ یہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو جاتا‘ عابد حسین کو کسی بھی طرح کوئی پچھتاوا نہیں ‘ یہ حملے کو فرض سمجھتا ہے اور حکومت کو توہین رسالت کا مرتکب۔

ہم اگراس واقعے کو کیس اسٹڈی بنا کر اس کا تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا ہمارے ملک میں عابد حسین جیسے لاکھوں لوگوں کی ایک پوری پود پروان چڑھ چکی ہے‘ یہ لوگ دنیاوی علم سے بھی بے بہرہ ہیں اور یہ مذہب کابھی مکمل علم نہیں رکھتے‘ ان کے علم اور تربیت کا واحد ماخذ موبائل فون اور موبائل فونز پر گردش کرنے والے پیغامات ہیں‘ یہ ان پیغامات سے دوسروں کے کفر‘ ایمان اور توہین کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پھر مجرموں کو سزا دینے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

یہ لوگ ایک چلتا پھرتا ٹائم بم ہیں‘ یہ کسی بھی وقت اور کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں اور کوئی بھی ان کی زد میں آسکتا ہے ‘دو‘ ملک میں سیکیورٹی نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘آپ اندازہ کیجیے وزیرداخلہ کا اسٹاف تک نہیں جان سکا احسن اقبال کے آگے پیچھے ایک ایسا شخص پھر رہا ہے ۔

جس کے نیفے میں پستول ہے اور یہ کسی بھی وقت گولی چلا سکتا ہے اورتین‘ ملک میں اسلحے کی دستیابی کی حالت یہ ہے کہ ایک عام دودھ فروش پندرہ ہزار روپے میں عمارتی سامان بیچنے والے سے 30 بور کا پستول خرید سکتا ہے اور وہ اس پستول سے وزیر داخلہ پر فائر بھی کر سکتا ہے‘ کیا یہ تینوں عناصر ریاست کا فیلیئر نہیں ہیں؟ کیا ہم من حیث القوم اس فیلیئر کے ذمے دار نہیں ہیں ‘ کیا ریاست عابد حسین جیسے لوگوں‘ سیکیورٹی کے اس کمزور سسٹم اور اسلحہ کی اس فراوانی کے ساتھ چل سکے گی اور کیا ایسے حملہ آوروں کی موجودگی میں 2018ء کے الیکشن صاف اور شفاف ہو سکیں گے؟ میں الیکشن کی شفافیت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم میںیہ یقین سے کہہ سکتا ہوں پاکستان مسلم لیگ ن کھل کر الیکشن نہیں لڑ سکے گی‘ کیوں؟ کیونکہ قائدین جیل میں ہوں گے‘الیکٹ ایبلزجنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی طرح پارٹیاں بدل چکے ہوںگے اور جلسوں میں گولیاں چل رہی ہوںگی چنانچہ قصہ ختم‘ ن لیگ اے این پی بن گئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے