لائن آف کنٹرول روندنے کی للکاراور تاریخ کی گواہی

5 اگست 2019 کے بعد آزاد کشمیر اور پاکستان میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیاسی اور سماجی ماحول انتہائی گرم ہے۔ جہاں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان اور آزاد کشمیر میں احتجاج ہو رہے ہیں وہیں سیز فائر لائن کو روندے کے اعلانات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

اس صورتحال میں سیز فائر لائن روندنے کا پہلا اعلان وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر کی طرف سے سامنے آیا، جو انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کیا تاہم اس بارے کوئی تاریخ نہیں بتائی۔ اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی یوتھ آزاد کشمیر کے صدر نثار شائق نے 21 ستمبر2019 کو لائن آف کنٹرول روندکر بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کا اعلان کیا ہے جبکہ لبریشن فرنٹ (یسین ملک گروپ) نے 4 اکتوبر کو لائن آف کنٹرول عبور کر کے سری نگر جانے کا اعلان کیا ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اس اعلان کے فوری بعد امریکہ چلے گئے اور تاحال واپس وطن نہیں پہنچے۔

سیز فائر لائن کو روندنے کے اعلانات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس عمل کو آزاد کشمیرکے سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ دو سال قبل اکتوبر 2017 میں تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو ملین مارچ کی ناکامی کے بعد اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کا طریقہ سیز فائر لائن توڑنے کے اعلان کی صورت میں نظر آیا تھا مجو اعلان کی حد تک ہی محدود رہا۔

2016 میں مسلم کانفرنس کے سابق سربراہ سردار عتیق احمد خان نے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ اعلانات کیے تھے جن پر کوئی عمل درآمد نہ ہوا، جبکہ سابق امیر جماعت اسلامی نے بھی سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کیا تھا جسے بعد ازاں منسوخ کر دیا۔

بیرسٹر سلطان اس طرح کی کوشش 1992میں بھی کر چکے ہیں جس کے تین سال بعد انہیں آزاد ریاست جموں و کشمیر کی وزارت عظمیٰ کی کرسی ملی۔ سیز فائر لائن توڑنے کے اس طرح کے اعلانات اور کوششوں سے تاریخ بھری پڑی ہے،تا ہم کئی اعلانات صرف اعلانات کی حد تک محدود رہے اور جو کوششیں کی گئیں وہ بھی ناکام رہی ہیں۔

جنگ بندی لائن عبور کرنے کی سب سے پہلی کوشش کشمیر لبریشن موومنٹ نے 1957 ء میں کی تھی اور اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے، ان کے ساتھ سردار عبدالقیوم اور میرواعظ یوسف شاہ جیسے بڑے نام تحریک کا حصہ تھے۔


اس تحریک کے حوالے سے اس وقت کے آئی جی پولیس آزاد کشمیر راؤ رشید اپنی کتاب ”جو میں نے دیکھا“ میں لکھتے ہیں”:

”تجویز یہ تھی کہ آزاد کشمیر کے نہتے عوام سیز فائر لائن کراس کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائیں، وہ بے شک وہاں گرفتار ہو جائیں لیکن اس تعداد میں جائیں کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی اُٹھ کھڑی ہواور حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ ہندوستانی حکومت مجبور ہو جائے اور کچھ نا کچھ سمجھوتہ کرنا پڑے۔ تجویز بہت اچھی تھی اگر اس کے ساتھ نیک نیتی شامل ہوتی۔ میں یہ کرتا کہ جتھے آئے تو میں نے انہیں پکڑ کر جیلوں میں بند کرنے کے بجائے گاڑی میں ڈال کر پندرہ بیس کلومیٹر دور چھوڑ دیا۔ مانسہرہ، بالاکوٹ وغیرہ ان بے چاروں کو پیدل جانا پڑا۔ دو دن میں یہ تحریک ختم ہو گئی۔ اس وقت صدر پاکستان سکندر مرزا نتھیا گلی مری میں تھے۔ پنجاب کے آئی جی اے بی اعوان کا مجھے فون آیا کہ مری آ کر مجھ سے ملو۔ مری پہنچا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ آزاد کشمیر کی کیا سچوئشن ہے؟ میں نے کہا سچوئشن کنٹرول میں ہے۔کہنے لگے کیا مطلب؟ میں نے بتایا کے رضاکاروں کے ساتھ ہم نے اس طرح کیا۔ تو وہ کہنے لگے کیا آپ کویقین ہے کہ آپ نے موومنٹ ختم کر دی؟ میں نے کہا مجھے تو یہی کہا گیا تھا اس لئے موومنٹ ختم کر دی۔ کہنے لگے میں صدر سے مل کرآ رہا ہوں، وہ تو کہہ رہے تھے کہ غلام عباس بکواس کرتا تھا کہ وہ اس تحریک کو مہینوں چلائے گا۔ اس کے پاس لاکھوں رضاکار ہیں اور یہ تو دو دن میں ختم ہو گئی۔اعوان صاحب نے کہا کہ صدر اس بات پر بہت ناراض تھے۔ اس وقت میں یہ سمجھا تھا کہ یہ انڈیا پر اثر ڈالنا چاہتے تھے، اس لئے نالاں ہیں کہ اتنے جلدی کیوں ختم ہو گئی۔ لیکن اصل بات کا بعد میں علم ہوا اور وہ ایک سازش تھی جس میں اس وقت کے صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، چوہدری غلام عباس اور قدرت اللہ شہاب شامل تھے“۔

اس تحریک کے وقت آزاد کشمیر میں سردار ابراہیم کی حکومت تھی، جنہوں نے اس اقدام کی مخالفت کی اور اسے حکومت گرانے کے لئے ایک ہتھکنڈہ قرار دیا۔

راو رشید کی کتاب سے اقتباس

چوہدری غلام عباس کی تحریک کے بعد نوے کی دہائی میں کنٹرول لائن عبور کرنے کی عملی کوششیں کئی بار کی گئیں،جن میں بڑی کوشش قوم پرست جماعت نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے گل نواز بٹ کی سربراہی میں کی جس میں بڑی تعداد میں لوگ سیز فائر لائن کراس کرنے گئے اورتین لڑکے فائرنگ سے جاں بحق ہوئے اور سربراہوں کو گرفتار کر لیا گیا تو یہ کوشش ناکام ہوگئی۔

گلنواز بٹ

دوسری عملی کوشش چیئر مین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ امان اللہ خان نے کی تاہم شیخ رشید نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کروائے جس کے بعد اس کوشش کا اختتام ہوا۔اس کے کچھ عرصہ بعد ہی امان اللہ خان نے دوبارہ کوشش کی جو ناکامی کا شکار ہوئی۔

امان اللہ خان

1992 میں ضرب حیدر کے نام سے ایک بڑی کوشش ہوئی، جس میں تیتری نوٹ کی جانب سے جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے خالد ابراہیم اور چکوٹھی سے جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور خواجہ فاروق نے کوشش کی تھی، اس میں تین جگہ سے جنگ بندی لائن کو توڑنے کا منصوبہ تھا لیکن یہ بھی ناکام رہی۔اس کے بعد جب 1993 میں راجا ممتاز راٹھور کو وزارت عظمیٰ سے الگ کیا گیا تو ایک کوشش انہوں نے بھی کی تھی،جو بڑی تحریک نہ بن سکی۔1996میں ایک بار پھر لبریشن فرنٹ نے یہ کوشش کی تھی جس کے دوران امان اللہ خان کو ہجیرہ سے گرفتار کر لیا گیا۔

2016 میں مسلم کانفرنس کے اس وقت کے سربراہ سردار عتیق خان اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے اس وقت کے امیر عبد الرشید ترابی نے اعلان کئے تاہم کوئی عملی کوشش نہ کی گئی۔ 2017 میں بیرسٹر سلطان نے بھی اعلان کیا ہے جس کا عملی مظاہرہ نہ کیا جا سکا۔

بیرسٹر سلطان کی سابقہ کوشش کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے کہ 1992 میں ضرب حیدر کے نام سے کی جانے والی کوشش کے دوران انہیں چکوٹھی کے مقام پر روکے جانے کی توقع تھی تاہم پاکستانی فورسز نے انہیں روکا نہیں اور وہ عین آخری حدود پر پہنچ گئے جس کے بعد بیرسٹر سلطان مقامی سیکورٹی انچارج کے پاس گئے اور ان سے روکنے کی استدعا کی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا، جس کے بعد بیرسٹر سلطان نے باہر آکر کارکنان سے خطاب کیا اور کہا کہ ہم نے احتجاج ریکارڈ کروانا تھا جو کروا چکے اور یوں وہ مارچ اہتمام پذیر ہوا۔

اب وزیر اعظم آزاد کشمیر، جماعت اسلامی یوتھ اور لبریشن فرنٹ یاسین ملک گروپ نے کنٹرول لائن توڑنے کا اعلان کیا ہے تاہم اس وقت حالات مختلف ہیں، لوگوں کا ایک جذبہ ہے، عین ممکن ہے کہ ایک بڑی عوامی قوت ان جماعتوں کا ساتھ دے لیکن سابقہ روایات کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ اگر عملی کوشش کی جائے تو اس میں کامیابی ممکن ہو سکے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اس کوشش کو سیاست دان ہر بار اپنا سیاسی امیج بہتر بنانے کے لئے پولیٹیکل سٹنٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔جس کی واضح مثال چوہدری غلام عباس کے سردار ابراہیم کے ساتھ اختلاف میں لائن آف کنٹرول توڑنے کی حمایت سردارعبدالقیوم نے بڑھ چڑھ کر کی اور گرفتار بھی ہوئے۔ بعد ازاں سردار قیوم جب اقتدار میں تھے توانہوں نے اس کوشش کو دبانے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور خالد ابراہیم کی اس تحریک کو روکا تھا۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے سینئر صحافی و تجزیہ کار اور ملکی سطح کے آن لائن خبر رساں ادارے صباح نیوز کے ایڈیٹر سردار عاشق بھی مانتے ہیں کہ ایسی کوششوں میں خلوص کم اور سیاست زیادہ ہوتی ہے۔ کنٹرول لائن توڑنے کے نعرے کی کوئی عملی تعبیر نہیں ہے۔ کنٹرول لائن توڑنے کے اعلانات کرنے والے کیا اس بات کو نہیں سمجھتے کہ پاک فوج انہیں خونی لکیر عبور کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

سردار عاشق کے مطابق کنٹرول لائن توڑنے کی ایسی دھمکیوں کو ہمیشہ پاکستانی زیر انتظام کشمیرکے سیاستدانوں نے سیاسی دباؤ بنانے اورحریفین کو زیر کرنے کیلئے استعمال کیا۔انہوں نے حالیہ اعلانات کو بھی ایسی ہی پالیسی سے نتھی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نمائشی انتباہ سے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔

سردار عاشق کے مطابق آزاد حکومت کے ممبران کے دورے اور پروگرام یا تو سیر و تفریح کا باضابطہ ذریعہ بن چکے ہیں یا پھر ایسے پروگرام بہت سار ے لوگوں کی کمائی کی وجہ بن چکے ہیں اور اصل ایسے پروگراموں کا کشمیر مسئلہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

روزنامہ جموں کشمیر کے ایڈیٹر شہزاد راٹھور کا ماننا ہے کہ کنٹرول لائن توڑنے اور یورپی ممالک میں ملین مارچ یا دیگر تقاریب کے انعقاد کی باتیں کرنے سے مسئلہ کشمیر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے،البتہ ایسے حربوں کو آزاد کشمیرکی مقامی سیاست میں خوب استعمال کیاجاتا ہے اور ان کے نتیجہ میں ایک طرف جہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو رجھایا جاتا ہے،وہیں بہت سارے لوگوں کی عیاشی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔

شہزاد راٹھور کے مطابق آزاد کشمیراب نام کا’بیس کیمپ‘رہ چکا ہے اور یہاں اقتداری سیاست مقامی سیاستدانوں پر اس حد تک غالب آچکی ہے کہ وہ اب مسئلہ کشمیر کو بھی صرف ذاتی مفادات کیلئے استعمال تو کررہے ہیں لیکن عملی طور ان کا اس مسئلہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔آزاد کشمیرکے حکمران اور سیاستدان محض اس مسئلہ کے مستفیدین ہیں جو اس مسئلہ پر لب کشائی کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں جس سے یقینی طور پر ان کا ذاتی بھلا تو ہورہا ہے لیکن کشمیر مسئلہ کی ہیئت میں ذرا بھی فرق نہیں آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے