لبرل انتہا پسندی اور اس کے نتائج

انسانی زندگی کے ہر پہلواعتدال و میانہ روی مطلوب و مستحسن ہے،مذہب و عقیدہ ہو یا سماج و معاشرت،اظہار رائے ہو یا تجزیہ و تحقیق ہر معاملے میں حدود و قیود اور معتدل روایات نہ صرف باہم تصادم سے بچاتی ہیں بلکہ اعلیٰ اقدار کے فروغ میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں۔

گزشتہ چند سالوں سے لبرلزاور اسلام پسندوں کے درمیان مختلف فورمز پربھرپور کشمکش جاری ہے، سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سمیت ہر فورم پر مختلف انداز ایک دوسرے کا رد کرتے نظر آتے ہیں،اپنے اپنے خیالات و نظریات کی ترویج و اشاعت اور ایجنڈاکی تکمیل میں سرگرداں رہتے ہوئے کوئی ایساموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس میں فریق مخالف کو زیر و زچ کیاجا سکتا ہو۔اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ ہر ایک انسان کو اپنی رائے کے اظہار کا مکمل حق حاصل ہے، وہ اپنے عقائد ونظریات کی روشنی میں زندگی گزار سکتا ہے،کسی شخص کو قانوناً ،شرعاً اور اخلاقاً یہ حق نہیں حاصل ہو سکتا کہ وہ کسی کو جبراً اپنے نظرے کے مطابق عمل کروائے یا اسے اپنا طور طریقہ چھوڑنے پر مجبور کرے۔

سوشل میڈیا کی مقبولیت اور سماج میں رواج پکڑنے کے بعد لبرلز اور اسلام پسندوں کی باہمی کشمکش اس فورم پر زیادہ دیکھنے میں آئی،اختلاف رائے و نظریات کے حسن کے ساتھ سب سے بڑی قباحت یہ دیکھنے میں آئی کہ لبرلز نے تمام اخلاقی و معاشرتی حدود کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے، منظم انداز میں، مختلف عجیب وغریب ناموں کے ساتھ توہین آمیز بلاگز اور پیجز بنائے جن میں اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ سے لے کر پیغمبر اسلام ﷺ ،شعائر اسلام اور احکامات اسلام کو طعن و تشنیع اورتوہین کا نشانہ بنایا گیا تھا، یہ تعداد کے ا عتبار بہت زیادہ تھے، آئے روز مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے کھیلا جاتا تھا، فیس بک انتظامیہ کو رپورٹنگ سے لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ تک اس لبرل انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مربوط جدوجہد کی گئی ،جس کے نتیجہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کیس کو سنا اور سوشل میڈیا پر توہین آمیز صفحات اور بلاگز کے خلاف بھرپور ایکشن لیا اور حکومت سے مؤثر کاروائی کرنے کا کہا،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کے معاملے کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس کا مدعی پورا پاکستان ہے ،اگر رسول اللہ ﷺ کی عزت وناموس کے لیے سوشل میڈیاکو بھی بند کرنا پڑا تو اس کا بھی حکم دے دیں گے،۔وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی خصوصی ہدایت ہر PTAنے ممکنہ حد تک ایسے مواد کے خلاف کاروائی کی ۔

اسی تناظر میں اگر عبدالولی خان یونیورسٹی واقعہ کو دیکھا جائے تو ماس اینڈ کیمونیکیشن کے مقتول طالب علم مشال خان کا معاملہ جہاں اپنے اندر کچھ ابہامات رکھتا ہے، وہیں مشال خان کی سوشل میڈیا اور یونیورسٹی فیلوز کے ساتھ غیر محتاط اور اسلام و شعائر اسلام کے حوالے سے بے لاگ گفتگو کوبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مشال سمیت تین طلبہ کو یونیورسٹی میں داخلہ پر پابندی کے ساتھ ساتھ معاملہ کی تحقیقات کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے کمیٹی بھی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔

13اپریل کا یہ واقعہ ہر صورت قابل مذمت اور باعث اذیت ہے، قانون اور اداروں کی موجودگی میں کوئی مہذب معاشرہ کسی فرد،گروہ،جتھہ اور جماعت کو سٹریٹ جسٹس کی اجازت نہیں دیتا ہے،مشال خان کی مبینہ توہین رسالت و مذہب کو قانون کے کٹہرے میں لا کر جھوٹ یا سچ ثابت کیا جاسکتا تھا،اور295Cانسداد توہین رسالت ایکٹ کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکتے تھے، مگر قانون کو کیوں ہاتھ میں لیا گیا ؟تشدد اور بلوائیت کا راستہ کیوں چنا گیا ؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملہ واضح ہوتا چلا جائے گا لیکن سب سے بنیادی عنصر انسداد توہین رسالت کے عملی طور پر نفاذ کو مختلف انداز میں مؤخر کرنا ہے، دوسری وجہ لبرل انتہا ء پسندی ہے، یہ انتہاپسنداور مذہب بیزار لوگ آزادی اظہار رائے کے خوبصورت سراپا میں اسلام ،شعائر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے حوالے سے بدترین اور توہین آمیز انداز و زبان استعمال کرتے ہیں ،اور مختلف عنوانات اور لیبلز کے ساتھ اپنی فکر و سوچ کو متدین اور مسلم معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی قانون کا سہارا لینے کی کوشش کرے تومختلف عوامل اور ہتھ کنڈوں کے ذریعے راستہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ،جس کے نتیجہ میں سوائے مایوسی اور مشکلات کے کچھ حاصل نہیں کر پاتا ہے۔

اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اگر آئین وقانون شکنی فیشن اور تفاخر بن جائے اور قانونی تقاضے پامال کئے جائیں تو سماج میں اس کے نتائج پرتشدد واقعات کی صورت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادی اظہار رائے کے حدود اربع کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ انسداد توہین رسالت ایکٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ توہین مذہب و مقدس شخصیات کی روک تھام ممکن ہو سکے اور تحمل ،برداشت اوراعتدال کو رواج مل سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے