لیڈر لیس خون خرابے کی طرف سفر ۔

سانحہ ساہیوال کے مدعی اور بچوں کے چچا جلیل نے عظیم تر قومی مفاد میں عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اداروں پر تنقید نہ کرنے کا مشورہ دیا یے ۔معاشرہ گھروں سے بنتا ہے ۔گھروں میں سانحہ کی بھینٹ چڑھنے والے ماں باپ اور بچے رہتے ہیں اور تمام گھر اس حوالہ سے ایک جیسے ہیں ، اس کھلی بربریت اور سفاکی سے سارا معاشرہ متاثر ہوا ۔

ریاست نے سانحہ کے مدعی کو دیت کے نام پر پانچ کروڑ روپیہ دئے ۔مرنے والے مظلوم ڈرائیور کو چونکہ اصل ملزم قرار دے دیا گیا اس لئے نہ حساب ،نہ کتاب اور نہ دیت ۔ریاست ماں نہیں ڈائن بن گئی ایک بے گناہ مجرم بنا دیا اور باقی مقتولین کولیٹرل ڈمیج کی مد میں ڈال دئے اور یوں خاک نشینوں کا خون رزق خاک ہوا۔

اس سانحہ کا ایک اور المناک پہلو ہے جو انسانی خود غرضی ،سفاکیت اور خون سفید ہونے کی علامت ہے ۔زندہ چھوڑ دئے جانے والے بچے عمیر اور اس کی دونوں بہنیں یتیم ہو چکی اور ان کے نام پر مدعی چچا کی لاٹری نکل آئی ۔چچا کے بچوں کا سکول تبدیل ہو گیا وہ سرکاری سکول سے پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول میں چلے گئے اور جن کے نام پر بھاری رقم وصول ہوئی وہ اب بھی سرکاری سکول میں ہیں ۔یتیمی کیسے کہتے ہیں ؟ یتیمی وہی ہے جس سے مقتول خاندان کے بچے گزر رہے ہیں ۔

چچا کچھ عرصہ بعد نیا گھر بھی خرید لے گا اور جب تک یتیم بچے جوان ہوں گے پانچ کروڑ ٹھکانے لگ چکے ہوں گے ۔چچا جلیل نے اگر ملزمان کو معاف کیا ہے تو صیح کیا ہے ۔مرنے والے تو واپس نہیں آئیں گے جو زندہ ہیں انکی زندگیاں کیوں نہ بہتر بنا لی جائیں ۔

قانون اور انصاف تو جنرل مشرف کیلئے ہے ، ڈاکٹر شازیہ کے ملزمان کیلئے ہے ۔قانون اور انصاف تو راو انوار اور کراچی حیدرآباد موٹر وے پر مرنے والے چار ڈرائیوروں کیلئے ہے ۔قانون اور انصاف بینظیر بھٹو کے قاتلوں کیلئے ہے اور نیب تحویل کے دس روز کے دوران تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم کو موت کے منہ میں دھکیلنے والوں کیلئے ہے ۔دو طرح کا قانون اور انصاف ہے ایک رانا ثنا اللہ ،مریم نواز ،اصف علی زرداری ،شاہد خاقان عباسی بینظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کیلئے ہے اور دوسرا جنرل مشرف ،راو انوار اور ڈاکٹر شازیہ کے ملزم کیپٹن کیلئے ہے ۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی ان قوتوں نے یتیم بنا دیا ہے جنہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کو سانحہ ساہیوال کے مدعی جلیل جیسا بنایا ہے ۔لاہور اور گوجرانوالہ سے نواز شریف کے ٹکٹ پر جیتنے والے پچاس سے زیادہ ایم این اے اور ایم پی اے چچا جلیل جیسے بن گئے ہیں انہیں بھی پانچ کروڑ جیسی کوئی دیت نواز شریف کے مرنے سے پہلے مل گئی ہے ۔نواز شریف ہسپتال میں مر رہا ہے ۔مریم نواز جیل میں سڑ رہی ہے ۔شاہد خاقان عباسی موت کی کال کوٹھری میں منتقل کر دیا ہے ۔رانا ثنا اللہ اکیس کلو منشیات کا ملزم بن چکا ہے اور کیپٹن صفدر کو ضمانت نہیں ملی جو چچا جلیل نہیں بن سکتے وہ قیدی بن گئے ہیں جو احسن اقبال اور خواجہ اصف ہیں انہیں ٹویٹ کرنے اور معاملات کی مذمت کرنے کیلئے آزاد رکھ چھوڑا ہے اور نواز شریف کے مرنے کے بعد یہی لوگ نمایاں لیدر بھی ہوں گے ۔

سانحہ ساہیوال کا غصہ عوام بے بسی کا استعارہ ہے لیڈروں کو جیلوں میں ڈال کر لیڈر لیس خون خرابے کی طرف سفر شروع کر دیا ہے ۔ایک دفعہ معاملات خراب ہو گئے تو کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا ۔

اس وقت بھلے اصف زرداری ،مریم نواز اور دوسرے سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیں کھیل ہاتھ سے نکل جائے گا اور جب ایک دفعہ کھیل ہاتھ سے نکل جائے کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ۔محسن ڈاور نے قومی اسمبلی میں رہائی کے بعد پہلی تقریر میں ایک پشتو شعر پڑھا تو میرے ہاتھ باندھ کر مجھے تھپڑ مارنے والے میں بدلہ لوں گا ۔ہمیں ڈر لگتا ہے کھیل ہاتھ سے نکلنے کا وقت قریب آ رہا ہے ۔نواز شریف کی موت اور مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ بہتر سال کے غصہ،بے بسی اور لاچارگی کے خلاف احتجاج کا موقع نہ بن جائے ۔

معاملات پہلے جیسے نہیں ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں لوگ اپنے غصے اور فرسٹریشن کے اظہار کا موقع دیکھ رہے ہیں اس مارچ کو ملتوی کرا دیں یا مولانا فضل الرحمن کو گرفتار کر لیں بے بسی اور فرسٹریشن کا اظہار ہونا ہی ہے ۔ہمیں خوف ہے معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے