مائنس تھری

وزیر اعظم نواز شریف کے دل کی بیماری نے پاکستانی سیاست کے ایک صحتمندانہ پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے ڈاکٹروں کی طرف سے انہیں گزشتہ کئی ماہ سے خبردار کیا جارہا تھا کہ وہ اپنے دل کے علاج پر توجہ دیں لیکن یہ بیمار آدمی حالات کے گھوڑے پر سوار تھا اور ہاتھ میں تلوار لئے شہر شہر اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتا پھررہا تھا۔ اہل خانہ کے اصرار پر چیک اپ کرایا گیا تو خدشات درست ثابت ہوئے۔ ڈاکٹروں نے علاج کیلئے وقت نکالنے کی درخواست کی تو جنگ پر آمادہ وزیر اعظم کچھ مہلت مانگ کر پھر سے گھوڑے پر سوار ہوگئے۔نجی محفلوں میں کچھ صاحبان نے انہیں جمہوریت کو درپیش خطرات سے ڈرایا تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ ہتھیار نہیں ڈالوں گا، آخری دم تک لڑوں گا جس نے جو کرنا ہے کرلے۔ ان کے’’شوق شہادت‘‘ نے کچھ مصاحبین کو پریشان کیا لیکن ان کے ساتھیوں کی اکثریت خم ٹھونک کر اپنے لیڈر کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔

جب عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری نے پاناما پیپرز کے شور میں وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگنا شروع کردیا تو نواز شریف نے جواب میں کہا’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔ مسور کی دال کو ابھی تڑکا نہیں لگا تھا کہ وزیر اعظم کو طبی معائنے کیلئے دوبارہ برطانیہ جانا پڑا۔ ڈاکٹروں نے دل کے آپریشن کا اعلان کردیا۔ آپریشن کی خبر سامنے آنے کے فوراً بعد ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے سیاسی مخالفین نے نیک تمنائوں کا اظہار شروع کردیا اور وزیر اعظم نواز شریف کی صحت یابی کیلئے دعا کی۔ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے وزیر اعظم کیلئے خیر سگالی کے جذبات کا سامنے آ نا بہت سے پاکستانیوں کیلئے باعث اطمینان بنا۔ سیاستدانوں نے قوم کو یہ پیغام دیا کہ سیاسی اختلاف کا مطلب سیاسی دشمنی نہیں ہوتا۔

ائیر چیف سہیل امان نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ذریعے اپنے نیک جذبات وزیر اعظم تک پہنچائے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی نیک تمنائیں شہباز شریف کے ذریعے وزیر اعظم تک پہنچ گئیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک مختلف موقف اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بیرون ملک میں بستر علالت سے امور مملکت نہیں چلا سکتے انہیں کسی وزیر کو اپنی جگہ وزیر اعظم مقرر کرنا چاہئے۔ افتخار محمد چوہدری کے اس موقف نے انہیں ان سیاستدانوں کی صف میں کھڑا کردیا جن کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ان کا موقف آئینی و قانونی لحاظ سے بہت کمزور ہے۔ ان کے ایک استاد جناب ایس ایم ظفر صاحب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آئین کی دفعہ90کی ذیلی شق دو کے تحت اپنے وزراء کے ذریعے بھی فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔ دیگر قوانین کے تحت وزیر اعظم ا یک وقت میں تین ماہ کی رخصت بھی لے سکتے ہیں لیکن شاید سابق چیف جسٹس نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی محض پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ایک پریس کانفرنس کرڈالی۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سیاسی پوائنٹ ا سکورنگ نے مجھے ایک واقعہ یاد دلایا ہے۔ مارچ2009کے پہلے ہفتے میں جامعہ نعیمیہ لاہور میں مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے اپنے والد مفتی محمد حسین نعیمی ؒ کی یاد میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس سیمینار کے مہمان خصوصی نواز شریف تھے اور مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔ ا سٹیج پر صاحبزادہ فضل کریم مرحوم کے ذریعے نواز شریف صاحب نے مجھے پیغام دیا کہ اس تقریب کے بعد وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ تقریب ختم ہوئی تو میں نواز شریف اور پرویز رشید کے ساتھ رائے ونڈ آگیا۔ یہ وہ دن تھے جب معزول ججوں کی بحالی کے مسئلے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سخت کشیدگی تھی۔ پنجاب میں گورنر راج نافذ تھا لیکن ججوں کی بحالی کیلئے وکلاء تحریک کمزور پڑچکی تھی۔ وکلاء رہنما وفود کی صورت میں نواز شریف سے ملاقاتیں کررہے تھے اور ان سے لانگ مارچ کی درخواستیں کررہے تھے۔ ایک خاتون وکیل رہنما نواز شریف اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے درمیان مفاہمت کی کوشش میں مصروف تھیں۔ نواز شریف نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مسلم لیگ(ن) کو ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کرنا چاہئے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو نواز شریف نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سیاسی عزائم کے بارے میں کچھ باتیں پوچھیں۔ میں نے کہا کہ یہی باتیں صدر زرداری کے دل و دماغ میں بھی ہیں لیکن ہم کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ60ججوں کی بحالی کیلئے لڑرہے ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت کے تحت حلف لینے سے انکار کیا۔ میں نے نواز شریف کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن ایک اور صاحب نے بڑے زہریلے انداز میں کہا کہ افتخار محمد چوہدری ہمیں وہاں مارے گا جہاں پانی بھی نہیں ملے گا۔ نواز شریف نے میری طرف دیکھا، میں نے عرض کیا کہ میرے پاس افتخار محمد چوہدری کی شخصیت و کردار سے متعلق زیادہ اطلاعات نہیں ہیں انہوں نے ایک وقت میں مشرف کا ساتھ دیا ایک وقت میں مشرف کے سامنے انکار کیا ،میں سیاستدان بھی نہیں ہوں اس لئے آپ کی طرح سیاسی مصلحتوں اور نزاکتوں کو سامنے رکھے بغیر ایک سادہ سی رائے رکھتا ہوں کہ مشرف کے غیر آئینی اقدام کے تحت حلف سے انکار کرنے والے ججوں کی تعداد60کے قریب ہے یہ آئین کی بالا دستی کا مسئلہ ہے اس لئے مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر ضرور نکلنا چاہئے۔ پرویز رشید نے میرے موقف کی تائید کی۔ اسی شام نواز شریف نے اپنی پارٹی کے مزید ساتھیوں سے مشورہ کیا تو اکثریت لانگ مارچ کے حق میں تھی اپنے ذاتی تحفظات کے باوجود نواز شریف نے لانگ مارچ کیا اور افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرایا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد افتخار محمد چوہدری صدارتی نظام کے نعرے کے ساتھ سیاست میں وارد ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے مداحوں کو مایوس کیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر صدارتی نظام کا نعرہ لگارہے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کا ہم خیال بننے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہم دونوں کے اظہار رائے کے حق کا احترام کرتے ہیں لیکن وطن عزیز میں آزادی اظہار کیلئے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔

آزادی اظہار کیلئے بڑھتے ہوئے خطرات پر گفتگو کیلئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر ہفتہ کے دن ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس میں اہل سیاست اور اہل صحافت کے علاوہ سینئر وکلا ء اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک تھے۔ یہاں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پاکستان میں مائنس ون نہیں بلکہ مائنس تھری فارمولے پر کام ہورہا ہے۔ اس مائنس تھری میں پہلے الطاف حسین شامل ہوئے، پھر آصف زرداری اور اب نوازشریف بھی شامل ہوچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ دراصل’’تھری ان ون‘‘ ہے جس کا اصل مقصد موجودہ سسٹم کو مائنس کرنا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے سیاسی مصلحتوں سے لبریز غیر متاثر کن خیالات کا اظہار کیا لیکن عاصمہ جہانگیر، قلب عباس اور عابد بھٹی ساقی سمیت کئی وکلاء اور صحافیوں نے بڑی جرأت مندانہ باتیں کیں اور یہ امید پیدا ہوئی کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کے باوجود سول سوسائٹی ابھی زندہ ہے۔ آزاد ی اظہار کی ایک نئی جنگ شروع ہونے والی ہے۔ یہ جنگ عدالتوں میں بھی لڑی جائے گی اور بوقت ضرورت سڑکوں پر بھی لڑی جائے گی۔ اس کا آغاز اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کے مطالبے سے شروع ہوگا اور اس کا انجام مائنس تھری فارمولے بنانے والوں کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے