مادر پدر آزاد سے کنٹرولڈ جمہوریت تک

اگر ضمیر میں زندگی کی تھوڑی سی رمق بھی موجود ہو تو اپنے زوال کو سمجھنے کے لئے صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب فاروق اعظم امیر المومنین اپنے تمام تر جلال و جمال سمیت موجود، اردد گرد لوگوں کا ہجوم کہ اک عام سابدو حکمرانوں کے حکمران سے کھردرے لہجے میں ان کے کرتے بارے سوال کرتا ہے کہ کم کپڑے میں آپ جیسے قدآور کا کرتا کیسے تیار ہوگیا؟

عمرؓ بن خطاب برا منائے بغیرفرماتے ہیں، ’’اس کا جواب میرا فرزند دے گا۔‘‘صاحب زادہ عوام کو بتاتا ہے کہ ’’میں نے اپنے حصہ کا کپڑا والد کو پیش کردیا تاکہ ان کا کرتا مکمل ہوسکے۔‘‘تب ایک حقیر سے کرتے بارے سوال کا جواب حاضر تھا اور اب صدیوں بعد حال یہ ہے کہ بیرون ملک اربوں روپے کی جائیداد بارے پوچھاجاتا ہے، ’’شاہی‘‘ خاندان میں سے کوئی کچھ کوئی کچھ، کبھی کچھ، کبھی کچھ بولتاہے۔

کبھی خط نما چیتھڑا یا چیتھڑا نما خط پیش کردیاجاتا ہے۔ اتنے بڑے سوال کا چھوٹا سا جواب بھی موجود نہیں الٹاکہتے ہیں کہ اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو اس سے کیا غرض؟زوال کی مثال میں کمال کا پہلو یہ ہے کہ پہلے واقعہ میں حکمرانوںکا حکمران ایک عام بدو کو جوابدہ ہے، دوسرے واقعہ میں جوپہلے کی خاک پا جیسا بھی نہیں، اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے جواب دہی کو بھی ملک کے خلاف سازش قراردیتا ہے تو عروج و زوال کا فرق بھی صاف ظاہر ہے اور نتائج بھی سامنے ہیں۔بچپن سے پڑھنے سننے والی مثال کے بعد بھی زوال درزوال کی وجہ سمجھ نہ آئے تو کوئی کیا کرے اور کہاں جائے لیکن کیا یہ سب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارا مقدرہے؟ہرگز نہیں….. کہ وقت کے تیور تبدیل ہوچکے، موسم بدل رہا ہے۔ حالات کینچلی اتار چکے لیکن جن کے جبڑوں کو خون لگا ہے انہیں سمجھ نہیں آرہی لیکن دھیرج…..سہج پکنے والا میٹھا ہوگا اور سب کی سمجھ میں بھی آجائے گا۔اوور ایکٹ اور اوور ری ایکٹ کرنے پر اس سے بہتر جواب ممکن نہیں۔’’جو سمجھتے ہیں گرفت نہیں ہوگی، غلطی پر ہیں۔

لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی۔ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔‘‘’’قومی خزانے کے محافظوں سے سوال کرنا جرم ہے توکرتے رہیں گے۔

پاکستان 84ارب ڈالر کا مقروض، یہ رقم کہیں خرچ ہوئی نظر نہیں آتی۔‘‘’’کرپشن مزید برداشت نہیں۔ جن کے ذہن میں ہے ہمیں کچھ نہیں کہا جائےگا، وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔‘‘پیپلزپارٹی کا تبصرہ انتہائی متوازن اور مختصر…. ’’چیئرمین نیب نے غلط کیا کیا، صرف تصدیق کا ہی تو کہا ہے۔

‘‘لیکن ٹویسٹ ٹیچر اور سوئنگ ماسٹر اپنے مخصوص حربوں سے لیس حالانکہ اسے خوش ہونا چاہئے تھاکہ اک بدنما افواہ نما خبر کی تردید ہوسکے گی اور وہ بھی ’’نیب‘‘ سے لیکن نہیں کہ حقائق کو مسخ کرنا مرغوب و محبوب مشغلہ اور یہی ان کی جمہوریت ہے۔دو دن پہلے جمہوریت کا ایک چیمپئن کسی ٹی وی چینل پر ’’کنٹرولڈ ڈیموکریسی‘‘‘ پرماتم کناں تھا اور سننے والا دفاعی انداز اختیار کئے ہوئے تھا جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی کہ مادر پدر آزاد خودمختار جمہوریت کے ہم متحمل ہو ہی نہیں سکتے ، یہ اذیت ناک خودکشی کے برابرہے جس کا شرمناک مظاہرہ ہم گزشتہ دس سال سے بھگت رہے ہیں۔جمہوریت اپنی جائے پیدائش انگلستان میں بھی ’’کنٹرولڈ‘‘ ہی تھی جو مختلف مراحل سے گزر کر یہا ں تک پہنچی۔ ابھی چند روز پہلے تو 19ویں صدی کی Pocket Boroughsپر لکھ چکا جب مخصوص حلقوں پر مخصوص افراد، خاندانوں کا ’’قبضہ‘‘ ہوتا اور ان بدبختوں کی تمام تر وفاداری اپنے ووٹرز نہیں….. جمہوری مافیا چیفس کے ساتھ ہوتی تھی۔آغاز میں تو اولاد جیسی نعمت پر بھی کنٹرول در کنٹرول نافذ کیا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ کھانے اور پہننے تک پر پابندیا ں اور سنسرز ہوتے ہیں، بزرگ اس پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ ابتدائی سالوں اور پھر ٹین ایج سے گزرتے بچے کس قسم کے بچوں سے میل جول رکھے ہوئے ہیں۔ ذمہ دار، سمجھداروالدین 18سال کی عمرسے پہلے بچوںکو ڈرائیونگ کی اجازت نہیںدیتے اورپھر یہ ’’کنٹرولڈ بچپن‘‘ بتدریج ’’کنٹرولڈ جوانی‘‘ تک پہنچتاہے تو آہستہ آہستہ یہ کنٹرولز بزرگوں سے بچوںکی طرف شفٹ ہونے لگتے ہیں۔

اب بچہ باپ کو بتا رہاہوتاہے کہ ’’بابا!سگریٹ نوشی ٹھیک نہیں!‘‘….. ’’فلاں غذامناسب نہیں‘‘ …. ’’آپ کی واک کا ٹائم ہو گیا‘‘وغیرہ وغیرہ تو اس جمہور دشمن جمہوریت کو کس طرح کھلااور بے لگام چھوڑا جاسکتا ہے؟پاکستانی جمہوریت تو ابھی پنگھوڑے میں ہے۔ ابھی اسے کھلانے پلانے نہلانے اور پیمپرز بدلنے کیلئے بھی مدد کی ضرورت ہے۔ اس لئے فی الحال اسے کنٹرول میں ہی رکھو تو بہتر ہے ورنہ خود بھی خراب ہوگی، ’’والدین‘‘ کو بھی خراب کرے گی۔

پہلے ’’جمہور‘‘ کو اس قابل بنائو کہ ’’جمہوریت‘‘ کو کنٹرول کرنے جوگے ہوجائیں۔ تب تک اسے گاموںماجھوں اور گوالمنڈی کی آزاد فضائوں سے محفوظ رکھناضروری ہے ورنہ84ارب ڈالر کا قرضہ 184ارب ڈالر بھی ہوسکتاہے اور پھر 284ارب بھی جو خودچکا نہیںسکو گے اور کوئی عرب بھی چکانے نہیںآئے گا تو انجام وہی ہوگا جوعربی قطری خط کاہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے