ماما جی کی عدالت اور نواز شریف

اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے، میں تو یہ فیصلہ کئی دن پہلے سے سن چکا ہوں اور اس کے بعد بھی بیسیوں دفعہ یہ فیصلہ سنا ہے۔ ماماجی کی عدالت کے فاضل جج عمران خان بارہا سنا چکے ہیں کہ نواز شریف کو صرف نااہل ہی قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ ان کے لئے اڈیالہ جیل میں رہائش کے انتظامات بھی مکمل کر دیئے گئے ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں ’’ماماجی کی عدالت‘‘ کی وضاحت کر لوں کہ ایک پنجابی فلم میں عہد ساز کامیڈین ظریف مرحوم ایک چارپائی پر روزانہ ’’عدالت‘‘ لگایا کرتے تھے جس میں انتہائی مضحکہ خیز فیصلے صادر کئے جاتے تھے۔ اس عدالت کو ماما جی کی عدالت کہا جاتا تھا۔

ہمارے ماما جی عمران خان بھی 2013سے تقریباً روزانہ عدالت لگاتے چلے آ رہے ہیں، انہوں نے اپنے پہلے دھرنے میں روزانہ کئی اہم فیصلے صادر فرمائے مگر اس وقت ان فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے ایک عدد انگلی کا انتظار رہتا تھا، وہ دھرنے کے نام پر انقلاب لانے والے میلے میں روزانہ یہ نوید سناتے تھے کہ بس تھوڑی دیر اور انگلی کا انتظار کریں مگر افسوس یہ انگلی ان کے نصیب میں نہیں تھی۔ ان کی مدد کو کینیڈین شہری پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں بطور وزٹنگ پروفیسر بھی تشریف لاتے اور اپنے مریدوں سمیت ایک طویل عرصے تک وہ اس امپائر کی انگلی کا انتظار کرتے رہے۔ مگر ان کے مقدر میں بھی یہ انگلی نہیں تھی کیونکہ انگلی اٹھانے والے کی اپنی کچھ شرائط تھیں، ان شرائط میں صرف پی ٹی وی پر حملہ کرنا ہی کافی نہیں تھا، دس بیس ماں بہنوں کے نوحے بھی سنائی دینا ضروری تھے مگر حکومت نے وہاں سے پولیس ہی اٹھا لی۔ اوپر سے ازلی باغی رہنما جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی کو داغ مفارقت دیتے ہوئے اس کی وجہ بھی بیان کر دی کہ وہ کسی ایسی جماعت میں شریک نہیں رہ سکتے جو عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آنے کی بجائے کسی انگلی پر بھروسہ کرے۔ اس ستم ظریف نے تو وہ ساری اندرونی کہانی بھی بیان کر دی جو عمران خان نے انہیں سنائی تھی اور کہا تھا کہ انگلی والے نے اپنا وعدہ پورا کرنے کی انہیں تازہ یقین دہانی بھی کرائی ہے، مگر وائے افسوس کہ یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ موصوف اپنی تمام تر کوشش اور اشتعال انگیزی کے باوجود انگلی والے کی خواہش پوری نہ کر سکے۔ چنانچہ یہ کف افسوس ملتے رہ گئے کہ افسوس حکومت نے ان کے دس بیس کارکن گولیوں سے کیوں نہ بھون دیئے؟ ورنہ وہ تو وزیر اعظم بننے ہی والے تھے۔ انہوں نے تو احتیاطاً دو تین شیروانیاں بھی تیار کروالی تھیں۔

اس روز سے آج تک عمران خان روزانہ ’’ماما جی کی عدالت‘‘ لگاتے ہیں اور یہ عدالتیں مختلف چینلز سے ٹاک شوز کے ذریعے ان کے چیلے چانٹے بھی لگاتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی وزیر اعظم کے لئے مختلف سزائیں تجویز کرتا ہے، چنانچہ سپریم کورٹ نے اگر ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں سنایا تو اس کی وجہ یہ مخمصہ ہے کہ وہ اتنی مختلف انواع کی سزائوں میں سے کون سی سزا وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو سنائے۔ اب ایشو یہ ہے کہ ماماجی عدالت کے یہ سب فاضل جج صاحبان کسی ایک سزا پر متفق ہوں تو سپریم کورٹ اس کیس کا اعلان کر سکے۔

اور ظاہر ہے یہ بات میں از راہ تفنن کر رہا ہوں ورنہ سپریم کورٹ کے متعلق تو عمومی حسن ظن یہی پایا جاتا ہے کہ وہ ماضی کی گھنائونی مثالوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے اس بار سپریم کورٹ کی عزت اور وقار بحال کرے گی۔ جے آئی ٹی تو مکمل طور پر مشکوک ہو چکی ہے چنانچہ اس کی کسی ’’فائنڈنگ‘‘ کی توثیق پھر بھی اگر کوئی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم تو بار بار سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا ہر فیصلہ قبول کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے لئے ان کے دل میں احترام کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی استثنیٰ نہیں لیا ورنہ وہ چاہتے تو انہیں اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو کورٹ کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ بہت آرام سے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کر سکتے تھے مگر انہوں نے اپنے لئے ایک مشکل راستہ منتخب کیا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عدالت نے یہ مان لیا کہ ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور یوں عمران خان اور ان کے حواری نواز شریف کے منہ پر جو کالک ملنا چاہتے تھے وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ تو انہیں قوم کے سامنے دوسرے زرداری کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے مگر نواز شریف کو زرداری بنانے کی یہ خواہش بھی ان کے دل میں ہی رہ گئی۔

اور اب آخر میں یہ کہ میں کسی ماما جی کی عدالت کا ’’فاضل جج‘‘ نہیں ہوں کہ یہاں پیش گوئی کرنے بیٹھ جائوں کہ فاضل عدالت کیا فیصلہ سنانے والی ہے، یہ اس کا کام ہے کسی اور کا نہیں مگر میں یہ بتا سکتا ہوں کہ مختلف سرویز کے مطابق نواز شریف کی بے پناہ کردار کشی کے باوجود اس وقت بھی پاکستان کے پینسٹھ فیصد عوام ان کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ آج اگر نواز شریف جی ٹی روڈ سے اپنے سفر کا آغاز کریں تو راستے میں عوام قافلہ در قافلہ ان کے ساتھ شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ’’ماما جی کی عدالتیں‘‘ لگانے والے اس روز کیا کہہ رہے ہوں گے۔ میں نے سوچ لیا ہے وہ یہی کہہ رہے ہوں گے جو وہ آج کہہ رہے ہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے