محمد ، پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

مطالعے کا شوق بچپن ہی سے تھا ، اب جنون بن چکا ، جیب میں چند پیسے آ جائیں تو آج بھی پہلا پڑاؤ کسی بک شاپ پر ہوتا ہے ۔ گھر میں کتابیں ہی کتابیں بکھری پڑی ہیں ۔ پہلے صرف میں تھا اب علی ، عائشہ اور عروہ بھی ہیں چنانچہ اب بچوں کے ادب کابھی انبار لگا ہے ۔ لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں آج تک جتنی بھی کتابیں میرے زیر مطالعہ رہیں ان میں سب سے اچھی کتاب کون سی ہے تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر جواب دوں گا : کانسٹنٹ ورجل جورجیو کی محمد ، پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔

اس کتاب کا مطالعہ آدمی کو ششدر کر دیتا ہے ۔ رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ پر کتنی ہی کتابیں لکھی جا چکیں لیکن کانسٹنٹ ورجل جورجیو کی کتاب میں ایک غضب کی انفرادیت ہے ۔ حیات طیبہ کے مختلف گوشوں سے بطور مسلمان آگہی کے باوجود اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بہت سے ایسے مقام آتے ہیں کہ آدمی حیرت سے تھم جاتا ہے کہ اوہ ، اچھا تو یہ واقعہ یوں ہوا تھا ۔ خود میرے ساتھ یہ ہوا کہ میں درجنوں مقامات پر اسی کیفیت سے دوچار ہوا ۔ بہت سے واققات پڑھ تو رکھے تھے لیکن ان کی معنویت تب آشکار ہوئی جب اس کتاب کو پڑھا ۔ میں سمجھتا ہوں جس نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا وہ محروم رہا ۔ جسے سیرت طیبہ کو اپنے پورے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کا شوق ہو وہ اس کتاب کو کھول لے، حیرتوں کا ایک جہان اس کے سامنے ہو گا ۔

میں اگر اس کتاب کی انفرادیت بیان کرنا شروع کر دوں تو اسے کالم کی تنگنائے میں سمیٹنا ممکن نہ رہے ۔ آج سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن ہے آج کانسٹنٹ ورجل جورجیو کی کتاب کے صرف وہ اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں ماں کے مقدس رشتے کی بات کی گئی ہے۔

’’ لوگ بی بی آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) کے گرد جمع تھے ۔ بی بی آمنہ کسی وقت زیر لب خود کلامی کرتیں ۔ کم سن محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ سب منظر دیکھا اور محسوس کیا کہ ان کی والدہ کوئی جواب نہیں دے رہیں تو ماں کے سینے سے لپٹ گئے اور روتے ہوئے کہا : ماں! ماں! آپ جواب کیوں نہیں دیتیں ؟ مگر ان کی روح پرواز کر چکی تھی‘‘۔

قبر پر مٹی ڈال دی گئی ۔ رشتہ دار احباب لوٹے تو دیکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ نہیں ہیں ۔ فوری واپس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے قدرے بلند آواز میں اپنی والدہ کو پکار کر کہہ رہے ہیں : آپ گھر کیوں نہیں چلتیں ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میرا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماں اور باپ دونوں کھو چکے تھے۔آپ ایک گوشے میں بیٹھے رہا کرتے۔ یہاں تک کہ بچے انہیں کھیلنے کی دعوت دیتے تو وہ کہتے: مجھے میرے حال پر چھوڑ دو میں تم سے کھیلنے کی ہمت نہیں پاتا ۔ ماں کی جدائی سے اس قدر غمزدہ تھے کہ کھانا پینا ترک دیا تھا۔ ‘‘

’’ یہ ایک فطری انداز تربیت تھا کہ وہ بچہ جس کی نہ ماں ہو ، نہ باپ ، آٹھ سال کی عمر میں جو مجبور ہو جائے کہ خود کما کر روٹی کھائے اور یہ جانتا ہو کہ کسی پر تکیہ نہیں کرنا اور جو بھی مشکلات ہیں ان کا خود ہی سامنا کرنا ہے ۔ بہت زیادہ مشکلات ، تنہائی اور احساس ذمہ داری نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل از وقت متحمل مزاج اور متین بنا دیا ۔ وہ جب بھی گرم ریگزاروں میں اونٹوں کا ریوڑ لے کر جاتے، غوروفکر میں کھو جاتے۔ صحرا بہر حال غوروفکر اور خود میں کھو جانے کا بہترین مقام ہے‘‘۔

’’ قبیلہ غفار کا مسکن مدینہ اور ینبع کے درمیان تھا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ’ ابوا‘ نامی ایک مقام پر توقف فرمایا ۔ اس لیے کہ والدہ محترمہ کی قبر وہاں تھی ۔ پیغمبر اسلام جب والدہ کی قبر کے نزدیک پہنچے تو اونٹ سے اتر آئے۔ مسلمان جنہیں علم تھا کہ آپ کی والدہ یہاں مدفون ہیں کچھ دور ہی ٹھہر گئے ۔فقط عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہ وہ بھی رضاکاروں میں شامل تھے آپ کے ساتھ قبر تک گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے مقابل دوزانو ہوئے ، قبر پر سر رکھا اور رو پڑے ۔ اس تاریخ تک والدہ محترمہ کو فوت ہوئے قریبا پچاس سال ہو چکے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مانند یک طفل کہ جس کی والدہ ابھی ابھی دفن کی گئی ہو رو رہے تھے‘‘۔

’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والدہ نے جو تکالیف آپ کی پرورش کے سلسلے میں اٹھائی تھیں آپ ان کو یاد کرنے لگے۔ جب محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے تو والد وفات پا چکے تھے اور والدہ محترمہ کا نہ اب شوہر تھا اور نہ کوئی روٹی کما کر دینے والا ۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یتیمی میں پرورش کی حتی کہ وہ وفات پا گئیں ۔

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر پر بیٹھے ان سختیوں کی یاد میں کھو گئے جو انہوں نے بچپن میں جھیلی تھیں ۔ انہیں یاد آیا کہ جب تک والدہ زندہ تھیں ہر قسم کی سختی کو جھیلنا آسان تھا ۔ جب آپ بچے تھے تو آپ کی والدہ گھر آنے پر ہاتھ پاؤں دھوتیں اور جو بھی کھانا میسر ہوتا بٹھا کر کھلاتیں اور بڑے پیار سے غذا کھانے کی تلقین کرتیں ۔ لیکن والدہ کی وفات کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا رہ گئے تھے اور جب صحرا سے ننگے پاؤں واپس آتے کوئی نہ تھا جو ہاتھ پاؤں دھلاتا اور دست شفقت آپ کے سر پر رکھتا ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر والدہ کی قبر پر روئے کہ عمر بن خطاب جو بڑے سخت مزاج تھے انہوں نے عرض کی : اب بس کیجیے ورنہ نزدیک ہے میں بھی رو دوں‘‘۔

برسوں پہلے یہ کتاب مجھے جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے عنایت کی تھی ، اس کا دیباچہ بھی ڈاکٹر صاحب ہی نے لکھا ہے ۔ ان برسوں میں ، کتنی ہی بار میں نے اس کتاب کو پڑھا ۔ یوں سمجھیے یہ کتاب مجھ پر بیت گئی ۔ کچھ مقام تو ایسے بھی آئے میں نے محسوس کیا میں صدیوں پیچھے کسی صحرا میں کسی ٹیلے پر کھڑا ہوں اور یہ سب میرے سامنے ہو رہا ہے۔ مشاہدے کے ساتھ ساتھ کانسٹنٹ ورجل جورجیو گویا مجھے سیاق و سباق سے بھی آگاہ کر رہا ہے ۔ آدمی کو اور کیا چاہیے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے