مذہب فروش لُٹیرے

پچھلے دنوں جب مردان کالج میں ایک نوجوان، مسلمان اور ہونہارحق گو طالبعلم مشال خان کو نام نہاد مذہبی سفاکوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ ہزاروں کے ہجوم میں بے بسی کے عالم میں اپنی حق گوئی اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی ایک دردناک سزا مذہب کے غلاف میں لپیٹ کر دی۔ تو جہاں میں خود اس واقعہ کے بعد سکتے کے عا لم میں تھا۔ وہاں میرے دل و دماغ میں فیض احمد فیض کے یہ اشعار گونج رہے تھے۔

نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

بحثیت ایک فکری اور نظریاتی مسلمان کے اس واقعے نے میرے وجدان میری سوچ اور میرے احساسات کو زخمی اور دل و دماغ کو ایک عجیب عالمِ شرمندگی سے دوچار کردیاہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جسکے حصول کے لئے ہزاروں شہیدوں نے اپنا لہو اسلئے پیش کیا تھا کہ اس دھرتی پر اللہ کے نظام کی حفاظت ہوگی؟؟ کیا یہ وہی دھرتی ہے کہ جسکا مطالبہ اس نظرے کے تحت کیا گیا کہ جہاں ہم آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کے ساتھ سکھ کا سانس لے سکیں؟؟؟ کیا قائد اعظم نے جدوجہد ایک ایسے وطن کے لئے کی تھی کہ جہاں پر اپنے مخالفین کو موت کی نیند سُلانے کے لئے مذہب تک کو بیچنے اور بدنام کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا؟؟ کیا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا للہ کی صورت اتنی بھیانک ہوگی کہ اسکے سائے تلے انسانیت سسکتی اور بے دم ہوکر زندگی کی بھیک مانگتی پھرے گی؟؟؟
مشال خان کی موت نے یہ اور ایسے کئی اور سوالات ذہن کے پردے پر چھوڑ کر شرم و ندامت کے گہرے غبار ضمیرکی دنیاکو گرد آلود کرنے کے لئے چھوڑ دئے۔

مشال خان کی دردناک موت کو لے کر صحافی برادری اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں مگن ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی سوموٹو نوٹس لے کر اپنے فرائض سے آشنائی کا عندیہ دے دیا۔ وزیرِ داخلہ کئی ایک ایسے اندوہناک واقعوں کی طرح اسکے مجرموں کو عبرتانک سز ا دینے کے عہد کا اظہار کر چکے ہیں۔ صوبے کی حکومت اور انکے مرکزی چئیرمین نے بھی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عہدکا اظہار کیا ہے۔لیکن ان سب کے باوجود ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا مذہب کے نام پر انسانیت کے احساس و عزت کو لوُٹنے والوں کے لئے یہ سب کافی ہوگا۔کیا مذہبی لُٹیروں کی لوٹ مار اور مذہب کے نام پر انسانی زندگیوں کے قاتل سوداگر کیا اس مکروہ کاروبار سے باز آجائیں گے؟کیا مذہب کی آڑ میں اپنے مخالفین کو عبرت کی نشانی بنانے والے کل پھرکوئی ایسی گھناؤنی سازش نہیں کریں گے؟

میڈیا پر آنے والا ہر شخص اور صحافی اس واقعے کو مذہبی دہشت گردی کہتا ہے۔ لیکن میری نظر میںیہ دہشت گردوں سے کہیں گئے گزرے مذہب فروش بزدل لُٹیرے ہیں جو کہ مذہب کی آڑ میں اپنے خواہشات ، مقاصد اور منصوبوں کی تکمیل کے لئے مذہب کو دکان پر پڑی کسی بکنے والی چئز سے زیادہ نہیں سمجھتے۔مذہبی دہشت گرد اگرچہ انسانیت کی لکیر سے نیچے وہ لوگ ہیں جو کہ انسانیت کے لئے شرمساری کا باعث ہیں لیکن بصد احترام اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر اپنے مقاصد۔چاہے غلط ہی سہی۔ کی تکمیل کرتے ہیں۔ لیکن مشال خان ، سلمان تاثیر اور کئی ایک دوسروں کو مذہب کی آڑ میں بربریت کا نشانہ بنانے والے تو نہ بہادر ہیں نہ انسان اور نہ ہی ان کا مذہب سے سروکار ہوتا ہے۔ یہ مذہب کے بیوپاری اور مذہبی لُٹیرے کہلانے کے زیادہ حقدار ہوتے ہیں۔جو کہ جاہل اور دین کی روح سے نا بلد پیرؤں کے دل و دماغ کو نفرت اور دشمنی کی آگ سے بھر کر ان سے ہر وہ کام کرواتے ہیں۔ جن سے انکے رتبے، مقصد اور ذہن کی سفاکیت کو تسکین پہنچتی ہے۔

ہمارے ملک میں مذہبی اجارہ داری اور مذہب کی آڑ میں لوگوں کو اپنے مخصوص عقائد کے ساتھ کفر و شرک کے القابات سے نوازنے اور پھر انکے لئے من پسند سزائیں تجویز کرنے اور انکی خدا ترسی اور مذہبی رجحانات کو ردی کے ٹوکرے میں ڈالنے کی ریت بہیت پرانی ہے۔ کفر و شرک کے بے ہودہ القابات سے نوازاے جانے والوں میں سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض ، حبیب جالب، احمد فراز اور اسی طرح کئی ایک اور مظلوم نظر آتے ہیں جو کہ اس ملک کا قیمتی سرمایہ کہلانے کے بجا طور پر مستحق تھے۔
اور جب ہماری بے حسی، حکومتی اداروں کی نا اہلی اور ملک کے مقتدر طبقوں کی ان لُٹیروں پر شکنجے کچھ ڈھیلے پڑ گئے تب سے یہ مذہبی لُٹیرے اور مذہب فروش ملکی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر جسکو چاہے۔ گستاخیء مذہب کا لیبل لگا کر درندگی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔

جب سے مشال خان کا واقعہ ہو ہے ۔ ہر جگہ سخت قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی بات ہوتی ہے۔ ہر جگہ حکومت سے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ ہورہیا ہے۔ لیکن کسی نے ان مذہبی لُٹیروں اور مذہب فروشوں کو دائمی لگام دینے کے لئے جو سب سے با اثر اور ان ناسوروں کا مستقل بنیادوں پر بیخ کنی کرنے والا طبقہ ہے ۔۔۔ ہمارے ملک کے مقتدر، صاحبِ شعور اور مستند علماء کرام۔۔۔۔۔ان سے آج تک کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ کہ اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنے کے عمل میں شب و روز پریشان حضرات ان مذہب فروشوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔کیونکہ ملک میں آج بھی ہر مکتبِ فکر کے کئی ایسے علماء موجود ہیں ۔جنکی خدمات اور ملک و قوم کے لئے سوچ و فکر کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا میں جہاں اس جنونی اور حیوانی سوچ اور فکر کے علمبراداروں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے حکومتِ وقت کی ذمہ داری کو اولین سمجھتا ہوں وہیں پر میں اس خود غرضی اور انسان دشمنی پر مبنی سوچ و فکر کے دائمی خاتمے کے لئے ملک کے مقتدر اوروطن دوست علماء کو دعوتِ فکر دیتا ہوں۔ کہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی اور عظیم خدمت اگر کرسکتے ہیں تو وہ یہی ہوگی کہ اس ملک کے عوام کو اسلام کی انسان دوستی امن و محبت اور انسان کی تکریم و رحمت والے رُخ سے آشنا کردیں۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ لاکھوں کے اجتماع میں اضا خیل کی سرزمین پر پاکستان کے سارے مذہبی طبقے کی نمائندگی قوم کو اتحاد و وحدت کی یقین دلارہی تھی۔ لیکن مشال خان کے قتل پر جہاں انسانیت شرمسار ہے ۔ اس اتحاد کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ آج اس مقتدر مذہبی طبقے کی طرف سے اس انسانیت سوز واقعے کی متحد ہوکرحوصلہ شکنی تک نہ ہوئی۔

آج فلسفہ ء ولی اللہی کے علمبردار کہاں ہیں ۔ کہ مظلوم سرِعام تڑپ رہا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے عمل تو دور کی بات آواز تک نہ آٹھائی گئی۔ کہاں ہیں ۔۔۔مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام ۔۔۔۔ کا ورد کرنے والے ؟؟؟ کہ اس رحمت کے پیکر کے دینِ رحمت کے نام پر درندگی کا بازار گرم ہے۔ لیکن رحمت اللعلٰمین کے پروانے جبر و تشدد اور جنونیت اور اناپرستی کے متوالوں کے وحشی پن پر خاموش تماشائی بن کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔۔کہاں ہیں؟؟یزیدیت پر برسوں سے لعن طعن کرنے والے اور مظلومیت کا ماتم کرنے والے کہ جب مردان میں ایک بے کس اور مظلوم ہزاروں کی یزیدیت کا شکار حسین کے متوالوں کو بزبانِ حال پکاُر رہا تھا۔

میں غمگسار دل کے ساتھ علماء دین سے عبیداللہ سندھی کی وہی بات دہراؤں گا جو کہ اس نے آج سے۷۷ سال پہلے ہندوستان کے مسلمان حکماء اور علماء سے کی تھی۔ کہ دین کا حقیقی چہرہ ہی دکھا کر آپ اس قوم کو کامیابی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ علماء کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مذہب کے نام پر انا پرستی اور خود غرضی کے مکروہ کاروبار کے ساتھ ساتھ مذہب کے لبادے میں چھپے مذہب کے ان بزدل دشمنوں کو بھی علماء کو بے نقاب کرنا ہوگا جو کہ خدا اور رسول کے مذہب کی آڑ لے کر انسانیت کی توہین کرتے ہیں۔

ہمارے علماء پر ان دہکتے انگاروں کو ٹھنڈا کرنے کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔میری فریاد اس دین کے تحفظ کے لئے ہے جس دین کا نام لے کر ہمارے مقتدر علماء ملک و ملت کی خدمت کا دم بھرتے ہیں۔ میری التجا اس نبی کے رحمت و محبت کے درس کے پرچار کی ہے جس نے کبھی اپنے دشمنوں کو بد دعا اسلئے نہ دی کہ شاید انکی اولاد میں مرے نام لیوا پیدا ہوں۔اپنے عقائد اپنے افکار اور اپنے مسالک پر بے شک کاربند رہو اگرچہ میرا مسلک میرا مذہب اور میری فکر تو اسلام کی عالمگیریت اور انسانیت دوستی اور خدا پرستی کا عالمی پرچار ہے۔ لیکن خدارا جس دین کی تم سب شاخیں ہو۔ اسکو مزید بدنامی سے بچانے کے لئے تم کو ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ مشال خان جیسے کئی اور بے گناہ ظلم و بربریت کی اس چکی میں پس کے رہیں گے۔ حکومت کی سزائیں اور عوام کا احتجاج ذہنوں کو نہیں بدل سکتی۔ ذہنوں میں امن و محبت اور اخوت و بھائی چارے اور برداشت کا بیج صرف ہمارے نظریاتی اور مذہبی رہنماء ہی بو سکتے ہیں۔ لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ انکو انسانیت کی عظمت اور اسلام کے امن و آشتی اور محبت و بھائی چارے کے فکر و فلسفے پر خود یقین بھی کرنا ہوگا اور عملی طور پر اسکا مظاہرہ کم از کم اس صورت میں کرنا ہوگا کہ ایسے انسانیت سوز واقعات کے خلاف سب یک زباں ہوکر قومی کے حقیقی مذہبی پئشوا ہونے کا حق ادا کریں۔

بہت ہوگیا اس قوم کے ہزاروں افراد نے فرقے اور مسلک کی بنیاد پر اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹ دئے۔ کتنے ایسے ہیں جنہون نے فکر و نظر اور سوچ و عقل کی دنیا کو تالہ لگا کر اپنے ہی بھائیوں کے گھر جلا دئے۔ اے کاش !!!کہ یہاں دینِ برحق کے متوالے مذاہب کے برتری کی دوڑ میں دوسرے مسلمان بھائیوں کی تباہی اور بربادی کا سامان نہ ڈھونڈتے۔ بہت ہوچکا۔۔۔ اب اس قوم پہ رحم کیجئے خدارا سب کچھ بُھلاکر دینِ رحمت کا پرچار کریں۔ اس قوم کے اندر لاکھوں اندھے مقلدین اور جذباتی پیروکاروں کو صرف اچھا انسان بنا دین دین داری وہ خود سیکھ لیں گے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دن مکافاتِ عمل میں یہ آگ آپ کے جبہ و دستار اور فضیلت و احترام کی دنیا کو بھی بھسم کردے۔
عدل و انصاف کوئی حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے