مردہ بچوں کی پیدائش، دنیا میں پاکستان کا پہلا نمبر

پاکستان میں سالانہ دو لاکھ چونتیس ہزار بچے حمل کے آخری تین مہینوں کے دوران ہی وفات پا جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایک ہزار میں سے تینتالیس بچے مردہ حالت میں پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ مردہ بچوں کی پیدائش پاکستان میں ہو رہی ہے۔ یہ حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ برطانوی جریدے ’لینسیٹ‘ میں شائع کی گئی ہے۔ دنیا بھر کے کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں ایک ہزار بچوں میں سے اوسطاﹰ 18,4 بچے قبل از پیدائش ہی وفات پا جاتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ تعداد حیران کن طور پر زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے محقیقین کے مطابق پاکستان میں بچوں کی قبل از وقت وفات یا ہلاکت کے بنیادی اسباب غربت، غذائی قلت، حفظان صحت کی سہولتوں کا فقدان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہیں۔

پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباﹰ دو سو ملین نفوس پر مشتمل ہے اور اس ملک کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جس کی آبادی سب سے تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح سن دو ہزار گیارہ کی غذائیت سے متعلق ایک قومی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ملک میں غذائی قلت کی شرح سن انیس سو پینسٹھ کے بعد سے ایک جیسی چلی آ رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پانچ برس کی کم عمر کے تقریباﹰ چوالیس فیصد بچوں کی بڑھوتری کی رفتار سست ہے جبکہ پندرہ فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں۔

mathernity_photography_newborn_01

پاکستان میں ماؤں کی صحت سے متعلق سن دو ہزار پندرہ کے ایک سمپوزیم میں شریک محقیقین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ یہ ایک ’بین النسلی شیطانی چکر‘ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی مائیں خود غذائی قلت کی شکار ہیں اور اپنی نوجوانی ہی میں یہ غذائی قلت کے شکار بچے پیدا کر رہی ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد اپنے نظام صحت پر خرچ کر رہا ہے، جو کہ دنیا میں سب سے کم شرح ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے غریب اور دیہی علاقوں میں صرف دس فیصد بچے باقاعدہ تجربہ کار یا تربیت یافتہ عملے کی زیرنگرانی پیدا ہوتے ہیں۔

برطانوی میگزین کے مطابق یہ رپورٹ پانچ سائنسی جائزوں کا تجزیہ کرنے کے بعد شائع کی گئی ہے۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر دنیا بھر میں تقریباﹰ چھبیس لاکھ بچے مردہ حالت میں پیدا ہوئے اور یہ تعداد سن دوہزار کے مقابلے میں صرف دو فیصد کم ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں تینتالیس ممالک کے دو سو ماہرین شامل تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے