مرشد عمرؓ ،مولا عمرؓ، رہبر عمرؓ ،آقا عمرؓ

رسول اللہ ؐ کے ہاتھوں سے بنی ہوئی مسجد میں ایک نئے صبح کا آغاز ہو رہا تھا ۔
امیر المومنین سیدنا عمرؓ نے مصلیٰ رسولؐ پر کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ کانوں تک لائے اور
تکبیر کی صدا بلند کی ۔
قیام شروع ہوا ۔
کون ومکان کے خالق و مالک کی حمد ثنا بیان کی ۔
رحمان سے کہا کہ مجھے شر شیطان سے پناہ دے ۔
قرآن کے سانچے میں ڈھلے انسان نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر خالق ارض و سما کی توحید کا اقرار کیا کیونکہ بسم اللہ تو تہذیب محمدی ؐ کی امین ہے ۔ فکر رسالت مآب کی پاسبان ہے ۔ تطہیر وجود کی پہچان ہے ۔
حسبنا کتاب اللہ کا کلمہ بلند کرنے والی زبان سے قرآن جاری ہونا شروع ہو گیا ۔
الحمد للہ رب العالمین ، الرحمن الرحیم ، ملک یوم الدین
ادھر مسلمانوں کی صف میں
خود کو مسلمان ظاہر کر کے
خود کو نمازی بنا کر
ابلیس کا نمائندہ مسلمانوں کے حلیے میں کھڑا
مصلیٰ رسول کو خون آلود کرنے کے مکروہ ایجنڈے کو عملی شکل دینے کی تیاری کر رہا تھا ۔
رسول اللہ نے کہا تھا کہ
اللہ نے حق اور سچ عمر کی زبان پر جاری کر دیا ہے اور یہ حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔
صرف فاروق نہیں ، فاروق اعظم
فاروق اعظم کی لسان حق پرست پر خدائے لم یزل کا قرآن جاری تھا ۔
یثرب کی وادیوں میں اچانک ہلچل مچی
تہذیب انسانی کے دشمنوں کی سازش کام کر کر گئی ۔
رسول اللہ کی مسجد لہو لہان ہو گئی ۔
دعائے رسول قربان ہو گئی ۔
روضہ رسول سے ایک صدا بلند ہوئی
اے میرے رات کی دعاؤں میں مانگے ہوئے عمر
میری طرف آؤ
اے میری محنتوں کے ثمر
میری طرف آؤ
میری شہہ رگ کے قریب تر
الی ، الی ، میری طرف آؤ
مدینہ میں کسی یتیم کی چیخ بلند ہوئی جس نے 22 لاکھ مربع میل کو سوگوار کر دیا ۔
رسول اللہ کی مسجد میں
رسول اللہ کے پہلو میں
امہات المومین کے جلو
جنت البقیع کے سائے میں
گنبد خضریٰ کے عین نیچے
نماز فجر میں
قرآن کی تلاوت میں
مصلیٰ رسول ؐ پر
اس عکس رسالت مآب ؑ نے زندگی کی آخری سانسیں
کانپتے ہوئے عزرائیلؑ کے حوالے کیں
جس کا کوئی مقابل نہیں
جس کا کوئی متبادل نہیں
جس کا کوئی ثانی نہیں
جس کاکوئی سایہ نہیں
جس نے انسانیت کو پہلی بار یہ شعور دیا تھا کہ جب مائیں بچوں کو آزاد جنتی ہیں تو کسی کو حق نہیں کہ وہ انہیں غلام بنائے ۔
جس نے کہا تھا کا حق اور سچ مومن کی متاع گم گشتہ ہے ، جہاں سے چاہو ، پالو
جس نے کہا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کا حساب مجھ سے لیا جائے گا
جس نے کہا تھا کہ میرے کندھے پر ہر ضروت مند کا بوجھ لدا ہوا ہے اور اسے اٹھا اٹھا کر میری ہڈیاں جواب دے رہی ہیں ۔
جس سینہ نے صحرا پر اپنے خون سے انسانی حقوق کا وہ چارٹر لکھا جسے آج تک زمانے کی ہوائیں مٹا نہیں سکتیں ۔
اس کی ایمان سے چمکتی ہوئی پیشانی نے انسانی تاریخ میں پہلی بار انسان کو اس بات کا شعور دیا کہ وہ محکوم نہیں حاکم ہے ۔
مرشد عمر مولا عمر رہبر عمر آقا عمر
برتر عمر بالا عمر اولی عمر اعلی عمر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے