مشال کا قتل، قانون کہاں ہے؟

مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں ایک طالب علم کو اس کے طلبہ ساتھیوں نے قتل کردیا ۔ان طلبہ کا موقف ہے کہ مقتول ملحد اور گستاخ رسول ۖ تھا۔نہ صرف خود مسموم ومذموم نظریات وعقائد رکھتا تھا ،بلکہ دوسرے طلبہ کو بھی ان کی دعوت وترغیب دیتا تھا۔اسے سمجھانے کی بسیار کوشش کی گئی ،مگر جب ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی تو ایمانی غیرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس گستاخ وملحد کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہوئے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا،وہاں پولیس بھی موجود تھی۔

ہمارے عوام ہی نہیں تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بھی دینی معاملات میں دو انتہاؤں پر ہیں،جو ایک دوسرے کے متضاد تو ہیں ،لیکن انتہا پسندی کی تعریف دونوں پر صادق آتی ہے۔ایک تو سیکولر ولبرل طبقہ ہے ،جس کا بنیادی ہدف ہی دین ،دینی تعلیمات،اسلامی شخصیات وشعائر ہیں ۔وہ ان کے نقائص تلاش کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں ہمہ وقت وہمہ تن صرف کرتا اور ان دریافت کردہ نقائص کا پرچار بھی ببانگ دہل کرتا رہتاہے۔اس اسلام دشمنی میں وہ آخری حد بھی عبور کرلیتا ہے اور اس بات کی بھی پروا نہیں کرتا کہ وہ جس ملک کا باسی ہے ا س کا آئین اورسرکاری مذہب اسلام اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟نوبت بایں جا رسید،کہ حب الوطنی کے تقاضے بھی فراموش کردیے جاتے ہیں ۔حال ہی میں گستاخ بلاگرز کا معاملہ ہو یا اب کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کا مسئلہ،اس طبقے کے طرز عمل سے اس دعوے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

دوسرا طبقہ اسلامسٹوں کا ہے ،یہ اسلام اور دینی شخصیات وشعائر کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے اور تمام مصلحتوں کو بلائے طاق رکھ کر میدان میں آجاتے ہیں ۔اپنے اس موقف کے حق میں ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ ہے اور ہمارے ملک کا آئین وقانون اور یہاں کا سرکاری مذہب اسلا م ،دین دشمن خیالات ونظریات کے پرچار کی اجازت نہیں دیتا ۔

جب بھی کوئی حساس واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ دونوں طبقے اپنے اپنے دلائل کے ہتھیار سے لیس ہو کر باہم دست گریباں ہوجاتے ہیں ۔عدم برداشت کا وصف دونوں میں مشترک ہے جس کی وجہ سے نوبت” توتڑاخ” اور بعض اوقات گالی ،گولی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔سوشل میڈیا کو دونوں طبقات اپنے مقاصد وعزائم کے لیے اہم پلیٹ فارم سمجھتے ہیں اور اسی پلیٹ فارم پر خود کو برتر اور مخالف کو زیر کرنے کے لیے تقریباًتمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں ۔بنیادی طور پر یہ سیکولر ولبرل لابی کا میدان تھا ،جس میں ایک عرصے تک بلا شرکت غیرے ان کا طوطی بولتا تھا،بلا کسی مزاحمت اور رعمل کے خوف کے، وہ اس میں اپنے خیالات ونظریات کی اشاعت کرتے تھے ،اب دنیا بدل چکی ہے ،دینی طبقہ بھی جدید علوم وٹیکنالوجی سے نہ صرف لمس رکھتا ہے،بلکہ مزاحمت اور جواب آں غزل کی صلاحیت سے بھی مالا ما ل ہے ،اس لیے اب مقابلہ دوبدو ہوتا ہے،میدان سجتا ہے،دونوں طرف سے دلائل وبراہین کے انبار لگ جاتے ہیں ،باطل جب دلائل کی جنگ ہار جاتا ہے تو اپنی پرانی اور دیرینہ عادت کے مطابق ”توتڑاخ” پر اتر آتا ہے،دھونس دھمکی اور گالم گلوچ کی نوبت آتی ہے ،جواب میں وہاں سے بھی فتوے بازیاں ہوتی ہیں ،ترکی بہ ترکی جواب ہی نہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے۔یہ ایک عمومی مائنڈ سیٹ ہے ،جس کی ان سطور میں نشان دہی کی گئی ہے،جس کا مشاہدہ ہم میں سے ہر ایک کو ہوتا رہتا ہے۔مردان کی ولی خان یونیورسٹی کا معاملہ بھی اسی قسم کا ہے۔مقتول طالب علم کی فیس بک آئی ڈی کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کن نظریات کا مالک تھا؟ کن مسموم خیالات کی اشاعت کررہا تھا؟

اس سے کسی کو انکار نہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں ہر شخص کو اظہاررائے کی آزادی کا حق حاصل ہے ،لیکن کیا شان رسالت کی گستاخی بھی اسی زمرے میں آتی ہے؟کیاکسی کو اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں کھلی گستاخیاں کرے؟شعائر اسلام کا مذاق اڑائے ؟بلکہ دوسروں میں بھی ان غلیظ نظریات کو پھیلانے کی کوشش کرے؟اپنے کولیگ طلبہ کے سامنے ان بدبودار نظریات پر نہ صرف اصرار کرے ،بلکہ سمجھانے پر غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے اور غیر مہذب رویہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہ کرے؟نہیں اور یقیناًنہیں ۔جو لوگ اس طالب علم کو” شہید” اور اسلامی شدت پسندی کا ”معصوم نشانہ” قرار دے رہے ہیں، وہ بتا سکتے ہیں کہ ”مدعی سست گواہ چست”والی یہ پالیسی کس کی تایید ہے؟ایک شخص ببانگ دہل جرم کررہا ہے اور اس پر مصر ہے ،جس پر اس کی پروفائل کی ہرپوسٹ گواہ ہے ،اس کے ساتھی گواہ ہیں ،اس کے اساتذہ شاہد ہیں ،اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے تصدیق کرتے ہیں ،پھر اسے کیسے کلین چٹ دی جا سکتی ہے؟

مانا کہ اس کو قتل کرنے والے طلبہ نے ایک غیر قانونی کام کیا،ایک غیر آئینی حرکت کی ،جس کی ان سے باز پرس کی جانی چاہیے ،لیکن کیا مقتول کے کام اور اس کی حرکتیں آئینی وقانونی تقاضوں کے مطابق تھیں ؟تسلیم،کہ توہین رسالت ایکٹ موجود ہے ،متعلقہ اداروں کے پاس شکایت درج کرائی جاسکتی ہے ،آئینی وقانونی راستا بھی ہے ،لیکن گستاخی معاف،کیا ہم یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اس ایکٹ کے تحت اب تک کتنی سزائیں ہوئی ہیں؟کتنے گستاخوں کو شکایات کی بنیاد پر لگام دی گئی ہے؟کیا لاہور ہائی کورٹ کے سخت ترین فیصلے کے باوجود اس وقت” مولوی برقعہ” جیسے گستاخانہ پیجز نہیں چل رہے ہیں ؟سوال یہ بھی ہے کہ مشعل خان کی آئی ڈی پی ٹی اے کی نظروں سے اوجھل کیوں رہی ،جبکہ اس کی بارہا شکایت کی گئی ؟سلمان تاثیر کے قتل کے وقت دینی حلقوں نے یہی کہا تھا :ممتاز قادری کایہ عمل ری ایکشن اورردعمل ہے ،اگر سلمان تاثیر جیسے لوگ گستاخیاں کرنے سے اور ہمارا آئین وقانون ایسے لوگوں کو تحفظ دینے سے نہ رکا ،تو مستقبل قریب میں کسی بھی مسلمان کو ممتازقادری بننے سے نہیں روکا جاسکے گا۔اگر ملعون آسیہ مسیح کو تختہ ٔ دار پر چڑھادیاجاتا ،اگر گستاخ بلاگرز اور ان کے سرپرستوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا، توکیامشعل خان جیسوں کی ہمتیں خود بخودنہ ٹوٹ جاتیں؟

صاحبو!مشعل خان کے قتل کودینی طبقے اور شعائر اسلام کے خلاف کیش کرانے کی کوششیں جاری ہیں ، لبرل وسیکولر لابی اگر اس میں کامیاب ہوگئی تو یہ مردان یونیورسٹی واقعے سے بڑا المیہ ہوگا۔قانون توہین رسالت کے خاتمے کے مذموم عزائم کی تکمیل میں ”لبرل شہید”اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی قسم کی تاخیر وتساہل کے بغیر اس معاملے کی گتھیوں کو جلد سے جلد سلجھایا جائے اور معاملے کے حل ہونے تک ہر قسم کی بیان بازی اور احتجاج ومظاہرے غیر قانونی قرار دیے جائیں ۔کیا عدلیہ معاملے کی نزاکت کا فوری احساس کرکے اس المیے کی تہہ میں کلبلاتے المیوں کا راستہ روک سکے گی ،یابھانت بھانت کی بولیوں میںماضی کی طرح یہ معاملہ بھی منفی رخ پر ڈال دیا جائے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے