مشال گھر آیا بھی تو کیسے

ماں نے فون کرکے اپنے لخت جگر سے پوچھا تھا بیٹا گھر کب آﺅگے۔ بیٹے نے جواب دیا تھا کہ ہفتہ اور اتوار کو یونیورسٹی کی چھٹی ہوگی ، توجمعہ کو آجاﺅ ں گا۔ اور آج دیکھو جمعہ کے دن میرا بیٹا گھر آگیا ہے ۔ مشال کے باپ نے توہین رسالت کے الزام میں مرنے والے مشال خان کے جنازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اُس کا لہجہ بہت سپاٹ تھا ۔ وہ کہ رہا تھا کہ میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے مگر اس کے ساتھ ہی حکومتی رٹ بھی چیلنج ہوئی ہے .

میں نے جس طرح اپنے بچوں کی پرورش کی ہے ۔ اس حوالے سے سارے محلے کے لوگ گواہ ہیں ۔ وہ کبھی کبھار ملکی نظام سے دلبرداشتہ ہوکر عمر فاروق کے دور حکومت کی مثالیں دیا کرتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہمیرا نام اقبال شاعر ہے، پولیس میرے پاس آئی تھی اور کہا کہ آپ کے کوئی تحفظات ہیں تو بتائیں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں اس موقع پر تو موجود نہیں تھا، اس لئے کسی پر خواہ مخواہ کا الزام نہیں دھر سکتا، البتہ اس یونیورسٹی میں کیمرے موجود ہیں، اور میں تو اتنا کہتا ہوں کہ صرف میرا بیٹا ہی قتل نہیں ہوا، بلکہ اس حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، تو اگر یہ اس کی کچھ خبر لیں گے تو میری بھی دادرسی ہوجائے گی۔

اور صاحب میں آپ کو بتادوں، یہ میرا بیٹا تھا، میں نے اسے پال پوس کے بڑا کیا تھا، خدا کو علم ہے، اور لوگوں کو پتا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو بند دروازوں کے پیچھے بڑا کیا تھا، اگر میرے محلے میں کسی نے میرے بچوں پر انگلی اُٹھائی تو بتادیں میں ذمّہ دار ہوں گا۔ جہاں تک اس کے خیالات کا تعلق ہے توجب بھی دین کی بات آتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتا، اور چوں کہ وہ صحافی تھا سو اس نظام پر تنقید بھی کرتا تھا، اور اس وقت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا حوالہ دیتا تھا۔

میں یہی کہنا چاہوں گا سب سے جو میری طرح والدین ہیں، کہ ہم اپنی تنگدستی میں اپنے بچّوں کو پڑھاتے ہیں، انہیں کہاں کہاں ، یہاں تک کہ روس تک بھیجتے ہیں، اُن پر خرچ کرتے ہیں، یہ اس کا آخری سمسٹر تھا، اور اُس نے فارغ ہونا تھا، کیوں کہ اس دن والدہ نے گھر آنے کا کہا تو اُس نے کہا کہ کل جمعہ ہے، پھر ہفتہ اتوار کی چُھٹی ہے، تو گھر آجاؤں گا، وہ آیا تو اس طرح سے۔

میں یہی کہوں گا کہ جو صدمہ ہم تک پہنچا ہے، جو قیامت ہم پہ ٹوٹی ہے، ہم تو اسے سہ ہی جائیں گے، کیوں کہ ہم صبر کرنے والے لوگ ہیں۔ہم امن والے لوگ ہیں، ہم اس وطن میں محبت اورامن کا پیغام دیتے ہیں۔

مشال خان جو کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں چھٹے سمسٹر کا سٹوڈنٹ تھا، جس نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کی فیلڈ میں آنا تھا، مگر وہ وطن عزیز میں عدالتی نظام کی ناکامی کے باعث سینکڑوں تعلیم یافتہ طلباءکے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوکر داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ اب مشال خان توہین رسالت کا مرتکب ہوا تھا یا نہیں اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات کسی کے پاس نہیں ، بس اتنا ہے کہ وہ جان سے ہاتھ دھوبیٹھا ، اس کے قتل میں کون ملوث ہے ۔ وہ کیوں قتل ہوا، یہ وہ سوالات ہیں جس کا نہ کسی کے پاس جواب ہے اور نہ کوئی اس پر بات کرسکتاہے ۔

سوشل میڈیا پر مذہبی جنونیت انتہا پر پہنچ گئی ہے ، کسی کے خلاف بھی توہین رسالت کا الزام لگائیں اور اسے راستے سے ہٹادیں۔ کوئی آپ کوکچھ نہیں کہہ سکتا۔بہت سے لوگ بھی آپ کا ساتھ دیں گے کیونکہ بحثیت مسلمان کوئی بھی رسول کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا ۔ اپنی جان قربان کی قربانی دے گا مگر رسول کی شان میں گستاخی کسی کو بھی قبول نہیں ۔ مگر موجودہ دور میں جب سوشل میڈیا نے اتنی ترقی کرلی ہے ۔ لوگوں کو بدنام کرنا ، انتقام لینا بہت آسان ہوگیاہے ۔ دشمن کے نام سے فیک اکاﺅنٹ بنا کر بکواسیات شروع کر دو اور پھر اسے راستے سے ہٹانے کے لئے مذہبی چورن بیچ دو۔

مشال خان کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا ہو۔ اس نے اپنے فیس بک وال پر لکھا ہے کہ میری فیک آئی ڈی بنائی گئی ہے ۔ جس سے اس کی ساکھ کو خراب کیا جارہا ہے، شاید کوئی دشمن ہو جو اسے راستے سے ہٹانا چاہتا ہو۔ اور یہ طریقہ واردت اسے آسان لگا ہو۔ جس سے وہ آسانی کے ساتھ شکار ہوگیا ہو، کیونکہ مشال خان کے ہاسٹل کے کمرے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق کلمہ بھی لکھا گیا تھا ۔ اور ساتھ میں چے گویرا، اکبر بگٹی کی تصاویر بھی لگی تھیں ۔ جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس جرم کا مرتکب رہا ہو، اس کے وال پر جو گردش کرنے والے پوسٹ اور کمنٹس اگراُس کے ہیں ، تو یونیورسٹی انتظامیہ اس ے بے خبر کیوں تھی، طلبا ءنے اس کی رپورٹ کیوں نہیں کی ۔جو آخری حد تک قانون کو ہاتھ میں لے کر اسے موت کی وادی میں پہنچادیا۔

کچھ ہفتہ قبل ہی مردان ہی میں نبوت کا دعوی کرنے والے کو بازار کے تاجروں نے پکڑ کرپولیس کے حوالے کردیا جس پر توہین عدالت کا مقدمہ درج ہوا ہے ، اگر مشال توہین رسالت کا مرتکب ہوتا اور اُس پر یہ طلبا گواہی دیتے جنہوں نے اُس کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں اور انسانیت کی بدترین مثال قائم کی ہے تو یقین تھا کہ اسے سزائے موت ہوجاتی ۔اور لوگوں کے لئے وہ نشان عبرت بن جاتا مگر اس کیس میں ایسا نہیں ہوا ، مشال خان کو طلباءنے گھیسٹ کر ہاسٹل سے نکالا، اسے گولیاں ماریں گئیی اور پھر تشدد کرتے ہوئے مار دیا ، اس وقت انسانیت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ، جب اسے مارا جارہا تھا اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے والے طالب علم اُس بربریت کی ویڈیوبنارہے تھے ۔

میرا دل مردان یونیورسٹی میں ہونے والی درندگی اور بربریت کے واقعے کو جذبہ ایمانی کا رنگ دینے والوں کی عقل پر ماتم کررہا ہے۔ اسے جو عشق رسول سے منسوب کیا جاراہا ہے یہ عشق نہیں فسق ہے ، یہ اسلام بھی نہیں پرلے درجے کی جاہلیت ہے کہ کوئی جب چاہے توہین کا الزام لگا کر جس کی گردن مار ڈالے۔ جو صاحبان اس ظلم کا جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں ، ان سے بس اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ یوں عدالتیں سجنے لگیں اور مشتعل ہجوم انصاف کرنے لگے تو پھر کوئی نہیں بچے گا ، ایک دن یہ آگ آپ سمیت سب کو بھسم کر دے گی۔ اور والد کہے گا کہ بیٹا گھر ایا بھی تو کیسے ــــ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے