"معافی”

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
شب براءت نزدیک ہے ہمارا نامہ اعمال تبدیل ہونے والا ہے۔ہماری زندگی کی ایک اور کتاب بند ہونیوالی ہے۔
اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی کتاب حقوق العباد و حقوق اللہ معاف کرانے سے قبل ہی بند ہوجائے۔۔
سو آج تک میری طرف سے جانے انجانے میں کوئی غلطی، گستاخی، غیبت ہو، یا آپ کا دل دکھا ہو تو اللہ کی رضا کے لیے مجھے معاف کر دیں۔
میں نے بھی اللہ کی رضا کے لیے سب کو معاف کیا۔
معافی تلافی کے بعد اگلا مرحلہ رحمتوں ، برکتوں اور خوشیوں کا ہے کہ اللہ 14 اور 15 شعبان المعظم کی درمیانی شب قسمتوں کے فیصلے فرماتا ہے،
ایسے میں کچھ لوگ آتش بازی کرتے ہیں، ہلہ گلہ، کرکٹ اور دیگر کھیل کود میں وقت برباد کرتے ہیں، آتش بازی سے جہاں وقت کا ضیاع ہے وہیں پیسہ کا خرچ بھی ،
افسوس !!! ان نادانوں کے باعث دوسروں کی عبادت میں بھی خلل واقع ہوتا ہے، پھر اگر کوئی اس بات سے ناراض ہوکر دل میں برائی لے آئے یا بد دعا دے دے تو ۔۔۔ الحفیظ الامان
رسول اکرم، نور مجسم ، شاہ بنی آدم شافع امم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا شعبان المعظم کے بارے میں فرمان مکرم ہے؛” شعبان میرامہینہ ہے اور رمضان اللہ کامہینہ ہے”
(الجامع الصغیرللسیوطی ص 301،حدیث 4889 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ اللہ عزوجل شعبان کی پندرھویں شب میں تمام زمین والوں کو بخش دیتا ہے، سوائے مشرک اور عداوت والے کے (شُعَبُ الِایمان ج3 ص381حدیث 3830)
ایک اور جگہ فرمایا.

اللہ تعالی چار راتوں میں بھلائی کے دروازے کھول دیتا ہےجن میں سے ایک پندرھویں شعبان ہے (تفسیر دُرمنثورج 7ص402)
شب برات یا شب براءت اسلامی کیلنڈر کے آٹھویں مہینے شعبان کی 15ویں رات کو کہتے ہیں،

شب کے معنی رات اوربرأت کے معنی چھٹکارے کے ہیں اس رات میں اللہ رب العزت قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتاہے۔ عرب قبائل میں سے سب سے زیادہ بکریاں پالنے والاقبیلہ بنی کلب تھا۔ اس رات اللہ رب العزت کی اپنی مخلوق پر خصوصی رحمتیں ہوتی ہیں.

اللہ رب العزت کی رحمت دوطرح کی ہے ایک عام اوردوسری خاص ۔ مسلمان ہویاکہ کافر،یہودی ہویاکہ نصرانی ، حیوان ہویاکہ پتھرآپ خوداندازہ کریں کہ جب بارش ہوتی ہے توہرایک کے کھیت چاہے امیر کا ہو یا غریب کا،نیک کاہویاکہ بُرے کا سب میں پڑتی ہے یعنی وہ ہرایک کیلئے یکساں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے حالات کے مطابق مانگتاہے ۔اللہ پاک اسے بھی عنایت فرماتاہے۔شب برأت ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ پاک دونوں طرح کی رحمتوں کانزول فرماتاہے جسکا ہرذی روح کوفائدہ پہنچتاہے۔

غنیۃ الطالبین میں ہے، ” بہت سے کفن دُھل کرتیار ہیں مگر پہننے والے بازاروں میں گھوم رہے ہیں کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کھودی تیار ہیں مگر اُن میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہیں، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے، کئی مکانات کی تعمیر کاکام پورا ہوگیا ہوتا ہےمگر ساتھ ہی ان کے مالکان کی زندگی کا وقت پورا ہوچکا ہوتا ہے (غنیۃ الطالبین ج1 ص 348)

افسوس صد افسوس!!! کچھ بد نصیب ایسے بھی ہیں جن پر اس شب براءت یعنی چھٹکاراپانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وعید ہے ،
حضرت سیدنا امام بیھقی شافعی علیہ رحمۃ القوی ” فضائل الاوقات” میں نقل کرتے ہیں ،
رسول اکرم ، نورمجسم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے ، چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی
1۔ شراب کا عادی
2۔ماں باپ کا نافرمان
3۔زنا کا عادی
4۔قطع تعلق کرنے والا
5۔ تصویر بنانے والا
6۔ چغل خور
(فضائل الاوقات ج1 ص130حدیث 86،مکتبۃ المنارۃ، مکۃ المکرمۃ)

اسی طرح کاہن، جادوگر، تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنون کے نیچے لٹکانے والے اور مسلمان سے بغض کینہ رکھنے والے۔۔۔
حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خداکرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ نبی اکرم ،رؤف رحیم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کا فرمان عظیم ہے؛ ” جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزہ رکھو۔ بے شک اللہتعالی غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے؛ ” ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والاکہ اس بخش دوں! ہےکوئی روزی طلب کرنے والاکہ اسے روزی دوں!ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں !ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا!اور یہ اُس وقت تک فرماتا ہےکہ فجر طلوع ہوجائے۔”
(سُنن ابن ماجہ ج 2 ص160حدیث 1388دارالمعرفۃ بیروت)

‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان ) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ ’’ (اے عائشہ)تم جانتی ہوکہ یہ کونسی رات ہے ؟ ‘‘میں نے عرض کیا، یارسولؐ اللہ ! نصف شعبان کی رات ،اس میں خاص بات کیاہے؟

توآپ ؐ نے فرمایا’’اس (رات) سال بھرمیں پیداہونیوالے اورمرنے والے لوگوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے ۔اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اس رات لوگوں کارزق اتاراجاتاہے۔

‘‘ام المومنین فرماتی ہیں، میں نے عرض کیا،یارسولؐ اللہ! کیاہرکوئی اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا؟ تو سرکارعلیہ الصَّلوٰۃ والسَّلام نے فرمایا ’’ہاں، کوئی شخص ایسانہیں جواللہ کی رحمت کے بغیرجنت میں داخل ہو۔

‘‘اوریہ کلمات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائے ۔میں نے عرض کیا اور آپؐ بھی ، یارسولؐ اللہ ؟ توآپؐ نے اپنا دست مبارک سرپررکھ کرفرمایا’’اورمیں بھی جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت میرے شامل حال نہ ہو‘‘یہ کلمہ بھی آپؐ نے تین بارفرمایا۔

(بحوالہ بیہقی ) حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سال میں جوکام ہوناہے اسے متعلقہ فرشتے کے جوانجام دینے والاہوتاہے اس کے سپرد کردیا جاتا ہے۔حضرت عثما ن بن محمدبن مغیرہ بن اخنسؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ ’’ زمین والوں کی عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لکھ دی جاتی ہیں یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتاہے اس کے بچے پیداہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔

فضائل شعبان میں رقم کیا ہے۔جس شخص نے پندرھویں کو رتیس رکعات اس حالت میں پڑھیں کہ ہر مرتبہ سورہ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اللہ تعالی اس کے لئے ہزار شہید ، ہزار غازی اور ہزار غلام آزاد کردینے کاثواب لکھ دیتا ہے۔

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں جو بندہ آٹھ رکعات نفل پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص گیارہ بار پڑھے اور اس کا ثواب مجھ کو پہنچائے تو میں اتنی دیر تک جنت میں نہ جائوں گی جب تک اس کی بخشش نہ کروا لوں۔

معمولات اولیا کرام رحمھم اللہ السلام سے ہے کہ پندرہویں شب نماز مغرب کے بعد6 رکعت نفل دو دو کرکے ادا کریں پہلی درازی عمر بالخیر، دوسری بلاوں سے حفاظت کی، تیسری میں اللہ عزوجل سے اس کے سوا کسی کا محتاج نہ کرنے کی دعا طلب کریں.

اسی طرح اس رات میں صلوہ التسبیح کا اہتمام کرنا ، صلوة الخیر(سو رکعت اس طرح پڑھنا کہ سورہ فاتحہ کے بعد دس دس بار سورہ اخلاص پڑھنا ) ادا کرنا ، تلاوت قرآن کرنا ، درود شریف پڑھنا ، محفل ذکر کرنا ، اپنے ذنوب کی مغفرت طلب کرنا اور کثرت سے دعائیں کرنا ،قبروں کی زیارت اور فاتحہ خوانی کرنا،، اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کا عزم کرنا چاہئیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے