مقدمے لٹکانے کا ماہر وکیل

ایف آئی اے کے وکیلِ تاخیر زاہد جمیل کے پاس ایگزیکٹ ضمانت کیس میں گزشتہ 8 ماہ سے معزز عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بعد آخر کیس کو مزید گھسیٹنے، عدالتوں کو گم راہ کرنے اور معصوم لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے کے لیے جب کچھ اور ہتھ کنڈے باقی نہیں بچے تو انہوں نے عدالت میں ایک نیا ڈرامہ رچایا اور انصاف کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مقدمے کی مزید پیروی سے معذرت کر لی کہ ان پر شد ید دبائو ہے جس کے باعث وہ کیس کی مزید پیروی نہیں کر سکتے جس پر عدالت کو مجبوراً کیس آئندہ سماعت تک ملتوی کرنا پڑا۔

اب اس حقیقت سے کون پردہ ہٹا سکتا ہے کہ زاہد جمیل پر واقعتاً کوئی بیرونی دبائو ہے یا اس مرتبہ ان کا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھا ہے جس نے اخلاقی دباؤ ڈال کر زاہد جمیل کو کیس کی مزید پیروی سے روک دیا ہے۔ مگر چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے کے مصداق ایگزیکٹ ضمانت کیس میں زاہد جمیل کے سابقہ کردار کو دیکھتے ہوئے ضمیر کی آواز کا سنائی دینا حقیقت سے بہت دور کی بات لگ رہی ہے۔

جھوٹ اور سچ کا فیصلہ تو بعد میں شاید ہو جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایف آئی اے میں کرائے کے وکیلِ برائے تاخیر زاہد جمیل کے گھٹیا، ظالمانہ اور سفاک تاخیری حربوں کے باعث ایگزیکٹ کیس میں بول کے مالک شعیب شیخ کو جیل میں 8 ماہ پورے ہو رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ آج تک ایف آئی اے کی جانب سے کوئی ایک ثبوت عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

مگر زاہد جمیل کے تاخیری شعبدوں کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ تا حال کراچی میں کسی ملزم کی ضمانت نہیں ہونے دی گئی جب کہ اسی مقدمے میں اسلام آباد میں تمام ملزمان کو وہاں کی عدالتیں فوری طور پر ضمانت پر رہا کر چکی ہیں۔

BWAC

کوئی بھی شخص یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا کراچی اور اسلام آباد کے لیے قوانین الگ الگ ہیں؟

مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے میں زاہد جمیل کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور غالباً اسی وجہ سے وفاقی تفتیشی ایجنسی نے ان کی بے مثال خدمات کرائے پر حاصل کی تھیں۔

آخر یہ زاہد جمیل کی مہارت نہیں تو اور کیا ہے کہ گزشتہ 8 ماہ میں ایگزیکٹ کے خلاف ایک گواہ بھی پاکستان یا دیگر دنیا سے کھڑا نہیں کیا جا سکا مگر اس کے با وجود آج تک اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹتے ہوئے بول اور ایگزیکٹ کے سات ہزار سے زائد ملازمین اور ان کے بے قصور اہل خانہ اس طور انصاف کے منتظر ہیں کہ ان کے منہ سے روٹی کے نوالے تک چھین لیے گئے ہیں

کیا کہنے ایف آئے کے وکیلِ تاخیر کے کہ ان جادو ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ لگتا ہے ایگزیکٹ کیس میں ایف آئی اے انصاف کی چکی کو دھیما نہیں بلکہ شائد چلنے دینا ہی نہیں چاہتی اس لیے کبھی بار بار وکیل بدلے جاتے ہیں تو کبھی نجی وکلا کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، کبھی تاریخ پر تاریخیں مانگ کر عدالتوں کا وقت ضائع کیا جاتا ہے اور جب عدالت کا وقت ضائع کرنے کے لیے کچھ اور حربہ نہیں بچا تو زاہد جمیل صاحب نے عدالت میں کسی نام نہاد دباؤ کا ذکر کر کے مقدمے کی پیروی سے ہی انکار کر دیا جس کا واحد مقصد مقدمے کو مزید تاخیر سے دو چار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں، کیوں معزز عدالت کو ایک بار پھر مجبوراً آگے کی تاریخ دینا پڑی۔

ایف آئی اے کے وکیلِ تاخیر کے بارے میں اچھی طرح مشہور ہے کہ یہ اسی طرح نت نئے ناٹکوں کے ذریعے انصاف میں تاخیر کرانے میں لا جواب مہارت کے حامل ہیں۔ اب آئندہ سماعت پر ایف آئی اے عدالت میں کیا نیا کھیل کھیلے گی یہ گل تو آئندہ سماعت پر ہی کھلے گا مگر اندھیر نگری چوپٹ راج میں کون کس کو سمجھائے کہ مہذب دنیا میں انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کا دوسرا نام ہے ؟ ؟ ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے