ملا منصور سے ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور پر امریکی ڈرون حملے نے اس پورے خطے میں ہلچل مچا دی ہے۔ ملا منصور کی موت کی اب تصدیق ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے اہم ترین گواہی افغان طالبان کی تھی، ہر کوئی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ توقع یہی تھی کہ افغان طالبان نیا امیر منتخب کرنے کے بعد ہی ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی حکومت نے بھی دانستہ تاخیر سے کام لیا، وہ افغان طالبان کو کچھ سپیس اور وقت دلوانا چاہتے تھے۔ وہی ہوا، بدھ کے روز افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے نئے طالبان امیر ہونے کا اعلان کر دیا، یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان کے بانی سربراہ ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ممتاز طالبان کمانڈر سراج حقانی نائب امرا ہوں گے۔
پچھلے سال ملا عمر کی وفات کی خبر کی تصدیق کے بعد ملا اختر منصور امیر بنے تو طالبان کا ایک دھڑا اس وقت ملا منصور سے زیادہ خوش نہیں تھا، انہوں نے ملا عمر کے بیٹے ہونے کے ناتے ملا یعقوب کو امیر بنانے کی بات کی ۔ ملا یعقوب کے ایک انکل ملا منان اس حوالے سے خاصے پرجوش تھے، مگر ملا منصور نے حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر طاقتور طالبان شخصیات کی حمایت حاصل کر لی اور اپنے آپ کو طالبان امیر کے طور پر منوا لیا۔ اب نئے امیر کے انتخاب کے بعد ملا یعقوب کو مرکزی چین آف کمانڈ میں اہم عہدہ دے کر ایڈجسٹ کیا گیا ہے تاکہ طالبان دھڑوں میں زیادہ یکسوئی پیدا ہوسکے۔
طالبان ذرائع رہبری شوریٰ کے اجلاس کی دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اجلاس شروع ہوتے ہی ابھی ایجنڈے پر گفتگو ہونے سے پہلے سراج حقانی نے اعلان کیا کہ امارت کے لئے میرے نام پر غور نہ کیا جائے ۔ اس پر ملا عمر کے نوجوان صاحبزادے ملا یعقوب نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ طالبان امیر کے لئے میرے نام پر بھی غور نہ کیا جائے۔ طالبان رہبری شوریٰ نے پھر مکمل اتفاق رائے کے ساتھ ملا منصور کے نائب امرا میں سے ایک ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کو امیر بنانے کا اعلان کیا اور امیر بننے سے معذرت کرنے والے دونوں کمانڈروں سراج حقانی اور ملا یعقوب کو نائب امیر مقرر کر دیا ۔ یاد رہے کہ سراج حقانی طالبان کے اہم ترین اور نہایت تجربہ کار کمانڈر ہیں، خوست سے ان کا تعلق ہے، مگر ان کا کئی افغان صوبوں میں اثرورسوخ ہے اور کابل پر حملوں کے حوالے سے ان کا گروپ (جسے امریکی حقانی نیٹ ورک کے نام سے پکارتے ہیں)بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سراج حقانی کی مدد کے بغیر طالبان پر موثر کارروائیاں نہیں ہوسکتیں۔ ادھر ملا یعقوب کو ملا عمر کا فرزند ہونے کے ناتے امتیاز حاصل ہے۔ وہ ایک سادہ طالبان کمانڈر ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پچھلے سال جب طالبان میں اختلافات کی خبریں آئیں تو ملا یعقوب کا ایک جذباتی بیان آیا ، جس میں انہوں نے کہا کہ اگر میری موت سے طالبان میں اختلاف ختم ہوسکے تو وہ ابھی اسی وقت اپنی جان دینے کو تیار ہیں۔
ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کا تعلق بھی قندھار سے ہے ، قبیلہ ان کا نورزئی ہے، نورزئی لوگ افغانستان میں قندھار کے علاوہ کوئٹہ اور قریبی شہروں میں بھی آباد ہیں۔ ملا اخوندزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی دینی تعلیم تیس پینتیس سال پہلے پاکستان میں ہوئی، کراچی میں وہ پڑھے اور کچھ عرصہ شائد حقانیہ میں بھی گزرا۔ ملا اخوندزادہ مستند عالم دین اور مفتی سمجھے جاتے ہیں۔ طالبان میں دینی علوم کا ماہر عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ الحدیث ملا اخوندزادہ کو ایک ایڈوانٹیج یہ ہے کہ بہت سے طالبان کمانڈر اور اراکین شوریٰ ان کے شاگرد ہیں۔ ان کی علمی حیثیت کی وجہ سے طالبان رینکس میں انہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ ملا منصور کو یہ حیثیت حاصل نہیں تھی، وہ ایک تجربہ کار کمانڈر تھے، مگر طالبان کا مولوی طبقہ ان سے زیادہ متاثر نہیں تھا۔ ملا اخوندزادہ کوئٹہ شوریٰ کا حصہ رہے ہیں۔ کوئٹہ شوریٰ دراصل طالبان کے مابین تنازعات کو سلجھانے اور فیصلہ کرنے کا مرکز تھا، جسے امریکیوں نے کوئٹہ شوریٰ کہہ کر مشہور کر دیا۔ ملا اخوندزادہ اس مصالحتی کمیشن کے سربراہ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے نئے طالبان امیر کو کئی اعتبار سے اپنے پیش رو پر سبقت حاصل ہے۔ ملا اختر منصور کو نشانہ بنانے کی وجوہ بڑی حد تک واضح ہیں۔ وہ طاقتور طالبان لیڈر تھے ،جن کی گرفت طالبان دھڑوں پر مضبوط ہوچکی تھی۔ قندوز پر قبضہ کر کے انہوں نے اپنے ناقد دھڑوں کو بھی خاموش کرا دیا۔ ملا منصور پر اس لحاظ سے تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے کابل میں بعض ایسے حملے کرائے ،جن میںعام شہری نشانہ بنے۔ اس پر طالبان کا امیج خراب ہوا ۔ ملا منصور کا دفاع کرنے والے یہ دلیل دیتے تھے کہ افغان حکومت نے انہیں اس انتہاتک جانے پر اکسایا۔ اس ڈرون حملے کے بعد اب خدشہ ہے کہ کابل پر حملوں میں شدت آئے گی۔
ملا منصور کے حوالے سے ہمارے ہاں ٹاک شوز میں دو باتیں کہی جاتی رہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان نے مخبری کر کے ڈرون حملہ کرایا اور اب افغان طالبان پاکستان کے خلاف ہوجائیں گے۔ یہ دونوں باتیں قطعی طور پر غلط ہیں۔ پاکستان کیوں ایسا کرتا؟ ملا منصور سے بات کرنا نسبتاً آسان تھا، اسے طالبان دھڑوں پر کنٹرول ہوچکا تھا۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے افغان طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے کے باعث مغرب میں بدنام ہے۔ ایک عشرے کی محنت کو اچانک کیوں برباد کیا جاتا؟ دنیا کا احمق سے احمق انٹیلی جنس ایجنٹ بھی ایسا نہیں کرتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستانی امن معاہدے کے لئے دباﺅ ڈال رہے تھے ، مگرطالبان کچھ عرصے سے گریزاں تھے۔یہ بھی درست کہ ملا منصور نے پچھلے سال ڈیڑھ میں ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنا لئے تھے۔ وہ اپنے لئے نئی آپشنز پیدا کرنا چاہ رہے تھے ، پاکستانی مگر یہ جانتے تھے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملا منصور یاافغان طالبان پاکستان کے خلاف کسی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔واضح رہے کہ کوئی طالبان امیر اگر چاہے بھی تو پاکستان کے خلاف نبردا ٓزما ہونا اس کے لئے آسان نہیں، اسے شدید اندرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کا یہ ڈرون حملہ پاکستان کے مفادات کے خلاف گیا ہے اور ایک اعتبار سے یہ دومئی 2011ءکے اسامہ پر حملے کا ری پلے ہے۔ افغان امن پراسیس بھی تہس نہس ہوگیا ۔
افغان طالبان کا اندازہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں آگ بھڑکانا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ تین عشرے سے تباہ حال اس ملک میں داعش کے لئے سپیس پیدا کی جا ئے۔ طالبان اس لئے امریکہ اور افغان حکومت سے بھی زیادہ داعش کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور کسی کمانڈر کے بارے میں شک بھی ہو جائے کہ یہ داعش کے قریب ہے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا۔ ادھر پاکستان بھی افغانستان میں داعش کے طاقت پکڑنے کے تصور سے مضطرب ہے ۔ اگر افغانستان میں طالبان کمزور ہوئے اور داعش طاقتور ہوئی تو پہلی بار پاکستانی اداروں کو افغانستان سے آ کر پاکستان میں کارروائی کرنے والے ایک خطرناک گروہ سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ اس سے پہلے ان کا واسطہ تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ، ازبکوں سے تھا، افغان طالبان کبھی پاکستان کے خلاف نہیں لڑے ۔
امریکیوں نے ممکنہ طور پر ملا منصور کودو وجوہ کی بنا پر نشانہ بنایا۔ ایک تو ڈیموکریٹ حکومت اس سال ہونے والے الیکشن سے پہلے طالبان کے خلاف کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرنا چاہتی تھی۔ دوسرا امریکیوں کا خیال تھا کہ طالبان میں اگر انتشارکے بعد مختلف دھڑے بنے تو اس سے افغان حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔ ملامنصورغالباً زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے بھی نشانہ بنے۔ ان کے لئے حالات سنگین ہوچکے تھے، ایسے میں نقل وحرکت محدود رکھی جاتی ہے۔ وہ سفر کرتے رہے اور پھر فون استعمال کرنے کی تباہ کن غلطی بھی کر بیٹھے۔ طالبان اس ڈرون حملے کی انٹیلی جنس اطلاعات کے حوالے سے پاکستان پرشبہ نہیں کر رہے، اگرچہ چند ایک طالبان حامی اس پڑوسی ملک کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، جہاں سے ملا منصور پاکستان میں داخل ہوئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے