ملک کو امن کے داعی ، محب الوطن پاکستانی ، امیر المجاہدین اور معلم اعظم سے محروم کر دیا گیا

افغان اور پاکستان طالبان دونوں میں اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے خطے میں منفرد حیثیت رکھنے والے شہید مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک مدرسہ الحقانیہ کے سرپرست اعلی تھے۔ مولانا سمیع الحق کے نہ صرف پاکستان، افغانستان بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں شاگرد موجود ہیں۔ افغان مجاہدین کے کمانڈر ملا عمر بھی ان کے شاگردوں میں سے ایک تھے ۔ ملا عمر کا نام جب دنیا بھر میں افغان مجاہدین کے کمانڈر کے طور پر سامنے آیا اس وقت شہید مولانا سمیع الحق پر آشکار ہوا کہ افغان طالبان کے پہلے امیر اور افغان طالبان حکومت کے پہلے سربراہ ملا عمر ان کے شاگر رہ چکے ہیں ۔

مولانا سمیع الحق افغانستان میں امریکی افواج کو شکست دینے کے لیے ہمشیہ سے طالبان کو یکجا رہنے کی تلقین کرتے رہے ۔ اسی لیے مولانا سمیع الحق نے طالبان کے درمیان اختلافات ختم کروانے میں بھی متعدد بار اپنا کردار ادا کیا ۔ تحریک طالبان پاکستان کے جب دو گروپ بننے تو اس وقت بھی مولانا سمیع الحق نے گروب بندی کی مخالفت کی ۔ فضل سعید اوتزئی کا جب تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اختلاف ہوا تو انہوں نے تحریک طالبان اسلامی پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ مولانا سمیع الحق نے ٹی ٹی پی سے اختلاف پر علیحدہ گروپ بننے کی مخالفت کرتے ہوئے فضل سعید اوتزئی کو نہ صرف دوسرا گروپ بنانے سے بھی روکا بلکہ تحریک طالبان اسلامی پاکستان کے بانی فضل سعید اوتزئی نے جب حقانی نیٹ ورک سے اتحاد کرنے کی کوشش کی تو مولانا سمیع الحق نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کا حصہ نہ بننے کے لیے بھی کوششیں کی۔

مولانا سمیع الحق افغانستان میں امریکی افواج کی چڑھائی کے سخت مخالف تھے اور انہوں نے متعدد بار چین سے بھی افغانستان میں امریکی فوج کی انخلاء اور خطے میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی لیے کوششیں کیں ۔ مولانا سمیع الحق کا ماننا تھا کہ چین خطے کا اہم ملک ہے اور اسے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مولانا سمیع الحق افغانستان اور پاکستان میں قیام امن کے لیے کوشاں رہے اور امریکی اور افغان سفیر مولانا سمیع الحق کے گھر پر ان سے ملاقاتوں کے کے لیے آیا کرتے ۔

مولانا ایوب خان کے مارشل لاء میں آمریت کے خلاف آہنی دیوار بنے رہے ۔ ایوب خان کے دور حکومت میں مولانا سمیع الحق کا دوٹوک موقف بھی ان کی وجہ شہرت بنا ۔ شہید مولانا سمیع الحق نے قادیانیوں کے خلاف تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ 1977 میں مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کے ساتھ ملکر زولفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کا بھی حصہ رہے۔ مولانا سمیع الحق 1985 سے 1997 تک سینیٹر رہے ۔ شہید مولانا نے 2002 میں دینی جماعتوں کو اکٹھا کر کے متحدہ مجلس عمل کی بنیاد میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔

تاہم گزشتہ انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمن سے اختلافات کے باعث انہوں نے ایم ایم اے کا حصہ بننے سے اجتناب برتا۔ لیکن عام انتخابات 2018 میں نوشہرہ سے پرویز خٹک کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے مولانا سمیع الحق کے بیٹے حامد الحق نے ایم ایم اے کے امیدوار پیر زولفقار باچا کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ 2013 کے انتخابات میں مولانا سمیع الحق نے متحدہ دینی محاذ کی بنیاد رکھی لیکن انتخابات میں ان کو کوئی بڑی کامیابی نہ ملی ۔

2018 کے انتخبات سے قبل ایم ایم اے میں شامل نہ ہونے کی ایک وجہ مولانا سمیع الحق کے عمران خان کے ساتھ قریبی تعلقات بھی تھے۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو حکومت نے مدرسہ ریفارمز کے تحت مولانا سمیع الحق کے مدرستہ الحقانیہ کو57 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے ۔ جس کی وجہ سے مولانا سمیع الحق اور عمران خان دونوں کو سیاسی مخلافین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔

تحریک انصاف حکومت کے اس اقدام کو نہ صرف دائیں بازو بلکہ بائیں بازوں کی جماعت نے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ عمران خان کے سیاسی فطری مخالف مولانا فضل الرحمن نے مدرستہ الحقانیہ کو کے پی حکومت کی جانب سے فنڈز دینے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اپنایا کہ ایک مخصوص مدرسوں کو فنڈز دے کر عمران خان نے اپنی جماعت کے اوپر مغربی اثر و رسوخ ہونے کے تاثر کو ذائل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دوسری جانب دائیں بازوں کی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے اس اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس اقدام کی شدید مخلافت کی ۔

جس کی بڑی وجہ بی بی شہید کے واقعے کی تحقیقات کے نتیجہ میں سامنے آنے والے انکشافات تھے ، جس کے مطابق بینظیر بھٹو کو شہید کرنے کا پلان بنانے میں مدرستہ الحقانیہ کے طالب علموں نے کردار ادا کیا ۔ اور اس تحقیقات کے نتیجے میں مدرستہ الحقانیہ کے تین طالب علموں کو بی بی شہید کیس میں تفتیش کا حصہ بھی بنایا گیا ۔ مولانا سمیع الحق نے اس حوالے سے تریدید کی اور مدرستہ الحقانیہ کا بی بی شہید واقعے سے لا تعلقی کا اعلان کیا ۔

مولانا سمیع الحق نے خیبر پختونخوا میں انسداد پولیو مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ قبائلی علاقوں میں جب ایک مخصوص مذہبی طبقے نے پولیو کے قطرے پلانے کو غیر شرعی قرار دیا تو مولانا نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کا انسداد پولیو مہم میں بھر پور ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف پولیو مہم کا حصہ بنے بلکہ اس کے حق میں فتوی بھی دیے۔

وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مولانا سمیع الحق کے گہرے تعلقات ہونے کی بڑی وجہ عمران خان کا افغانستان میں امریکی افواج کی چڑھائی کی مخالفت تھی ۔ عمران خان کے ڈرون حملوں کے خلاف مؤقف اور نیٹو کنٹینرز کو راستے دینے کے خلاف دھرنے نے عمران خان اور مولانا سمیع الحق کی قربت میں اضافہ کیا ۔ مولانا ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ مذاکرات ہی کے زریعے نکالا جا سکتا ہے۔ شہید مولانا نے متعدد بار طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی راہ ہموار کی اور عمران خان بھی اسی بات کے قائل تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ہی خطے میں امن کا زریعے ہیں۔

مولانا سمیع الحق کی شہادت سے جہاں خطہ افغانستان اور پاکستان میں امن کے لیے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرنے والی شخصیت سے محروم ہو گیا وہیں عمران خان کو مذہبی جماعتوں کی طرف سے ہونے والی تنقید کے "شیلڈ” کو بھی شہید کر دیا گیا ۔ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی میں مولانا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کسی سہارے سے کم نہ تھے لیکن عمران خان کی حکومت اس سہارے سے بھی محروم ہو گئی ۔ آنے والے دنوں میں جہاں عمران خان کی حکومت پر یہودی لابی ہونے کے نشتر برسائے جائیں گے ایسے میں وزیر اعظم کو اپنے قریبی ساتھی شہید مولانا سمیع الحق کی شدید کمی محسوس ہو گی ۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت سے افغان امن کی بحالی جہاں معطل ہوگئی وہیں پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے والوں کو بھی شدید دھچکا لگا ہے اور ایسے میں پاکستان کو ایک عظیم معلم ، امن کے داعی اور محب الوطن پاکستانی سے محروم کر دیا گیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے