’موت کی موت ‘‘

بہت پرانی بات ہے بابا ظہیر کاشمیری کچھ دوستوں کے ساتھ پریس کلب میں تاش سے دل بہلا رہے تھے کہ کسی نے کسی کو مخاطب کرتے ہوئے ذرا اونچی آواز میں کہا ….’’یار !فلاں کی ڈیتھ ہو گئی ہے ‘‘بابا جی نے سر اٹھائے بغیر اپنی مخصوص گھمبیر آواز میں کہا ’’اوئے منڈیو!رل مل کے موت نوں مارو۔جد تک ایہہ موت زندہ ہے ایہہ ظالم کسی نوں زندہ نئیں چھڈے گی‘‘ یعنی ’’لڑکو!مل جل کر موت کو موت کے گھاٹ اتارو کیونکہ جب تک یہ موت زندہ ہے، یہ ظالم کسی کو نہیں چھوڑے گی‘‘۔قہقہہ بلند ہوا اور بات آئی گئی ہو گئی۔چند سال پہلے ’’بیلی پور‘‘میں اک سردار جی امریکہ سے ملنے آئے اوریجن ان کا جالندھر تھا نام تو میں بھول گیا لیکن حلیہ یوں یاد جیسے ہفتہ پہلے ملاقات ہوئی ہو۔قد چھ فٹ تین چار انچ، شنگرفی رنگت، نیلی پگڑی، نیلا سوٹ، سفید داڑھی، بڑی بڑی آنکھیں، نقش ونگار غیر معمولی، مردانہ وجاہت کا بھر پور نمونہ، آواز زعیم قادری کی طرح بیٹھی بیٹھی، خود نہ بتاتے تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا کہ عمر 80سال سے اوپر ہے ۔

گفتگو خالص پنجابی یا پھر نخالص انگریزی اور وہ اس لئے کہ امریکن انگریزی ہے ہی نخالص سی، اصلی انگریزی کی ذرا پچکی ہوئی صورت، سردار جی نے بتایا کہ ایف آر سی ایس کے بعد گوری سے شادی کرکے وہیں ٹک گئے۔ابتدائی چند سال ڈاکٹری کے بعد زمین خریدی،انگوروں کی کاشت شروع کر دی اور اب وہ امریکہ میں کشمش کے لیڈنگ ایکسپورٹر ہیں۔

گفتگو کے دوران سردار جی نے اپنے کھلے ڈلے پنجابی اسٹائل میں کہا ’’موت تو اب مخول بن گئی سمجھو۔چند عشروں کے اندر اندر مرے گا وہی جو مرنا چاہے گا یا پھر کوئی حادثہ ورنہ انسان جب تک چاہے جی سکے گا۔بڑھاپے کی بھی فلاں فلاں‘‘بطور ڈاکٹر انہوں نے مجھے کچھ تفصیلات بھی سمجھائیں جو پوری طرح میرے پلے نہ پڑیں لیکن میں نے بعدازاں کچے پکے انداز میں یہ بات کچھ دوستوں سے شیئر کی جس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔اب ایک تازہ ترین ’’خبر‘‘ یہ آئی ہے کہ 2045ء تک موت اختیاری ہو جائے گی۔دنیا کے دو نامور جنٹیک انجینئرز Jose Luis cordeiroاور David woodکے مطابق آئندہ 27سالوں میں نہ صرف موت پر اختیار حاصل ہو سکے گا بلکہ بڑھاپے کے عمل کو بھی ریورس کیا جا سکے گا۔اپنی نئی کتاب ’’موت کی موت ‘‘میں ان دونوں سائنس دانوں نے لکھا ہے کہ ابدیت یا غیر فانیت اب ایک حقیقت اور سائنسی طور پر ممکن عمل ہے۔

آئندہ 27سال تک میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر جائے گی کہ انسان بیماری یا طبی موت سے نہیں مریں گے بلکہ صرف حادثات ہی موت کا سب بنیں گے۔بارسلونا میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی پر دونوں سائنس دانوں نے کہا کہ اس نئی جینیاتی جوڑ توڑ Genetic manipulationمیںنینوٹیکنالوجی کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔یہ سارا عمل خراب جینز کو صحت مند بنانے، مردہ سیلز کو جسم سے نکالنے کے ساتھ ساتھ تباہ شدہ سیلز کی مرمت وغیرہ پہ محیط و مشتمل ہو گا۔Jose Luis cordeiroجس کا تعلق MIT USAسے ہے ۔کا کہنا ہے کہ اس نے خود تو کبھی نہ مرنے کا انتخاب کرلیا ہے اور 30سال کے بعد وہ آج سے بھی زیادہ جوان ہو گا ۔

عمررسیدگی، DNA Tailsیا Telomeres کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے ۔کروموسومز، جن کے اندر یہ Telomeresموجود ہوتے ہیں، عمر کے ساتھ ساتھ سکڑتے چلے جاتے ہیں اورعمررسیدگی کو ریورس کرنے کیلئے ان کو بڑھانا ضروری ہو گا ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کے سکڑنے اور تباہ وخستہ ہونے میں تمباکو نوشی، شراب نوشی اور فضائی آلودگی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔یہ اور ایسے دیگر عناصر Telomeresکی لمبائی کو کم کر دیتے ہیں جس سے بڑھاپے کا عمل تیز ہو جاتا ہے ۔دونوں سائنس دانوں کو یقین ہے کہ دس سال کے اندر اندر کینسر جیسی بیماریاں قابل علاج ہوں گی۔انہوں نے واضح کیا کہ کینسر سیلز غیرفانی ہوتے ہیں ۔

اول تو زمین ہی کافی ہوگی کیونکہ زیادہ بچوں کا رجحان ختم ہو جائے لیکن تب تک خلا میں رہنا بھی ممکن ہو چکا ہو گا ۔جاپانی اور کورین اپنی موجودہ شرح پیدائش کے سبب آئندہ دو صدیوں تک ختم ہو چکے ہوں گے ۔’’موت کی موت ‘‘شروع شروع میں مہنگی پھر عام ہو جائے گی ۔دونوں سائنس دانوں نے یہ سنسنی خیز اعتراف بھی کیا کہ وہ ’’غیر قانونی ‘‘ طور پر گزشتہ دو سال سے یہ ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔یہ کتاب 4زبانوں میں شائع ہو گی اور اس کی آمدنی اسی کام پر مزید ریسرچ کیلئے استعمال ہو گی۔اور ہم اپنی آمدنیوں سے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں گے ؟فرق صاف ظاہر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے