مودی اور نازی حکومت

نریندر مودی جب سے برسر اقتدار آیا ہے‘ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں خوف کی لہر طاری ہے اورہٹلر دور کی یاد تازہ ہو نے لگی ہے۔اگر موازنہ کیا جائے‘ تو مودی اور ہٹلر میں کافی مماثلت ہے؛ دونوں ہی کے دور میں نسل پرستی پروان چڑھی۔ مودی آر ایس ایس کا ممبر ہے۔نسل پرستی کی تشہیر اورپریکٹس کرتا ہے۔

ہندو ذات کو اعلیٰ ترین نسل تصور کرتا ہے ۔ 2002ء کے گجرات فسادات میں دو ہزار مسلمانوں کا قتل ِعام اور کشمیر سے متعلق حالیہ اقدامات اس کا ثبوت ہیں۔ہٹلر کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ہٹلر نے جرمنی میں نازی سوچ کو پروان چڑھایا۔آرین نسل کو سب سے بہترین قرار دیا اور برسراقتدار آنے پر فائنل سولوشن کے نام سے نظام متعارف کروایا‘ جس کے تحت یورپ میں مقیم دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد قتل کیے گئے۔مودی کے بھگت بھی غیر دانستہ طور پر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔

نازی حکومت میں قومی سوشلزم سیاسی تحریک سے کہیں زیادہ تھی۔ جنوری 1933ء میں اقتدار میں آنے والے نازی لیڈر سیاسی اختیارحاصل کرنے اورسیلس کے معاہدے کی تجدیدِ نو‘کھوئے گئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے ‘ان علاقوںکی توسیع کے علاوہ بہت کچھ کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ ثقافتی منظر کو بھی تبدیل کرنا چاہتے تھے‘جیسا کہ آج کل مودی کر رہا ہے۔ وہ ملک کو روایتی ”جرمن‘‘ اور ”نارڈک‘‘ اصولوں پر واپس لانا چاہتے تھے۔ یہودی‘ غیر ملکی اور زوال پذیر اثرات کو حذف کرنا اور اُنہیں محدود کرنا چاہتے تھے۔ نازی نظریات کے مطابق‘ ایک نسلی برادری (واکس جرمائن شیفٹ) کی تخلیق کرنا چاہتے تھے۔

یہ نظریات بعض اوقات متضاد بھی تھے؛قومی سوشلزم بیک وقت جدید اور جدت مخالف ہوتا ‘ یہ کبھی فعال ہوتا اور کبھی غیر فعال‘ لیکن پھر بھی اس میں سے جرمنی کے پرسکون اور رومانوی ماضی کی بھی خوشبو آتی تھی۔ کہیں کہیں نازیوں کے ثقافتی اصولوں میں مستقل مزاجی موجود تھی۔ انہوں نے جرمن اقدار کی بہترین نمائندگی کے طور پر جرمن خاندان‘ نسل اور اصولوں کی اعلیٰ ترین نمائندگی کرنے کیلئے خاندان‘ نسل اورلوک ریتوں پر زور دیا۔ ان اصولوں کے تحت وفاداری‘ جدوجہد‘ ذاتی قربانی اور تنظیم کو فروغ دینے کی بجائے مادیت پرستی‘ عالمیت اور بورژوائی دانشوری کو مسترد کیا ۔

نازیوں نے یہودیوں کو اہم دشمن قرار دیا۔ نسل کے بارے میں نازی نظریاتی تصورنے دوسرے گروپوں کو اپنے ظلم و ستم‘ حراست اور بربادی کا ہدف بنایا جن میں روما (خانہ بدوش)‘ معذور افراد‘ پولینڈ کے لوگ‘ سوویت یونین کے جنگی قیدی اور افریقی جرمن شامل تھے۔ نازیوں نے سیاسی مخالفین‘ گواہوں‘ ہم جنس پرستوں اور نام نہاد تنہائی پسندوں کو دشمن اور سکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دیا ‘کیونکہ اُنہوں نے مسلسل حکومت کی مخالفت کی یا پھر ان کے رویے کے کچھ پہلو نازیوں کے سماجی نظریات کے اصولوں کے عین مطابق نہ تھے۔ انہوں نے جرمن معاشرے کی ایک دائمی خود تطہیر کے ذریعے اندرون ملک غیر مُقلدیں اور نام نہاد نسلی خطرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔نازیوں کا خیال تھا کہ اعلیٰ نسلوں کو نہ صرف حق حاصل تھا‘ بلکہ یہ ان کا فرض تھا کہ وہ کمتر نسلوں کو محکوم بنائیں اور یہاں تک کہ ان کا قلع قمع کر دیں۔ انہیں یقین تھا کہ نسلوں کی یہ جدوجہد فطرت کے قانون کے عین مطابق تھی۔

نازیوں نے محکوم لوگوں پر غالب جرمن نسل کی حکمرانی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی جاری رکھی۔ محکوم لوگوں میں خاص طور پر سلاوک اور ایشیائی افراد شامل تھے‘ جن سے اُن کی مراد سوویت وسطی ایشیا کے لوگ اور قفقاز کے علاقے کی مسلمان آبادیاں تھیں ‘جن کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ اندرونی طور پر گھٹیا ہیں۔ہٹلر اور نازی تحریک کے دیگر مرکزی قائدین کیلئے ایک انسان کی حتمی قدر اس کی انفرادیت میں موجود نہیں تھی‘ بلکہ یہ اُس کی نسلی طور پر قائم اجتماعی گروپ سے وابستگی کی بنیاد پر تھی۔ کسی نسل کی اجتماعی حیثیت کا حتمی مقصد خود اپنے وجود کی بقا کو یقینی بنانا تھا۔ انسان میں انفرادی طور پر بقا کی جبلت موجود ہے‘ تاہم ہٹلر کا موقف تھا کہ بقا کی جستجو اجتماعی ہوتی ہے ‘جس کا دارومدار کسی فرد کی‘ اُس کے اجتماعی گروپ‘ لوگوں یا نسل میں رکنیت پر ہوتا ہے۔ ہٹلر نے یہ اصطلاحات مسلسل متبادل انداز میں استعمال کیں۔ بقا کیلئے نازیوں کی اجتماعی سوچ کا مقصد ” نسل‘‘ کی پاکیزگی کو تحفظ دینا اور علاقوں کے حصول کی خاطر دوسری نسلوں سے مقابلہ کرنا تھا‘جیسا کہ بھارت کی بہت سی ریاستوں میںانتہا پسند ہندواقلیتوں سے ناروا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔

ہٹلر اور دیگر افراد کے مطابق‘ دوسری نسلوں کے ساتھ اختلاف ‘وقت کے ساتھ اس نسل کو ناجائز بنا دے گا اور اسے اس حد تک خراب کر دے گا کہ وہ اپنی منفرد خصوصیات کھو بیٹھے گی‘ بلکہ حقیقت میں یہ خود کاموثر طور پر دفاع کرنے کی صلاحیت بھی کھو دے گی اور یوں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہٹلر کا اصرار تھا کہ علاقائی زمین انتہائی اہم ہے ‘کیونکہ کسی نسل کی بڑھتی ہوئی آبادی کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی یہ بھی سوچ تھی کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ دینے کیلئے اگر زمین موجود نہیں ہے تو بالآخر نسل تباہ ہو جائے گی اور پھر معدوم ہو جائے گی۔

نازیوں نے نسلوں میں معیار کی درجہ بندی کا تصور بھی پیش کیا‘ جس کے مطابق ؛تما م نسلوں کو مساوی حیثیت حاصل نہیں۔ جرمن لوگ ایک اعلیٰ نسل کے گروپ سے تعلق رکھتے تھے‘انہیں ”آرین‘‘ قرار دیاگیا۔ ہٹلر کا اصرار تھا کہ جرمن ”آرین‘‘ نسل تمام نسلوں کے مقابلے میں زیادہ اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل تھی اور اس حیاتیاتی برتری کی بدولت اسے تمام تر مشرقی یورپ کی وسیع سلطنت پر حکمرانی کرنی تھی‘جیسا کہ انتہا پسند ہندوتوا سوچ آج کل ہمارے خطے میں پروان چڑھ رہی ہے‘انہی نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔صرف مسلمان ہی نہیں ‘بلکہ بھارت میں دیگرا قلیتیں جیسا کہ سکھ‘عیسائی ‘دلت اور دوسری قومیں غیر محفوظ ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے