مولانا سمیع الحق کی الم ناک شہادت

گورارنگ ،لمبا قدا عتدال میں ڈھلی ہوئی،رنگت نکھری ہوئی داڑھی صاف،پُر تمکنت چہرہ،چال باوقار،گفتگو بامحاورہ ودل نشین،زبان کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی،لباس سادہ وصاف ،سرپر خاص قسم کا عمامہ،سادگی اوردلکشی کا حسین مرقع اکابر کی چلتی پھرتی تصویر،نہ اپنی علمیت پر غرہ اورنہ احساس کمتری کا شکار،راست فکراوراحقاق حق اورابطال باطل کے فریضے کوبحسن ِ خوبی نبھانے والے،کشتی ملت کو بھنور سے نکالنے کیلئے مستعد وسرگرم،شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمہ اللہ تعالیٰ کے افکار وعلوم کے علمی وروحانی وارث اورجانشین مولانا سمیع الحق صاحب کو قاتلانہ حملے میں شہید ہو گئے۔

ان کی عہد ساز شخصیت عمل پیہم جہد مسلسل اوریقین محکم سے عبارت تھی وہ دل ودماغ میں علم کاا یک بحر بیکراں اورصبر واستقامت کا کوہِ گرا تھے۔وہ بیسویں صدی کی قابل فخر اورجامع الصفات والکمالات شخصیت تھے ،جو میدان تدریس کے عظیم شہسوار ،علم حدیث کے ماہر اوربہترین شارح اورایک طرح دار صاحبِ قلم ،میدان تقریر میں فصاحت وبلاغت کا بہتا ہواچشمہ اورتحقیق وتصنیف کے میدان کے ماہر،کہنہ مشق،باریک بین،نکتہ دان اورزیرک محقق تھے،علم وکمال ،دانش وبینش ،عبقریت اورنابغیث کا یہ آفتاب ومہتاب ١٩٣٧ء کے آواخر اکوڑہ خٹک میں طلوع ہوا۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم اوراسکے قائم کردہ انجمن تعلیم القرآن ہائی سکول سے حاصل کیا۔١٩٥٧ء میں دورئہ حدیث پڑھ کر ١٩٥٨ء میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے دورئہ تفسیر پڑھنے گئے۔اپنے لازوال ذکاوت وفطانت کے باعث حضرت شیخ کاپورا درس قلمبند کیا،جبکہ اکابر عرب وعجم میں سے شیخ الحدیث مولانا فخر الدین (دارالعلوم دیوبند )،شیخ الحدیث مولانا غورغشتوی،حضرت شیخ بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی اورالشیخ علوی مالکی (مکہ مکرمہ) نے اعزازی سندات سے نوازا۔بچپن ہی سے شوق کتاب اورذوق مطالعہ اپنے عظیم والد سے ورثہ میں ملی،چنانچہ ابتداء میں مولانا مناظر احسن گیلانی اورمفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی نے آپ کے فکرو دانش کوجِلا بخشی،چنانچہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں قلم وقرطاس کے پُر خاروادی میں قدم رکھا اوراس مقام پر پہنچ گئے کہ خوشہ ء چیناں علم ودانش آ پ کے علم وکمال سے استفادہ کرنے لگے جس پر آپ کی بچپن کی ڈائریاں شاہد ہیں۔

اسی سلسلے کو بڑھاتے ہوئے ١٩٦٥ء میں ماہنامہ ”الحق” کا اجراکیا جس نے اپنے ٥٠ سالہ زندگی میں علم وفن ،ادب وصحافت،اشاعتِ اسلام کےہر محاذ میں موثر کردار اداکیا،چنانچہ مؤتمر المصنفین بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے،جس سے ان کی تصانیف قادیانیت کے بارے میں ملت اسلامیہ کا مؤقف،کاروان آخرت،قرآن کریم اورتعمیر اخلاق،شریعت بل کا معرکہ،حقائق السنن (شرح جامع ترمذی)،اسلام اورعصر حاضر،ذین المحافل شرح شمائل ترمذی،خطبات حق اوراسلام کام نظام اکل وشرب ، مکاتیب مشاہیر (10جلد) ،خطبات مشاہیر (10جلد)ہیں جس کی ترتیب وتدوین حضرت الاستاذ ٣٠ یا ٤٠ سال سے کام کررہےتھے جو سات ضخیم جلدوں میں طبع ہوئی ہیں ان کی سب سے بڑی خواہش تفسیر لاہوری رح کی تکمیل تھی جس میں 26 پاروں کا کام مکمل ہو چکا ہےاور شہادت سے قبل بھی اس کی ترتیب وتدوین میں ہمہ تن مصروف تھے۔

تصوف میں حضرت مولانا عبدالغفور عباسی مہاجر مدنی سے بیعت وتعلق رہا ،جبکہ تحریکات میں تحریک ختم نبوت١٩٧٧ء میں مارچ سے مئی تک ہری پور میں پسِ دیوار زندان رہے۔جب سے دارالعلوم کے اہتمام کی ذمہ داری سنبھالی تواپنے شبانہ روز محنت ،مخلصانہ کاوشوں اورصلاحیتوں کے باعث دارالعلوم حقانیہ کا پوری دنیا میں ایک بین الاقوامی تشخص قائم کیا،اسی طرح آپ کے اہتمام میں دارالعلوم دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی،جس پر دارالعلوم کے بلند وبالا عمارتیں شاہد وعادام ہیں۔

انہوں نے جب سیاست کے پُرخاروادی میں قدم رکھا تواپنے اجتہادی فکر ونظر کے بناء پر اسلامی ریاست کی ایک زبردست تاریخ رقم کی،چنانچہ ١٩٨٥ء سینٹ کے ممبر بنے،١٩٨٦ء میں جمعیت کے سیکرٹری جنرل اوریہی سے شریعت بل کی صبر آزما جدوجہد کا آغاز کیا اوراسی مقصد کے لئے متحدہ شریعت کونسل کا قیام عمل میں لایاگیا،جس کے صد ر آپ کے والد ماجد رحمہ اللہ تھے۔ متحدہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل،اسلامی جمہوری اتحاد کے سنیئر نائب صدر،متحدہ دینی محاذ کے داعی اورکنوئیر،جبکہ ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

اس کے علاوہ بہت سے ملکی اوربین الاقوامی اسلامی تحریکات سے وابستہ رہے۔چنانچہ ٢٠٠١ء میں سود کے خلاف آل پارٹیز کا انعقاد کیا،جبکہ جہاد افغانستان اورتحریک طالبان میں مجاہدین کے اتحاد کو عبوری حکومت کے تشکیل میں اہم کردار اداکیا،اسی سلسلہ میں پاک افغان ڈیفنس کونسل تشکیل دی گئی۔

جس کے داعی ،کنوئیر ہی تھے ،اس کا پہلا اجلاس بھی دارالعلوم حقانیہ کے دارالحدیث ایوان شریعت میں ہوا،جس کے پہلے صدر اتفاق رائے سے منتخب ہوئے……چنانچہ اسی کونسل نے آگے چل کر متحدہ مجلس عمل کی شکل اختیار کرلی……اس کے بعد متحدہ مجلس عمل میں مرکزی نائب صدر رہے اس کے بعد چالیس جماعتوں پر مشتمل دفاع پاکستان کونسل بنائی اور تادم آخریں اس کے چئیرمین رہے ان کی شہادت پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی لاکھوں لوگ پریشان اور غم سے نڈھال ہیں ،مولانا سمیع الحق کے چار صاحبزادوں مولانا حامدالحق حقانی مولانا حافظ راشد الحق ،اسامہ سمیع اور حزیمہ سمیع سمیت ان کے تقریبا لاکھوں شاگردوں اور عقیدت مندوں کے لئے انتہائی سخت امتحان ہے اللہ تعالیٰ سب کو صبر جمیل عطا فر مائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے