کھلونا، حکومت ،مولانا، چابی اور تالا؟

مولانا فضل الرحمان اپنے آپ کو ایک غریب مولوی کے بیٹے کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں۔

ان کے والد مفتی محمود ذوالفقار علی بھٹو دور میں اپوزیشن لیڈر اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ ان کی تربیت ڈیرہ اسماعیل خان کے دیہی ماحول میں ہوئی۔ مفتی محمود سیاسی اور دینی مصروفیات کی وجہ سے گھر سے دور رہتے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا خلیفہ محمد نے کی۔

وہ گاؤں کے پرائمری سکول میں بھی پڑھنے جاتے تھے۔

جب وہ چھٹی جماعت میں پہنچے تو ان کے والد مفتی محمود نے یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انھیں گھر سے دُور ملتان مدرسہ قاسم العلوم بھیج دیا۔

یہاں انھوں نے مدرسے کے ساتھ میٹرک تک تعلیم بھی حاصل کی، جس کے بعد انھیں خالص دینی تعلیم کے لیے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ بھیج دیا گیا جہاں وہ ایک سال سے زائد عرصہ مقیم رہے اور پھر دوبارہ ملتان آگئے۔ انھوں نے اکوڑہ خٹک میں بھی آٹھ سال تک دینی تعلیم حاصل کی۔

دوران تعلیم انھیں اپنے اساتذہ سے خوب ڈنڈے بھی کھانا پڑے۔ اس عرصے میں ان کے والد مفتی محمود نے انھیں جلسوں، جلوسوں اور سیاسی سرگرمیوں سے دور ہی رکھا۔

انھوں نے اپنے والد کے برعکس ایک شادی پر ہی اکتفا کیا۔

بچپن میں انھیں والی بال کھیلنا پسند تھا۔ جب ان کے والد کی وفات ہوئی تو پھر سیاست کے میدان کے کھلاڑی بن گئے۔

[pullquote]جمعیت علما اسلام کے امیر منتخب[/pullquote]

مولانا فضل الرحمان کی پیدائش کے تین سال بعد جمعیت علما اسلام پاکستان کا قیام 1956 میں عمل میں آیا۔ سنہ 1970 میں ان کے والد مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان سے ذوالفقار علی بھٹو کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتحب ہوئے، وہ 1973 کے آئین کی تشکیل اور اس میں اسلامی دفعات شامل کرنے میں سرگرم رہے۔

اپنے والد مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمان محض 27 برس کی عمر میں جے یو آئی کے امیر چن لیے گئے۔ اُن کی دستار بندی پر پارٹی میں اختلافات پیدا ہوئے تو پھر جے یو آئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی جن میں ‘ف’ (فضل الرحمان) اور ‘س’ (سمیع الحق) زیادہ مشہور ہوئے۔

لیکن عملی طور پر کوئی دھڑا بھی ملکی سیاست کے خاردار میدان میں اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

یوں اپنے مکتبہ فکر کے سب سے بڑے فکری اور سیاسی رہنما کا قرعہ بھی ان کے نام ہی نکلا۔

[pullquote]انتخابی حکمت عملی[/pullquote]

مولانا فضل الرحمان مختلف حکومتوں کا حصہ رہے لیکن ان کی سیاست میں زیادہ تیزی 2002 کے بعد دیکھنے میں آئی۔

انتخابات کی نگرانی کرنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک سے وابستہ مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان یہ نہیں معلوم ہونے دیتے کہ اگر انھیں اقتدار مل گیا تو وہ کس طرح کا نظام لے کر آنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے خیال میں جے یو آئی کے سربراہ کی تقاریر میں کسی نظام سے متعلق کچھ سننے کو نہیں ملتا۔

تاہم وہ دھرنوں، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کے قائل نہیں رہے۔

سابق رکنِ اسمبلی اور جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے ملکی حالات اس قدر سہل نہیں ہوتے کہ سب کچھ حاصل کر لیا جائے۔

ان کے خیال میں حالات کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا طرز سیاست ‘رینسیکنگ پولٹکس’ والا ہے یعنی وہ پریشر گروپ کا کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کے خیال میں مولانا فضل الرحمان حکومت بنانے کی نیت سے انتخابات نہیں لڑتے۔ وہ تمام حلقوں سے اپنے نمائندے تک نہیں کھڑے کرتے تو پھر وہ حکومت کیسے بنا سکتے ہیں۔

حافظ حسین احمد اس رائے سے کسی حد متفق ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف ‘الیکٹیبلز’ کی سیاست چلتی ہے۔ اگر جے یو آئی سارے حلقوں سے امیدوار کھڑے کر بھی دے تو اس سے نتائج پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

لیکن وہ مدثر رضوی کی ‘رینسیکنگ’ سے متعلق طرز سیاست کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے بھوت سے نمٹنے کے لیے جے یو آئی کا سیاست کرنا ملک کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب 1997 میں جے یو آئی کی مجلس شوریٰ نے یہ رائے دی کہ انتخابات میں حصہ نہیں لیتے تو اس وقت ریاستی اداروں سمیت سب نے یہی تجویز دی کہ اگر جے یو آئی سیاست کے میدان سے باہر نکل آئی تو اس سے شدت پسند عناصر کے لیے میدان زیادہ وسیع ہو جائے گا اور ان کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔

[pullquote]فوج اور ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت سے متعلق آراء[/pullquote]

مولانا فضل الرحمان ‘دھاندلی’ کے دعووں کے باوجود نظام کے اندر رہ کر بہتری کے لیے کوشاں رہنے کے قائل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ ہم اس ملک میں معذرت خواہانہ سیاست کریں چونکہ ہم مجبور ہیں اس لیے ہر قیمت پر الیکشن لڑیں گے۔’

جب جے یو آئی کو 1997 کے انتخابات میں بھی شکست کھانی پڑی تو مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر پارلیمنٹ سے باہر ہوگئے۔ انھوں نے اس شکست کا ذمہ دار نواز شریف کے بجائے اداروں کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلیوں کے ذریعے ہم کو بار بار ہراتے رہو اور اخبارات کے ذریعے بدنام کرتے رہو، میڈیا ٹرائل کرو اور پھر یہ تاثر دو کہ قوم نے مولویوں کو مسترد کردیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان حساس اداروں کے خلاف بھی کھل کر سامنے آئے اور اس وقت میڈیا نے ان کے یہ بیانات اور انٹرویوز شائع بھی کیے۔

دو جولائی 2000 کو ان کا ایک انٹرویو جنگ سنڈے میگزین میں شائع ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ‘ہمارے ملک میں ہر وقت فوج حاکم ہے، فوج جب چاہے حکومت تبدیل کرسکتی ہے، نہ آئین اس کو روکتا ہے، نہ عوام کی اکثریت اور نہ ہی ان کے مقابلے میں قوم کے فیصلوں کی کوئی اہمیت ہے۔’

20 اکتوبر 2001 میں ان کا ایک اور انٹرویو سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ‘مجھے فوج کے کردار پر شک ہے، مجھے اس کے سپہ سالار پر شک ہے، میں قوم کو بلا رہا ہوں، آئے اور اپنے ملک کو بچائے، فوج نے کبھی کسی ملک کا جغرافیہ نہیں بچایا۔’

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ‘میں ایجنسیوں کی ملکی سیاست میں مداخلت کا سخت مخالف ہوں، یہ عوامی سوچ کے خلاف کام کرتے ہیں، جس سے ملک کا ڈھانچہ ہِل جاتا ہے، جس سے عوام کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے اور جس سے تباہی پھیلتی ہے۔’

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دھاندلی ہورہی ہو تو پھر یہ بھی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم یہ تاثر دیں کہ ہم اس ملک میں معذرت خواہانہ سیاست نہیں کرتے پھر ہم اسمبلی سے باہر لڑیں گے۔ ‘فرنٹ لائن پر قوم ہو اور ان کی قسمت کے فیصلے پس پردہ ہوں، ہم ایسی سیاست کو نہیں مانتے۔ اس لیے اسمبلیوں سے باہر بھی لڑنا پڑ جائے تو گریز نہیں کریں گے۔’

[pullquote]دھرنے سے متعلق رائے[/pullquote]

بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن اور جماعت اسلامی کے حکومت مخاف دھرنوں کی مخالفت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ‘بے نظیر نے بہت سی غلطیاں بھی کی ہیں۔

ان کی سوچ اور ان کے مشیر بھی غلط ہیں۔

ان سب خرابیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ایک دم پانچ مہینوں کے بعد استعفوں کی بات کرنا اور سسٹم کو غلط قرار دینا اور دوبارہ الیکشن کی بات کرنا یہ کہاں کی سیاست ہے، اور یہ اپوزیشن کا کیسا عمل ہے۔’

سنہ 1994 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ‘نواز شریف جس ماحول میں پلا بڑھا ہے وہاں سیاست نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور (اُن کی) تربیت بھی سیاسی نہیں ہوئی۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ نواز شریف کو نہ حکومت کرنا آتی ہے اور نہ اپوزیشن۔ وہ دونوں سے عاری ہے۔’

سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی مولانا فضل الرحمان اپنے نظریات میں معتدل پسندی کے قائل نظر آتے ہیں۔ انھوں نے سیاسی طور پر پرویز مشرف کے خلاف بیانات دینا شروع کیے لیکن اس عرصے میں اسلام آباد میں واقع لال مسجد انتظامیہ سے دوری رکھی اور فوجی آپریشن کو بھی دور سے ہی دیکھا۔

وہ سیاسی اور مذہبی اتحادوں میں بھی ہر مکتبہ فکر کی شمولیت پر یقین رکھتے ہیں۔ جے یو آئی کی صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا گیا تو ایران سے خصوصی طور پر ایک وفد نے ان تقریبات میں شرکت کی۔

وہ جہاد کشمیر کے قائل نہیں رہے اور انھوں نے جہاد افغانستان کی مخالف نہیں کی۔ تاہم وہ طالبان طرز کے نظام کے زیادہ حامی بھی نظر نہیں آتے۔

شاید وہ پاکستان کی سیاست کے پہلے مذہبی رہنما تھے جنھوں نے خود کش حملوں کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے بعد دیگر مفتیان نے بھی ان کے موقف کی تائید کی۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کے دیگر قریبی رہنماؤں پر بھی خود کش حملے ہوئے۔

طالبان طرز کی حکومت سے متعلق ان کا یہ موقف رہا ہے کہ ‘اسلام اللہ کا ہے، طالبان کا نہیں۔’

[pullquote]مذہبی کارڈ کا استعمال[/pullquote]

اس وقت ملک میں سب سے زیادہ دینی مدارس جے یو آئی کے مکتبہ فکر کی حمایت والے ہیں اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے زیادہ سرگرم نظر نہیں آتے۔ وہ ان مدارس کو اپنی سیاسی مقصد کے لیے استعمال کو برا نہیں سمجھتے تاہم طلبا سیاست کے مخالف ہیں۔

وہ مخالفین پر سیاسی سے زیادہ مذہبی تنقید کرتے ہیں۔ ختم نبوت کی سازش بھی کچھ عرصے بعد وہ تلاش کرلیتے ہیں اور سپریم کورٹ کی طرف سے جب آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ آیا تو انھوں نے مذہبی مورچہ سنبھالتے ہوئے اس فیصلے پر تنقید کی۔

وہ کم عمری کی شادیوں سے متعلق قانون سازی کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔

صحافی سبوخ سید کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے انٹرویوز کو کراچی کے ایک ادارے مشافہات نے شائع کیا جس میں ان کی طالبان سے متعلق بھی آرا شامل ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا کہ وہ ایک دوری رکھتے ہوئے بھی ان معاملات سے زیادہ لاتعلق نہیں رہے۔

سبوخ سید کے مطابق یہ سب کچھ اس دور کی اخبارات میں بھی شائع ہوتا تھا جس کا ان کے پاس ریکارڈ موجود ہے۔

[pullquote]مولانا فضل الرحمان کے بارے میں بے نظیر بھٹو کیا رائے رکھتی تھیں؟[/pullquote]

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اتحاد عقائد کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بہت پرانی جماعت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جمعیت علماء اسلام ہند کی انگریزوں کے خلاف جہدوجہد کی ایک تاریخ ہے اور ایک قبرستان ہے کہ جو دیوبند کے شہداء سے بھرا ہوا ہے، یہی وہ بات ہے جو ہم میں مشترکہ ہے۔‘

ناہید خان اور صفدر عباسی بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی رہے ان دونوں کی رائے میں ’محترمہ (بے نظیر بھٹو) ان کی (مولانا فضل الرحمان) کی بہت عزت کرتی تھیں۔‘

ان کے خیال میں مفتی محمود کی طرح مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے بھی وہ بے نظیر بھٹو حکومت کے 1988 اور 1993 میں اتحادی بنے۔

حافظ حسین احمد لندن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ اپنی ایک طویل نشست کا احوال سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے نظیر نے غلام سابق صدر اسحاق خان اور سردار فاروق لغاری کی حمایت سمیت اِن جیسے کچھ فیصلوں پر نمدیدہ ہو کر کہا کہ جے یو آئی کی قیادت نے انھیں پہلے سے ان غلط فیصلوں کے اثرات سے متعلق باخبر کیا تھا۔

تاج حیدر کی رائے میں ’شیخ الہند مولانا محمود الحسن وہ پہلے مذہبی اور سیاسی رہنما تھے جنھوں نے مل جل کر جدوجہد کرنے کا نظریہ دیا، بے نظیر بھٹو یہ بات جانتی تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ظالم بھی مسلمان ہے اور مظلوم بھی مسلمان تو ایسے میں عقائد کے بجائے سیاسی جدوجہد پر وہ مولانا فضل الرحمان کو زیادہ آمادہ پاتی تھیں۔‘

بے نظیر بھٹو بھی تسلیم کرتی تھیں کہ مولانا فضل الرحمان جذباتیت سے زیادہ حقیقت پسندی کے قائل ہیں۔

آزادی مارچ سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے تاج حیدر نے کہا ابھی جب پیپلز پارٹی نے ان سے مذاکرات میں کہا کہ دھرنا نہیں ہوگا اور احتجاج میں مذہبی کارڈ نہیں استعمال کیا جائے گا تو انھوں نے دونوں شرائط کو تسلیم کیا۔

بشکریہ بی بی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے