مولانا فضل الرحمٰن کا یورپین سفیروں سے خطاب(مکمل متن)

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا صد سالہ عالمی اجتماع بسلسلہ تاسیس جمعیۃ 7,8,9اپریل 2017کو پشاور میں منعقد ہورہا ہےجس میں سو سالہ خدمات کو اجاگر کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں یورپی یونین کے سفراء کو گذشتہ روز اسلام آباد میں بریفنگ دی گئی ۔
اس موقع پر قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے سفراء سے جو خطاب کیا وہ نذر قارئین ہے۔

محترم سفراء کرام!

مجھے اس بات پر گفتگو کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آج ہم جمعیۃ علماء کی تاسیس کی بات کر رہے ہیں۔ 1919میں جمعیۃ علماء اسلام کی بنیاد رکھی گئی جس نے برصغیر کی سیاست کو اور یہاں پر جاری جدوجہد آزادی کو ایک نئی جہت عطاء کی اور وہ جہت مسلح جدوجہد سے ہٹ کر پرامن،سیاسی اور عدم تشدد پر مبنی جہدوجہد کا آغاز تھا اور آج بھی جمعیۃ علماء اسلام باجود اس کے کہ برصغیر تقسیم ہوگیا ہے اور ہندوستان ایک ملک نہیں رہ سکا لیکن جمعیۃ علماء اسلام آج بھی اپنے بنیادی فلسفہ ہے پر برقرار ہے۔ یہ بنیادی فلسفہ پرامن جدوجہد سیاسی جدوجہد اور عدم تشدد پر مبنی ہے۔ہم آنے والے مستقبل کو اور نسلوں کے حوالے یہی انداز سیاست کرنا چاہتے ہیں۔

دین اسلام کی بنیاد انسانیت کی فلاح و بہبودپر ہے۔اس کا تعلق کسی خاص قبیلے سے ہے نہ کسی خاص قومیت کے ساتھ، کسی خاص علاقے کے ساتھ نہ کسی خاص زمانے کے ساتھ ۔ قیامت تک تمام انسانیت کی بھلائی دین اسلام کے مدنظر ہے اور ہم نے اسلام کے اس پروگرام کو کسی فرقہ واریت ، تعصب یا کسی نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے وسیع ، عالمگیر اور آفاقی تصور کے ساتھ تمام انسانیت کی بھلائی کے لئے پیش کیا ہے اور جمعیت علماء اسلام پاکستان میں ہمیشہ اس پر کاربند رہی ہے۔

دین اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ مثبت تعلقات ہونے چاہئے،ایسے تعلقات کہ ہم ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے، ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی سے اور ان کے علم سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اپنی تعلیمات ، اپنی ٹیکنالوجی ، اپنی اکانومی اپنی اقتصاد کا فائدہ دوسروں کو پہنچا سکیں۔ انسانیت کا جس علاقے کے ساتھ تعلق ہو، جس رنگ و نسل سے ہو، لیکن اس کی ایک دوسرے کے ساتھ پہچان ، ایک دوسرے کے تعاون کے حوالے سے ہے۔ یہ فلسفہ ہمیں دین اسلام عطاء کرتا ہے۔جناب رسولﷺ نے جب ریاست مدینہ قائم کی تو آپ کے بہترین تعلقات رومہ کی حکومت کے ساتھ تھے۔ وہ رومہ جسکوآج دنیا یورپ کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اصولوں کی بنیاد پر باہمی فائدے اور استفادے کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو اہمیت دینی چاہئے۔ہمیں ایک دوسرے کے حقوق اور ایک دوسرے کی خودداری کا احترام کرنا چاہئے ۔ دنیا میں انسانوں کے درمیان جو ایک فطری تفاوت موجود ہے کہیں پر دولتمند موجود ہیں ، کہیں پر غریب موجود ہیں لیکن وہ آپس کی صلاحیتوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک قوم کے پاس ایک طرح کے وسائل ہیں اور اسکی پیداواری صلاحیت ایک طرح کی ہے تو دوسری قوم کی پیداواری صلاحیت اس سے بالکل مختلف ہیں۔ اس کی استعداد ، اس کا علم اس سے مختلف ہوتا ہے۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس فطری تفاوت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

انسان ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرے ، ایک دوسرے کی پیداواری صلاحیتوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرے۔ تجارتی تعلقات قائم کریں تاکہ ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاسکیں۔ انسانیت کو ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم مہیا کرنی چاہیے نہ یہ کہ ایک دوسرے کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہم اگر اختلاف کر رہے ہیں آج دنیا میں کچھ قوتوں کے ساتھ کہ وہ پسماندہ اور ترقی پزیر ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ صلاحیتوں کی پالیسی اختیار کریں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھائیں۔ ہمارے پاس زمین کے اندر بہت سے وسائل موجود ہیں لیکن ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں جن کے پاس ٹیکنالوجی ہے اس کا فائدہ ہمیں اٹھاناچاہئے اور ہمارے وسائل کا فائدہ انکو ملنا چاہئے۔ یہ تبادلہ ضروری ہے یکطرفہ طور پر کسی کے وسائل پر قبضہ کرنے کے نظریے سے جمعیت علماء اسلام کا اتفاق نہیں۔ پوری دنیا اور بالخصوص مغربی دنیا نے جنگ ، طاقت کے استعمال براہ راست ملکوں پر نو آبادیاتی نظام مسلط کرنے کا رواج 1945کے جنگ عظیم دوم کے بعد ترک کردیا اور پھر باہمی تعلقات کے لئے ادارے قائم کئے، مالیاتی ادارے قائم کئے، دفاعی معاہدات ہوئے، سیاسی ادارے قائم کئے اور تمام ملکوں کی خود مختاری تسلیم کی گئی، انکی آزادی کے اصول کو تسلیم کیا گیا، اقوام متحدہ کی سطح پر انسانی حقوق چارٹر متعارف کرایا گیا،جنیوا انسانی حقوق کنونشن نے انسانی حقوق کا چارٹر متعارف کرایا لیکن جمعیۃ علماء نے اس سے 25سال پہلے 1919میں جنگ کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی روش کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی جہت دی ایک سیاسی جہت ، پرامن جہت اور اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا کو اگر پرامن راستہ بتایا ہے توہ میرے اکابر نے 1919میں یہ راستہ دکھایا۔

جمعیۃ علماء کی جب بنیاد ڈالی گئی تو مندرجہ ذیل امور کو مدنظر رکھا گیا۔
1۔ انسان کی آزادی کو انسان کا پیدائشی حق تسلیم کرنا ۔
2۔ انسانی حقوق کا تحفظ اور انسانیت کے لئے امن کو ناگزیر قرار دینا ۔
3۔ معاشی خوشحالی
4۔ پسماندہ طبقوں کی محرومیت کو ختم کرنا

یہ وہ بنیادی چیزیں جن کا تعلق پوری انسانیت کے ساتھ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آج مغربی دنیا ہمیں سبق سکھا رہی ہے کہ آپ پرامن جدوجہد کریں ، وسیع النظری کا مظاہرہ کریں ، انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔ خواتین کے حقوق کا خیال رکھیں اور جمعیۃ علماء اسلام انکو بتار ہی ہے کہ اپ اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں تاکہ انسانی حقوق محفوظ ہوں ، انسانی آزادی کے حق کو یقینی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ میرے خیال میں بنیادی اصول پر ہمیں اتفاق ہے لیکن ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے آج جہاں مذہب کا ذکر آتا ہے اس کے ساتھ تنگ نظری کا تصور وابستہ کردیا گیا ہے، جہاں مذہب کا ذکر آتا ہے وہاں انتہاء پسندی کا تصور اس کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے، جہاں مذہب کا ذکر آتا ہے وہاں تشدد کا تصور اس کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے اور ارتقائی طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ جہاں مذہب ہے وہاں دہشت گردی ہے۔ میں اس سلسلے میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جمعیۃ علماء اسلام نے ہمیشہ اسلام کے اس تصور سے اختلاف کیا ہے اور ہم نے یہاں ان قوتوں کے ساتھ کہ جو اسلام کو رجعت پسند، شدت پسند یا انتہا پسند مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام نے ہمیشہ اس روش سے اختلاف کیا ہے۔ ہم پر بڑی تیز و تند ہوائیں آئی ہیں کبھی بندوق کے نام پر، کبھی جہاد کے نام سے، کبھی فرقہ واریت کے نام سے لیکن ان تمام حالات میں بڑی حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے ہم ان حالات سے نکلے ہیں۔ ہم ان کا نشانہ بنے ہیں، ہمارے علماء اس دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں، ہمارے پارلمنٹیرین علماء اس دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں، خود مجھ پر حملے ہوئے ہیں، میرے بڑے سینئر دوستوں پر حملے ہوئے۔ اسی بنیا دپر کہ ہم تشدد ، انتہاپسندی اور اسلام کے محدود تصور کو تسلیم نہیں کرتے۔ الحمد اللہ پاکستان میں صرف جمعیت علماء ہی نہیں بلکہ تمام وہ سیاسی جماعتیں جو مذہبی کہلاتی ہیں مختلف مکاتب فکر سے وابستہ ہیں تمام دینی مدارس چاہے جس مکتبہ فکر سے وابستہ ہوں وہ پاکستان کے آئین سے وابستہ ہیں پاکستان کے قانون سے وابستہ ہیں پاکستان کے سیاسی نظام سے وابستہ ہیں اورچند لوگ جو انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں یا اسلحہ کے ذریعے تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ سو میں ایک یا دوفیصد ہیں تو ایک یا دو فیصد کو مذہب کی تشریح نہیں کہا جاسکتا ۔98/99لوگوں کے رویے کو مذہب کی تشریح کہا جائے گا اور اس حوالے سے ہم نے کبھی کسی زمانے میں کبھی اس پر کمپرومائز نہیں کیا ۔مشکل یہ ہوتی ہے کہ جس وقت ہم جیسے لوگ جب امریکہ یا کسی مغربی دنیا کی پالیسی سے اختلاف رائے کرتے ہیں توپھر ہمیں دفاعی پوزیشن میں ڈالنے کے لئے دہشت گردی کے زمرے میں پھینکے کی کوشش کرتے ہیں تو سیاسی ٹیکٹس تو ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا ہمارے حقائق کے ساتھ زمینی حقائق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

جمعیت علماء اسلام آج سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے اورہم نے ملک کے ہر طبقے میں ہر مذہبی حلقے میں جو اعتماد حاصل کیا ہے وہ ان پالیسوں اور اسلام کے اس وسیع تر تصور اور رویوں کے ساتھ حاصل کیا ہے اور لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہے صرف پاکستان کے مسلم آبادی میں نہیں بلکہ ہمارے ملک کی جو اقلیتیں ہیں مسیحی برادری اس وقت بھی آپ کے سامنے آسیہ ناصر صاحبہ موجود ہیں جو مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں اور ہماری قومی اسمبلی کی ممبر ہیں اسی طریقے سے ہمارے اسمبلیوں میں ہندو کمیونٹی کے اراکین موجود ہیں سکھ کمیونٹی کے اراکین موجود ہیں ہمارے منسٹر رہے ہیں وہ ہمارے صوبائی اسمبلیوں کے ممبر رہے ہیں اور ابھی چند دن پہلے پشپ آف پاکستان نے باقاعدہ جمعیۃ میں شمولیت اختیار کی ۔ ان کے ساتھ ان کے صاحبان بھی تھے اور چند دن پہلے یہاں کچھ پشپ صاحبان اور ہندو کمیونٹی کے لیڈروں نے جمعیۃ علما ء میں شمولیت اختیار کی آپ اس سے خود اندازہ لگائیں کہ پاکستان کی اقلتیں آخر کیوں اس مذہبی جماعت پر اعتماد کرتی ہیں ۔ انہیں ہم نے اطمنان دلایا ہے کہ ہمارا منشور آپ کے حقوق کا مکمل محافظ ہے آپ کے اس ملک میں جو حقوق ہیں ایک بھائی کی طرح آپ کو ٹریٹ کرنا چاہتے ہیں آپ کے حقوق کی مکمل تحفظ چاہے اس کا تعلق جانی حقوق کے ساتھ ہو یا مالی حقوق کے ساتھ ہو چاہے اس کا تعلق عزت و احترام کے حقوق کے ساتھ ہو اور ہمارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے ریاست میں جو غیر مسلم رہتے ہیں انکی جان پر حملہ ہوا تو یہ ہم پر حملہ تصور ہوگا اگر ان کے مال پر حملہ ہوا تو یہ ہم پر حملہ تصورہوگا اگر انکی عزت و آبرو پر حملہ ہوا تو یہ ہم پر حملہ تصور ہوگا ہم انہی تعلیمات کو بنیاد بنا کر ایک قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں اورحقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔

الیکشن ہمارے ملک کا آئینی تقاضا ہے جب وقت آئے گا انشاء اللہ ماضی کی طرح الیکشن میں جائیں گے۔ مذہب اسلام کے حوالے سے ہماری ایک نمائندہ کی حیثیت ہے، اس کا جو تاثر مغرب میں ہے ہم شاید طویل عرصے کی جدوجہد کے باوجود اس تاثر کو زائل نہیں کرسکے اور میں کوشش کروں گا کہ اگر پاکستانی عوام ہم پر اعتماد کرتے ہیں تو ہم اسے زائل کرنے کوشش کریں گے۔ چونکہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں، ہم حکومت میں نہیں، ہم نے صوبائی حکومتیں کی ہیں، ہم حکومتوں میں شامل رہے ہیں لیکن سیاسی جماعت ایک حکومت بنانے کا تصور ضرور رکھتی ہے، جب میری حکومت ہوگی تو آج میں نے سوچنا ہے کہ جب پورے ملک میں حکومت کروں گا تو پھر قوم ایک برادری ہوگی اور اس کے سارے حقوق میری زمہ داری بنے گی تو ہمیں پہلے سے ان رویوں کو متعارف کرنا ہوگا اور اس بنیاد پر ہمیں اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ اپنے ان نظریات کی بنیاد پر ہم بین الاقوامی تعلقات میں توازن رکھتے ہیں۔ ہم بین الاقوامی تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں، ہم اپنے ملک کے مفاد کو سمجھتے ہیں، 70سال ہمارے گزر گئے لیکن ہم بین الاقوامی مفادات کو اپنے ساتھ وابستہ نہیں کرسکے۔میں ہمیشہ شکایت کرتا ہوں ملک کے اندر شاید ہم دوسروں کے فائدے کے لئے تو استعمال ضرور ہوتے ہیں لیکن ہم دنیا کو اپنے ساتھ مفادات کی دنیا میں وابستہ نہیں کرسکے اور کامیاب خارجہ پالیسی وہی ہوتی ہے کہ جب آپ اس کامحور اپنے ملکی مفادات کو بناتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر آج سی پیک ایک منصوبہ ہے اور پاکستان کے راستے اس کی راہداری ہے ۔ اس کو پاکستان کے معاشی مستقبل کے لئے ایک اچھا موقع تصور کرتے ہیں اور اس سے ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم یورپ کے ساتھ اسی طریقے سے منافع بخش اقتصادی تعلقات کی تمنا کرتے ہیں اور اس کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس طریقے سے پوری دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں ایک تصور ہمارے ذہن میں ہے اس کو کب ہم نافذ کریں گے کس طرح کرینگے اس حوالے سے دنیا کا اعتماد بھی ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم آج تک مغربی دنیا کو اس حوالے سے اعتماد نہیں دلاسکے ہیں اور چند دن بعد ہم صد سالہ منائیں گے پوری قوم اس میں شریک ہوگی، آپ بھی اس میں شرکت کریں۔ اس کا پیغام پوری دنیا کیلئے مثبت پیغام ہوگا، دوستی کا ہوگا پرامن تعلقات کی بنیاد پر ہوگا، اقتصادی ترقی کے حوالے سے ہوگا، انسانی حقوق کے حوالے سے ہوگا اور قوموں کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ اور اختیار اعلیٰ کے تصور کے ساتھ ہوگا ۔ ان شاء اللہ اس حوالے سے بھی ہمیں آگے جاکر ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا اور آپ کو ایک تجربے سے گزرنا ہوگا ۔

پاکستان میں اگر ہماری حکومت بنتی ہے تو پاکستان کے اس مستقبل میں کرپشن کی باتیں نظر نہیں آئیں گی اس سے اگر چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو آپ کے پاس صرف ایک فورم جمعیۃ علماء موجود ہے جس کا ماضی بے داغ ہے اور اس کا مستقبل بھی بے داغ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے