کاش میں اس روز وہاں نہ جاتی

چارجنوری دو ہزار سولہ کی صبح بھی سورج روز کی طرح شہر اقتدار میں پوری آب وتاب کے ساتھ نکلا اور چارسو اپنی روشنی اور میٹھی گرماہٹ پھیلانے لگا۔۔۔۔ میں روز کی نسبت زیادہ خوش خوش دفتر پہنچی۔۔۔۔ خوش ہونے کی وجہ تھی بھی۔۔۔۔ نیشنل پریس کلب میں انتخابات ہونے جارہے تھے۔۔۔۔۔ میں پرجوش تھی کہ جرنلزم میں آئے تقریبا چھ سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔۔۔ لیکن پہلی مرتبہ پریس کلب کے انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہوں۔۔۔۔ یہ اس بات کی بھی سند تھی کہ میں باقاعدہ صحافیوں کی صف میں کھڑی ہو گئی ہوں۔۔۔۔ مجھے اس پر جتنی خوشی ہونی چاہئیے تھی۔۔ شائد اس سے بھی تھوڑی سی زیادہ تھی۔۔۔ پورا دن کام کرنے کے بعد شام کو پریس کلب جانے کے لئے آفس کی گاڑی سے نکلی تو پورا راستہ مختلف طرح کے خوشگوار خیالات میرے ذہن کو جکڑے رہے ۔

۔ جب میں پریس کلب جانے والی روڈ پر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ روڈ بلاک ہے۔۔۔ ڈرائیور نے کہا میڈیم یہاں سے آگے نہیں جانے دیں گے۔۔۔۔۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں! آپ انہیں کہیں کہ ہم نے پریس کلب جانا ہے۔۔۔۔ تو ڈرائیور نے کہا کہ کہ میڈیم پریس کلب کے انتخابات کے لئے ہی اتنی سیکیورٹی ہے۔۔ کہ وہاں تک پہنچنے کے لئے پیدل ہی جانا پڑے گا۔۔۔۔۔ خیر! میں اور میرے ساتھی رپورٹر گاڑی سے اترے اور پیدل ہی چل پڑے۔۔۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی سے سردی کافی بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔ میں نے اردگرد نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ پولیس کی ایک بڑی نفری وہاں پر موجود تھی۔۔۔۔ جن میں خواتین پولیس اہلکار بھی شامل تھیں۔۔ مجھے حیرانی ہوئی۔۔۔ لیکن یہ بھی ذہن میں تھا کہ ملکی حالات ٹھیک نہیں۔۔۔ شائد کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے یہ انتظامات کئے گئے ہیں۔۔۔ آگے بڑھے تو پریس کلب کے مین گیٹ کے سامنے ہرڈلز رکھے گئے تھے اور ساتھ ہی واک تھرو گیٹ بھی لگایا گیا تھا۔۔۔ ہم اندر داخل ہوئے تووہاں کا ماحول ایسا لگا کہ جیسے سیاسی جماعتوں کے انتخابات ہورہے ہوں۔۔ لاؤڈ سپیکرز پر ملی نغمے جس زور و شور سے بج رہے تھے۔۔۔ لگ رہا تھا کہ بس آج تو ہم کوئی جنگ جیت ہی لیں گے۔۔۔ لیکن یاد رہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی دنگل نہیں سجا تھا۔۔۔ بلکہ پریس کلب میں صحافیوں کے انتخابات تھے۔۔۔۔ جن میں تقریبا چار گروپس حصہ لے رہے تھے۔۔۔۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔۔۔ ہمیں ہمارا نام چیک کر کے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔۔۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو ایک صاحب میرے قریب آئے اور کہا کہ میڈیم آپ کا ووٹ نمبر کیا ہے۔۔۔ میں نے بتایا تو ان صاحب نے انتہائی خوش اخلاقی سے مجھے کہا کہ آپ کا پولنگ سٹیشن نمبر دو ہے۔۔۔ میں بہت خوش ہوئی۔۔۔ جب پولنگ اسٹیشن نمبر دو کے قریب پہنچی تو دیکھا کہ بیلٹ باکسز زمین پر گرے ہوئے ہیں۔۔ ایک سائیڈ پر میز ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔۔۔۔ ہرچیز کسی اجڑے ہوئے چمن کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا ہے یہاں پر۔۔ لیکن پھر پیچھے سے تیز تیز آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔۔۔: دھاندلی۔۔ دھاندلی۔۔ دھاندلی۔۔۔: ہم یہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے:۔۔ ہم کورٹ میں جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ جب میں نے پچھے مڑ کردیکھا تو مجھے سخت مایوسی ہوئی۔۔۔ وہاں کچھ ایسے چہرے نظر آئے۔۔۔ جو دن رات لوگوں کو اخلاقیات کا سبق پڑھاتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ایسے افراد جن کا بس چلے تو لوگوں کے گھروں میں جا کر انہیں جینے کے بھی آداب سکھا آئیں۔۔۔ وہ اتنی بدتہذیبی کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ مجھے تو اپنی آنکھوں اور کانوں پر ہی یقین نہ آیا۔۔۔ جب کوئی سیاسی انتخابات ہوتے ہیں تو ہم سیاستدانوں کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفین پر کیچڑ کیوں اچھالا۔۔ مہذب ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیا۔۔۔ دن رات اسی بات پر ٹی وی سکرینز لال ہوتی دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن ہم جو یہ سب لوگوں کو سکھاتے پڑھاتے ہیں ۔۔۔ اس پر ہم خود ہی عمل نہیں کرتے۔۔۔

ہم پر وہ ضرب المثل صادق آتی ہے: دوسروں کو نصیحت۔۔خود میاں فضیحت: مجھے اتنے سالوں میں پہلی بار اپنے صحافی ہونے پر شرمندگی ہوئی۔۔۔ کیونکہ میرا شمار بھی مہذب قوم کے غیرمہذب لوگوں میں ہوتا ہے۔۔۔ بہت اشد ضرورت کے ہم اپنے روئیوں پر غور کریں۔۔۔ اور ہمارے نام نہاد بڑے دیکھیں کہ آپ ہم جیسے نوجوان صحافیوں کو کون سا راستہ دے رہے ہیں۔۔؟؟ شدت پسندی اور عدم برداشت کا۔۔ آپ ہمیں صرف میں ہی ہوں: سکھا رہے ہیں۔۔۔: تو بعد میں ہم سے گلہ نہیں کرئیے گا کہ یہ سب آپ ہی سے سیکھا ہوگا۔۔۔::: خیر اللہ اللہ کر کے پریس کلب کے الیکشن تو ہوگئے۔۔۔ جیت کی خوشی بھی ملی اور سچ سے آگہی کا دکھ بھی۔۔۔ اب میں یہ سوچتی ہوں کہ کاش میں اس دن وہاں نہ جاتی اور وہ سب نہ دیکھتی تو میرے ضمیر میں یہ ملال نہ ہوتا کہ کیونکہ میں بھی مہذب قوم کے غیر مہذب افراد میں ہوں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے