میاں صاحب اور چوہدری صاحب

چوہدری نثار علی خان کی شخصیت کے کئی پہلوئوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔

انکی خودداری بعض اوقات حد سے بڑھ کر انا پرستی میں بدل جاتی ہے ۔

ان کی حساسیت بعض اوقات ان کو زودرنج بنا دیتی ہے ۔

ان کی تنہائی پسندی اور مخصوص طرز زندگی ٗ بعض اوقات ان کو غیرسیاسی اور ناقابل رسائی انسان بنادیتی ہیں ۔

ان کے مزاج کی ان جہتوں کا شاخسانہ ہے یا پھر وزیراعظم سے تعلقات میں تنائو وجہ بنی ٗ لیکن بہر حال اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں کہ اب کی بار ان کی وزارت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ۔

داخلی قومی پالیسی پر عمل درآمد ہو یا پھر نیکٹا کی فعالیت ہو ٗکالعدم تنظیموں سے نمٹنا ہو یا پھر صوبوں کے ساتھ کوآرڈنیشن ہوٗکئی حوالوں سے ان کی وزارت کی کارکردگی قابل تنقید ہے اور شاید گزشتہ چار سالوںمیں ان حوالوں سے سب سے زیادہ تنقید میں نے کی ہے ۔ تاہم دو باتوں سے ان کے دشمن اور شدید ناقد بھی انکار نہیں کرسکتے ۔

ایک یہ کہ ملکی سیاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ ڈیلنگ چوہدری نثار سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھتا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے کبھی میاں نوازشریف سے بے وفائی کی ہے اور نہ کبھی کریں گے ۔

دوسرے فریق نے ان کے ساتھ بے وفائیوں اور بے اعتنائیوں کی ہیٹرک پہ ہیٹرک مکمل کرلی لیکن چوہدری صاحب کا راجپوت خون ان کو جوابی بے وفائی کی اجازت نہ دے سکا۔ حاصل بزنجو نے تجربے کی روشنی میں گواہی دی کہ چوہدری نثار علی خان میاں صاحب کو دھوکہ نہیں دے سکتے تو سید خورشید جیسے سیاسی مخالف نے بھی اعتراف کیا کہ چوہدری نثار علی خان وزارت اور پارٹی چھوڑ دیں گے لیکن میاں صاحب سے بے وفائی نہیں کریں گے ۔

ماضی میں چوہدری نثار علی خان ہی میاں صاحب کے لئے اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم اور اے این پی وغیرہ کو بھی سنبھالتے رہے ۔ جماعت اسلامی کو قریب لانے اور ساتھ رکھنے میں بھی ان کا بنیادی کردار تھا۔ موجودہ مسلم لیگی لاٹ میں وہ میاں نوازشریف کے سب سے پرانے ساتھی ہیں اور 1985سے ان کے ساتھ ہیں ۔بارہ اکتوبر کے بعد جب وہ اپنے گھر میں نظر بند تھے تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود ان کے گھر گئے ۔ مسلم لیگ(ہم خیال) کی قیادت کی پیشکش کی لیکن چوہدری نثار علی خان نے ان کوکھری کھری سنا کر واپس کردیا۔ وہ واحد مسلم لیگی تھے جن کو پرویز مشرف خود ٹیلی فون کرکے نوازشریف سے بے وفائی کی صورت میں وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی قیادت آفر کرتے رہے لیکن جواب میں چوہدری نثارخان ان کو بے وفائی کے طعنے دیتے رہے ۔ میاں صاحب نے اپوزیشن کے دنوں میں تاثر دیا تھا کہ وہ شہبازشریف کومرکزمیں لاکر صوبے کی وزارت اعلیٰ اپنے اس وفادار ساتھی کو سونپیں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد خود وزیراعظم بنے اور بھائی کو وزارت عظمیٰ دلا دی لیکن پھر بھی چوہدری نثار کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔

اس دوران تبدیلی یہ آئی تھی کہ سعودی عرب میں قیام کی وجہ سے میاں صاحب کا مزاج پہلے سے زیادہ شاہانہ بن گیااور وہ پہلے سے زیادہ خوشامدیوں کے نرغے میں آگئے جبکہ چوہدری نثار وہ انسان ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ کابینہ کے اجلاس میں میاں صاحب کو یہ تجویز دی تھی کہ خوشامد پر پابندی کا قانون پاس ہونا چاہئے ۔ دوسری طرف وزیراعظم صاحب اس نثار مخالف خوشامدی ٹولے کے نرغے میں آگئے جو سازشوں کے ماہر ہیں ۔ پرویز مشرف کی ٹیم سے آنے والے سیاسی بونوں نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اب کی بار وزیراعظم ہائوس میں نثار مخالف ایک ایسے سازشی خوشامدی نے بھی ڈیرے ڈال دئے جو نہ سیاستدان تھے اور نہ ان کی کوئی دوسری حکومتی مصروفیت تھی ۔ وہ خوشامد اور سازش کے لئے الفاظ اور فقروں کا وسیع ذخیرہ ذہن میں رکھتے ہیں اور وہ چوبیس گھنٹے وزیراعظم کو چوہدری نثار جیسے لوگوں سے متنفر کرنے میں مگن رہے ۔ انہوں نے نہ صرف چوہدری نثار علی خان کے خلاف وزیراعظم کے ذہن کو زہر آلود کیا بلکہ لاہور اوراسلام آباد کے شریفوں میں بھی دوریاں پیدا کردیں ۔ لیکن ایک اور بڑی وجہ محترمہ مریم نواز صاحبہ بنیں ۔

ظاہر ہے وہ چوہدری نثار علی خان کے لئے بچوں کی مانند ہیں۔ اب کی بار جب وزیراعظم نے مریم نوازشریف کو پارٹی اور بڑی حد تک حکومت کا بھی مختار بنا دیا تو خوشامدی ٹولے نے تو خوشامد کی نئی تاریخ رقم کرکے ان کو کوزے میں بند کردیا لیکن چوہدری نثار علی خان اپنے مزاج اور میاں صاحب کے ساتھ اس رشتے کی وجہ سے انہیں کوئی سیاسی اہمیت دینے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ چنانچہ مریم نواز صاحبہ بھی ان کی بدترین مخالف بن گئیں اور انہوں نے بھی اپنے والد کو چوہدری صاحب سے دور کرنے اور خوشامدیوں یا پھر مشرف کی ٹیم سے آئے سیاسی نابالغوں کے قریب کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پی ٹی آئی کے دھرنوں نے ایک بارپھر چوہدری نثار علی خان کو انتقام لینے اور بے وفائی کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اس صورت میں ان کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش ہوئی لیکن شدید ناراضی کے باوجود چوہدری نثار علی خان نے ایک بار پھر سچا راجپوت ہونے کا ثبوت دیا۔

اسلام آباد کے لاک ڈائون کے موقع پر ایک بار پھر میاں نوازشریف کی حکومت پر وار ہوااور یہ وار حقیقتاً دھرنوں سے بھی زیادہ شدید تھا تو چوہدری نثار علی خان نےاس میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار اداکیا اور خود وزیراعظم بھی اس کا کریڈٹ برملا چوہدری صاحب کو دیا کرتے تھے لیکن چونکہ یہ مریم بی بی اور سازشی ٹولے کی شکست تھی اس لئے اس مرحلے کے بعد سازشی ٹولہ مزید شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا اور انہوں نے ایک بار پھر مزید شدت کے ساتھ وزیراعظم اور چوہدری نثار کے درمیان غلط فہمیاں بڑھا دیں ۔ اس دوران پانامہ کا ہنگامہ گرم ہوا اور پانامہ کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان کا قصہ کچھ یوں ہے کہ 2012میں جب پہلی مرتبہ اپوزیشن کی طرف سے شریف خاندان کے لندن فلیٹس کا معاملہ اٹھایا گیا تو میاں صاحب نے حسن اور حسین کو بلا کر چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بٹھا دیا اور انہیں انہوں نے وہ کہانی سنائی جو قوم کو سناتے رہے ۔ چنانچہ چوہدری نثار نے اگلے روز پریس کانفرنس بلا کر بھرپور طریقے سے اس معاملے میںشریف خاندان کا دفاع کیا۔ یہ دفاع اس قدر بھرپور تھا کہ کچھ عرصہ بعد جب میاں نوازشریف سے صحافیوں نے اس حوالے سے استفسار کیا تو خود جواب دینے کی بجائے انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس پڑھ لیں ۔ تاہم اب کی بار پانامہ کے حوالے سے جو حکمت عملی بنائی گئی تو اس سے چوہدری نثار علی خان کو مکمل طور پر باہر رکھا گیا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وزیراعظم ہائوس میں یہ تاثر ہے کہ پانامہ کے حوالے سے جو ہنگامہ گرم ہے اس میں دشمنوں کے ساتھ ساتھ لاہور میں مقیم شریفوں کا بھی ہاتھ ہے اور ان کے خیال میں چوہدری صاحب لاہور کے شریفوں کے زیادہ قریب ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ایک اپنی فطرت اور تجربے کی بنیاد پر چوہدری نثار علی خان وزیراعظم کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ معاملے کو عدالت نہ لے جائیں ۔

جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ آرمی چیف سے کہیں کہ وہ سپریم کورٹ سے استدعا کرلیں کہ وہ جے آئی آٹی سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو نکال لیں لیکن چونکہ اس وقت ٹویٹ کا معاملہ نہیں آیا تھا اور وزیراعظم مطمئن تھے کہ وہ ادارے بھی ان کی حسب منشا کام کریں گے اس لئے وزیراعظم نے ایسا نہیں کیا۔پھر ان کا مشورہ تھا کہ وزیراعظم جے آئی ٹی میں خود پیش نہ ہوں۔ جس روز وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش ہورہے تھے توپورے معاملے سے چوہدری نثار کو باہر رکھا گیا تھا لیکن وہ ازخود وزیراعظم کی گاڑی کو ڈرائیو کرنے وزیراعظم ہائوس چلے گئے ۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وزیراعظم کو جے آئی ٹی کے پاس لے گئے لیکن اس روز خوشامدی ٹولے نے یہ خصوصی اہتمام کیا کہ میڈیا میں وہ وزیراعظم کے ساتھ نظر نہ آئیں ۔ چنانچہ چوہدری نثار وزیراعظم کو جے آئی ٹی میں چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔ وزیراعظم ہائوس سے روانگی سے قبل انہوں نے اصرار کرکے وزیراعظم کی جے آئی ٹی کے باہر سازشی خوشامدی کی لکھی ہوئی تقریر دیکھ لی اور مشورہ دیا کہ وزیراعظم کٹھ پتلیوں وغیرہ کا ذکر نہ کریں لیکن ان کی بات نہ سنی گئی ۔اب کی بار ایک اور وزیرنے بھی خرابی میں یوں بنیادی کردار ادا کیا کہ وہ ماضی میں چوہدری صاحب کے دوست سمجھے جاتے تھے لیکن اپنے حلقے کے چند افراد کی پھانسیوں پر عمل درآمد معطل کرنے کے معاملے پر چوہدری صاحب سے ناراض ہوگئے تھے ۔ وہ بھی وزیراعظم کے کان بھرتے رہے حالانکہ وزیراعظم کا خیال تھا کہ وہ چوہدری صاحب کے قریب ہیں ۔

چنانچہ اسی پس منظر میں انہوں نے کابینہ میں وہ مشہور تقریر کی جس میں انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ ان مشیروں کانام بتادیں جنہوں نے یہ غلط مشورے دے کر انہیں اس مقام تک پہنچا دیا۔ اس سے بڑی گستاخی ا ن سے یہ سرزد ہوئی کہ ان سے قبل جب وزیراعظم کو اس مقام تک پہنچانے والوں میں شامل ایک مشیر کی جب خوشامد بھری تقریر بہت طویل ہوگئی تو مائیک آن کرکے چوہدری نثار علی خان نے غصے کے ساتھ انہیں ٹوکا کہ بس کریں یار۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے وزیراعظم اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان خلیج بہت بڑھ گئی ہے ۔ وزیراعظم برہم ہیں کہ مشکل وقت میں چوہدری صاحب نے ساتھ دینے کی بجائے ان کا احتساب شروع کردیا اور چوہدری نثار علی خان برہم ہیں کہ ان کی نیت پر بلاجواز شک کرکے اور ان صحیح مشوروں کونظر انداز کرکے پارٹی اور حکومت کو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا گیا۔

لگتا یہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان پانامہ کے معاملے میں دفاع کے لئے کبھی سامنے نہیں آئیں گے لیکن کیا وہ بے وفائی کرکے اپنا دھڑا بنالیں گے یا کسی سازش کا حصہ بن جائینگے ۔ میرا جواب نفی میں ہے ۔ یہ صرف میری رائے نہیں بلکہ سید خورشید شاہ جیسا سیاسی مخالف بھی کہتا ہے کہ چوہدری نثار استعفیٰ دے دیں گے، سیاست چھوڑ دیں گے لیکن نوازشریف کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے