میرا آئیڈیل مر نہیں سکتا(مولانا سمیع الحق کو وحشیانہ انداز میں شہید کردیا گیا)

پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ جب بھی ملک میں کسی اہم ایشو پر قوم جمع ہوتی ہے تو قوم کو منتشر کرنے کیلئے ایک نیا ایشو کھڑا کر دیا جاتا ہے ،جس سے قوم مجبور ہوکر پہلے ایشو کو بھول نئے مسئلے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے ۔ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوا تھا جب تحریک انصاف کا دھر نا طویل ہوتا جارہا تھاتوان دنو ں سانحہ پشاور رونما ہوگیا ۔آج جبکہ پورا پاکستان آسیہ ملعونہ کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سڑکوں پر ہے اور پرامن احتجاج ریکارڈ کروارہا ہے تو اس موقع پر عالم اسلام کے عظیم ہیرو ،نامور عالم دین وسیاست دان حضرت مولانا سمیع الحق صاحب ؒ کو گھر میں چاقوں کے وار سے شہید کردیا گیا ہے ۔

تمام قانون نافذ کرنے والوں کو اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی ۔اللہ تعالیٰ مولانا نے کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین سمیت پوری امت مسلمہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مولانا سمیع الحق کی ذات گرامی علمی،ادبی، سیاسی، مذہبی، صحافتی اور دینی حلقوں کے لیے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ پاک وہند کی بنجرزمین کی سرسبزی وشادابی میں مولانا سمیع الحق کا حصہ سب پر بھاری ہے۔مملکت عزیز کی دینی و قومی روایات کے تحفظ ، بدعات و خرافات میں توحید و سنت کی شمعیں روشن کرنے،احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ،مجاہد، عالم، محدث و مفسر، مناظر و متکلم، قاری و حافظ اور فقیہ و مفتی اور ادبی و صحافتی شہسواروں کی فوج تیار کرنے میں مولانا کی شخصیت اور ان کا ادارہ ستاروں میں چاند کی مانند ہے۔

انشاء و نثرنگاری اور تصنیف وتالیف اور تحقیق میں مولانا کا نام سرفہرست ہے۔آپ اپنے دور کے ایک نامور خطیب تھے، مولانانثر میں ایک خاص طرز اور اسلوب کے موجد ومالک ہیں، الفاظ اور تراکیب کے حسن اور اندازِ بیان سے عبارت میں ایک مخصوص رنگ جھلکتا تھا،واقفانِ حال سمجھتے ہیں کہ آپ کی تحریر میں ابوالکلام آزاد اور شورش کاشمیری کی مکمل جھلک نظرآتی تھی۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا سمیع الحق اردو زبان کے ممتاز اورصاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ سحرالبیان مقرر و خطیب بھی تھے۔

مولانا موقع محل کے مناسب ایسا انداز گفتگواپناتے کہ ہر مقام پر جدت و ندرت اور شائستگی پیدا ہوجاتی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب مولانا نے قلم اٹھایا تو علمی دنیا کے شہنشاہ ادب بن گئے۔ان کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ صاحب تخلیق اور بے مثال انشاپرداز کی شکل میں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اسلامی وادبی دنیا پر حکومت کرتے رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مؤرخ نے ان کے ساتھ درست انصاف نہیں کیا۔آج ہماری اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مولانا کی ان اعلیٰ کارکردگیوں کو منظرعام پر لائیں جو سیاسی و علاقائی عصبیت کے پردے میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔نسلِ نو کو ان جیسے جلیل القدر علماء کواپنا آئیڈیل بنا ناہوگا۔

مولانا سمیع الحق کی پیدائش18 دسمبر 1937ء میں ہوئی۔مولانا سمیع الحق صاحبؒ دار العلوم حقانیہ کے مہتمم اور سربراہ تھے۔ دار العلوم حقانیہ ایک دینی درس گاہ ہے جو دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا صاحبؒ دفاع پاکستان کونسل کے چئیرمین تھے اور جمعیت علما اسلام کے س گروپ کے امیر تھے۔ وہ متحدہ مجلس عمل کے بھی بانی رکن تھے ۔ وہ پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن بھی رہے ،اور متحدہ دینی محاذ کا بھی بانی ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے ۔

تحریک ختم نبوت، 1973ء کے آئین کی تیاری،شریعت بل کی منظوری میںپاکستان کی کسی بھی مذہبی جماعت کے لیڈر یاعالم دین کی حیثیت سے سب سے زیادہ کوشش اور کردار مولانا سمیع الحق کا تھا۔تحریری و تحریکی جدوجہد اوردینی وملی اغراض کے لیے مولانا سمیع الحق1950 سے 2018 تک مسلسل کوشاں رہے۔نصف صدی تک جمعیت علماء اسلام کے مرکزی راہنما روامیررہے۔ان کی تحریکی زندگی بلاشبہ قابل تقلید ہے۔انہوں نے ویسے تو بہت سے اکابر کا مبارک دور دیکھا مگر سب سے زیادہ رفاقت حضرت مولانامفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبداللہ درخواستی ؒ اور شیخ القرآن غلام اللہ خانؒ جیسے جلیل القدر علماء کے ساتھ طویل عرصہ تحریکی و سیاسی جد وجہد کی۔

مولانا سمیع الحق صاحب 18 دسمبر ،سنہ 1937ء میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام مولانا عبد الحق ؒ تھے۔ انہوں نے 1366 ھ بمطابق سال 1946 ء میں دار العلوم حقانیہ میں تعلیم شروع کی اس ادارے کی بنیاد ان کے والد محترم نے رکھی تھی۔ وہاں انہوں نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق (logic)، عربی صرف و نحو (گرائمر)، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ ان کو عربی زبان پر عبور حاصل ہے لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو میں بھی کلام کرتے تھے۔مولانا سمیع الحق صاحبؒ کے بیان کے مطابق پاکستان کے امریکی سفیر ان سے جولائی 2013 میں ملاقات کے لیے آئے تھے، تاکہ علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کر سکیں۔

مولانا سمیع الحق کی شہادت قومی سانحہ ہے،مولانا کی دینی و ملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی,مولاناسمیع الحق کی شہادت کا سانحہ پوری ملت کے لیے افسوس ناک ہے،مولانا کی شہادت کی غیرجانبدارانہ اورمنصفانہ تحقیقات کروائی جائیںاورمولانا کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اگر اس سے قبل شہید کیے گئے علماء کرام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو آج ایک اور قومی لیڈر کی شہادت کا سانحہ پیش نہ آتا ۔ماہنامہ ‘الحق’ ان کے اعلی ادبی ذوق اور علمی دلچسپیوں کا آئینہ تھا اور ایک زمانہ میں پاک وہند کے ادبی حلقوں میں اسکا طوطی بولتا تھا۔ماہنامہ الحق نے ادب و صحافت کی بین الاقوامی نرسری کا رول ادا کیا۔جسکی ورق گردانی کرتے ہوے بے شمار افراد نے قلم پکڑنا سیکھ کر، علمی وتحقیقی ذوق لیکر تصنیف وتالیف کی دنیا میں نئی تخلیقات کے انبار لگائے۔

مولانا سمیع الحق شہید کے رواں دواں قلم نے لاکھوں صفحات سیاہ کئے۔یوں وہ لازوال تصنیفات چھوڑ گئے۔دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے انہوں نے مذہبی طبقے کو ایک جگہ جمع کیا اور ملک بھر میں بڑے بڑے اجتماعات کرائے ،مولانا کی امن پسندی کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہیں،وہ صرف مذۃبی طبقے کی آواز نہیں تھے بلکہ مملکت خدادادپاکستان میں بسنے والے ہر پاکستانی کی آواز تھے ،انہوں نے ہمیشہ ملکی سطح کی بات کی ،اورملکی وقار پر کوئی آنچ نہ آنے دی ۔پاکستانی میڈیا ہویا انٹرنیشنل میڈیا انہوں نے ہر ایک کو انٹرویودیئے مگر کبھی بھی انہوں نے مسلکی تعصب اور ملکی وقار کے خلاف بات نہ کی۔دنیا جانتی ہے کہ وہ ہمیشہ افغان طالبان کے حامی رہے ۔مولانا سیاسی حوالے سے جداگانہ شناخت رکھتے تھے۔

ان کے ادارے کے مدرسین اور طلبہ، دونوں ہمیشہ مولانا کی سیاسی مخالفت کرتے تھے، مگر مولانا نے کبھی اپنی سوچ ان پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی، ان کے حکیمانہ رویوں کے سبب جامعہ حقانیہ ہمیشہ ممتاز اہل علم اور طلبہ سے معمور رہا۔گذشتہ کئی برس سے وہاں دورہ حدیث کے شرکاء کی تعدار ہزاروں میں ہوتی ہے۔ دورہ حدیث ہی نہیں۔ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ عالم اسلام کی عظیم دینی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کے بعد سب سے زیادہ تعداد دارالعلوم حقانیہ میں ہوتی ہے ۔راقم الحروف کا تعلق بنیادی طورپر اہل صحافت کے ہی قبیل سے ہے ،راقم کے والد ماجد مفکر اسلام ،نامورصحافی ومصنف حضرت مولانا اللہ وسایا قاسمؒ نہ صرف مولانا سمیع الحق ؒ کے عقیدت مندوںمیں تھے بلکہ انہیں حضرت والد ماجد کا شمار ان کے تلامذہ میں ہوتا تھا ،حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ ،مولانا عبید اللہ انور ؒاور مولانا سمیع الحق ؒسے والد محترم نے بہت کچھ سیکھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے