میرے باپ دادا بڑے آدمی تھے

ایک صاحب کا قصہ ہے کہ ان کے دادا ایک کامیاب تاجر تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ان کی تجارت ختم ہو گئی۔ والد اور والدہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ مذکورہ صاحب کے حصہ میں باپ دادا کا مال تو نہ آیا مگر یہ احساس انھیں وراثت میں ملا کہ ” میرے باپ دادا بڑے آدمی تھے”۔

وہ ابھی نوجوان ہی تھا کہ انھیں معلوم ہوا کہ قصبہ کے ڈاک خانہ میں پوسٹ مین کی جگہ خالی ہے۔ وہ درخواست دے کر پوسٹ مین ہو گئے۔ لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ تمہاری تعلیم صرف آٹھویں کلاس تک ہوئی ہے اگر تم کوشش کر کے ہائی اسکول کر ڈالو تو تم آسانی سے مقامی ڈاک خانہ میں پوسٹ ماسٹر ہو جاؤ گے۔ اور اس کے ساتھ کچھ گھر کی کھیتی ہے۔ دونوں ملا کر آسانی سے تمہاری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔ مگر ان کے جھوٹے فخر کی نفسیات اس میں رکاوٹ بن گئی کہ وہ کسی کا مشورہ مانیں۔ مزید یہ ہوا کہ ان کی جھوٹی بڑائی کے احساس کی بنا پر اکثر وہ ڈاک خانہ کے کارکنوں سے لڑ جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن انھوں نے پوسٹ ماسٹر سے جھگڑا کر لیا اور کام چھوڑ کر چلے آئے۔

پوسٹ آفس کی ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ بے کار پڑے رہے کوئی دوسرا کام کیا نہ ہی تعلیم حاصل کی۔ ان کا مشغلہ صرف اپنی فرضی بڑائی کے تذکروں تک محدود ہو کر رہ گیا اور یوں اس سے جھوٹی تسکین حاصل کرتے اور یوں ان کے شب و روز گزرتے۔

موجودہ دنیا حقیقتوں کی دنیا ہے۔ یہاں حقیقت سے مطابقت کر کے سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہم حقیقت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ خدا کی اس دنیا میں جھوٹی بڑائی سے زیادہ بے معنی کوئی چیز نہیں۔

حقیقت میں اس دنیا میں ہر شخص کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر مہارت کے انسان کاروبار میں کامیاب ہوتا ہے نہ ہی سیاست میں۔ اسے ضرورت ہوتی ہے وہ سارے ” گُر” سیکھ لے تاکہ وہ اپنا الگ کاروبار شروع کر سکے یا پھر کوئی الگ سیاسی جماعت بنا سکے۔ صرف چند دنوں یا تھوڑے عرصہ کی کوشش سے حاصل کی گئی کامیابی سے بہت بڑے پروگرام کو آگے نہیں لے کر جایا سکتا جب تک اس کے سارے رموز و اوقاف سے آگاہی نہ ہو۔

امریکہ کے ایک شخص نے اٹھارہ سو اکتیس میں تجارت کی۔ اس میں وہ ناکام ہو گیا۔ ۱۸۳۲ میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا۔ مگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی۔ ۱۸۳۵ میں دوبارہ تجارت شروع کی مگر ناکام ہو گیا۔ اٹھارہ سو اکتالیس میں اس کے اعصاب جواب دے گئے۔

اٹھارہ سو تینتالیس میں دوبارہ سیاست میں داخل ہوا۔ اس کو امید تھی کہ اب اس کو کانگریس اپنا امیدوار نامزد کرئے گی۔ مگر آخر وقت میں اس کی امید پوری نہ ہو سکی اور اس کا نام پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں نہ آیا۔ اٹھارہ سو پچپن میں اسے پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینٹ کے لئے کھڑا ہو۔ مگر الیکشن میں ہار گیا۔ اٹھارہ سو انسٹھ میں دوبارہ الیکشن میں کھڑا ہوا اور دوبارہ شکست کھائی۔

یہ بار بار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن 1809 — 1865 تھا۔ جو 1860 میں امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ اس نے امریکہ کی تعمیر میں اتنا بڑا کام کیا کہ وہ آج نئے امریکہ کا معمار سمجھا جاتا ہے۔

ابراہام لنکن کو امریکہ کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا اور وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا۔ وہ جانتا تھا کہ شکست کو کس طرح تسلیم کیا جائے۔

حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے اور ہار ماننا حقیقت پسندی کی اعلٰی ترین قسم ہے۔ ہار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کر لیں کہ آپ دوسروں سے آگے نہیں بلکہ پیچھے ہیں۔ ہار ماننے کے بعد آدمی فوراً اس حیثیت میں ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کر سکے۔

کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں۔ نہ کہ وہاں سے جہاں ابھی آپ پہنچے ہی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے