میڈیا ویڈیا کی آزادی وازادی

آج بین الاقوامی یومِ آزادیِ صحافت کے موقع پر دنیا کی صرف 13 فیصد آبادی اتنی خوش قسمت ہے جسے اطلاعات تک مکمل رسائی کی عیاشی میسر ہے۔

آزادیِ صحافت جانچنے والے سرکردہ ادارے فریڈم ہاؤس کے مطابق دنیا کی 46 فیصد آبادی اطلاعات تک رسائی کے معاملے میں بالکل اندھیرے میں ہے جبکہ 41 فیصد آبادی کو کہنے، سننے اور جاننے کی جزوی آزادی حاصل ہے۔

سالِ گذشتہ کو دیکھا جائے تو فریڈم ہاؤس انڈیکس کے مطابق آزادیِ صحافت کے اعتبار سے دس بدترین خطوں میں بالترتیب شمالی کوریا، ترکمانستان، ازبکستان، کرائیمیا، اریٹیریا، بیلاروس، کیوبا، اکیٹورل گنی، ایران اور شام کا نمبر آتا ہے۔

ایسا نہیں کہ مغربی دنیا میں صورتحال مثالی ہے۔ یورپ میں گذشتہ 12 ماہ کے دوران دہشت گرد حملوں کی لہر اور پناہ گزینوں کی بکثرت سیلابی آمد کے نتیجے میں دیدہ نادیدہ نگرانی بڑھ گئی ہے اور کئی مغربی ممالک میں اطلاعات تک آزادانہ رسائی کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔

امریکی انتخابی مہم میں پہلی بار یہ رجہان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ صدارتی دوڑ میں شامل کچھ امیدوار میڈیائی تنقید برداشت نہیں کر پا رہے اور رکیک جوابی حملوں پر اتر آئے ہیں۔اس انتخابی دوڑ میں امریکی میڈیا جتنا منقسم ہے ایسا پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔

جہاں تک جنوبی ایشیا کا معاملہ ہے تو بنگلہ دیش میں کہنے سننے کی آزادی کو اب آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھ کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ بلاگ یا تنقیدی مضامین لکھنے والا اپنی سلامتی کا خود ذمہ دار ہوگا۔

بظاہر عوامی لیگ حکومت کی جانب سے باضابطہ سنسر شپ نہیں لیکن لکھاری اور صحافی ازخود پہلے سے زیادہ احتیاط پسند ہوگئے ہیں۔
کم و بیش ایسا ہی حال انڈیا میں بھی نظر آ رہا ہے جہاں حکمران جماعت اور اس سے نتھی ذیلی تنظیموں کی جانب سے بلاواسطہ انداز میں ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے یا متشدد اینٹی میڈیا خیالات سے یوں درگزر کیا جا رہا ہے کہ لکھاری، رپورٹر، تجزیہ کار پہلے سے زیادہ حبس محسوس کر رہے ہیں۔

مزید خرابی یہ ہو رہی ہے کہ جو تنقیدی رویہ ماضیِ قریب میں ایک معمول سمجھا جاتا تھا اسے اب حُب الوطنی اور ملک دشمنی کے ترازو میں تولنے کا چلن ہو گیا ہے۔

ان حالات میں بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ منقسم اور انفرادی و اجتماعی پاپولر ایجنڈے کا اسیر لگ رہا ہے۔ میڈیائی غیر جانبداری کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا چلن پہلے سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں آپریشن ضربِ عضب سے پہلے تک میڈیا حساس سرکاری اداروں اور شدت پسندوں کے یکساں دباؤ میں تھا۔لیکن اب شدت پسندوں سے جو سپیس خالی کرایا جا رہا ہے اسے آزادیِ اظہار کی چمن کاری کے بجائے میڈیا کو مزید مٹھی میں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

[pullquote]گذشتہ 16 برس میں پاکستان میں میڈیا سے وابستہ لگ بھگ 72 کارکن اور صحافی ہلاک ہوئے۔
[/pullquote]

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے مطابق گذشتہ آٹھ برس میں صرف ان کے صوبے میں 41 صحافیوں کو ہدف بنایا گیا اور آج بھی بلوچستان کے صحافی دہشت گردی اور جوابی دہشت گردی کی دو پاٹی چکی کے درمیان گھن کی طرح پس رہے ہیں۔

صوبائی صحافت پریس ریلیزی ڈاکخانے میں بدل چکی ہے کیونکہ کوئی بھی خبری مہم جوئی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی۔ اس اعتبار سے دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا اور قبائیلی علاقوں کے صحافی متاثر ہوئے ہیں۔

اگرچہ رواں سال کے پہلے چار ماہ تک پاکستان میں دو صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔ سالِ گذشتہ کے مقابلے میں اب تک میڈیائی اداروں پر حملوں کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں ہے۔

مگر میڈیا کو من پسند ڈگر پر چلانے کے لیے دیگر ہتھکنڈے پہلے سے زیادہ موثر انداز میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔اب تحریری ایڈوائس کا فیشن فرسودہ ہو چکا ہے۔ فون پر درخواست کا فیشن ہے یا پھر چائے کا بلاوہ ایک موزوں طریقہ ہے۔ پھر بھی معاملات سیدھے نہ ہوں تو دیگر طریقے تو ہیں ہی۔۔


ایک سرکردہ صحافی حامد میر کے بقول ایک بڑے صحافتی ادارے کے مالک کو قابو کرنے کی کوششوں میں ان پر 135 ایف آئی آر کٹ چکی ہیں، 40 مقدمات مختلف مراحل میں زیرِ سماعت ہیں۔ ان میں سے 12 مقدمات انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے روبرو ہیں۔

مجموعی ماحول کچھ یوں ہے کہ بلوچستان، ضربِ عضب، اوکاڑہ کسان تحریک اور انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ جیسے معاملات کی زیادہ کرید نہ کرنا ہی اچھا۔

کہنے کی تو آزادی ہے مگر کہنے کے بعد کی آزادی کی کوئی ضمانت نہیں۔گذشتہ 20 برس میں بیسیوں صحافیوں کی ہلاکت کے باوجود اب تک صرف چار صحافیوں کے قتل میں ماخوز مجرموں کو مختلف المیعاد سزائیں سنائی گئی ہیں۔اکثر مقدمات عملاً داخلِ دفتر ہو چکے ہیں۔
آزادیِ صحافت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ خود صحافی اور میڈیا مالکان بھی ہیں۔ کاروباری رقابتوں، گروہ بندی، نان پروفیشنل ازم، اپنے اپنے ایجنڈے کی اسیری، پلاٹوں، امداد و مراعات و اشتہارات و ریٹنگ کی ہوسناک سیاست اور خود کو ہر قیمت پر نمایاں رکھنے کی دوڑ نے میڈیا کی پیشہ ور اخلاقی طاقت کو اور کمزور کردیا ہے جس کی بنیاد پر آج کے صحافیوں کے اجداد اسٹیبلشمنٹ اور اجارہ داروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنے کے قابل تھے۔

تازہ ترین تلوار سائبر کرائم بل کی شکل میں لٹک رہی ہے۔ بظاہر تو اس میں اچھی شقیں بھی ہیں مگر ماضی کے تلخ تجربات کے سبب دھیان اکثر بری یا دو دھاری مبہم شقوں کی جانب ہی زیادہ جاتا ہے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ قومی اسمبلی سے اس بل کی عاجلانہ منظوری کے بعد سینیٹ اسے منظوری سے قبل مزید شفاف بنانے میں کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے