میں زُبان کھولوں تو کئی دستاریں اچھل جائیں گی،پاکستان کا پیسہ کشمیریوں کے لئے شیر مادر ہے۔ یہ تحریک کے لیے ہے ، بیرون ملک اپنے محل تعمیر کرنے کے لیے نہیں: کشمیری حریت رہنما نعیم خان کا انٹرویو

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنماوں کے خلاف ابلاغی سطح پر منفی مہم جاری ہے . اس منفی مہم کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا پر حریت لیڈر نعیم خان کے ایک سیاق سباق سے کاٹ کر پیش کئے گئے بیان کے بعد انہیں‌حریت کی قیادت نے عارضی طور پر معطل کر دیا ہے . نعیم خان کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کا نمایاں حوالہ ہے . تنظیم سے اس عارضی معطلی کے بعد سری نگر سے شائع ہونے والے مجلے ”بے لاگ” نے ان سے خصوصی بات چیت کی ہے جو کئی حوالوں سے دلچسپ ہے . ادارہ آئی بی سی اردو ”بے لاگ” کے شکریے کے ساتھ اس اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہا ہے

(ایڈیٹر)

ان دنوں بھارتی میڈیا اور ایجنسیز کشمیری مزاحمتی قائدین کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہیں۔اُن پر حوالہ فنڈنگ میں ملوث ہونے سے لے کر اپنے اقرباء کے لئے مراعات حاصل کرنے اور بڑی بڑی جائیدادیں بنانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ فی الوقت نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (NIA)بعض حریت لیڈران اورکچھ تاجروں کے خلاف تحقیق کررہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حریت لیڈروں پر اس طرح کے الزامات پہلی بار لگے ہوں بلکہ نئی دلی کی مختلف ایجنسیوں کی جانب سے اب تک بارہا ایسے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں جبکہ انڈین میڈیا بالخصوص نیوز چینلز آئے دن کشمیری قائدین کے خلاف محاذ کھولے نظر آتی ہیں۔ 16مئی کو ’’انڈیا ٹوڈے ‘‘ نے ایک ویڈیو جاری کیا، جس میں سینئر مزاحمتی لیڈر نعیم احمد خان یہ اعتراف کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ کشمیر میں حالات خراب کرنے کے لئے پاکستان سے سینکڑوں کروڑ روپے کی رقومات حریت لیڈروں کو ملتی ہیں۔حریت( گ) نے اس کے بعد نعیم احمد خان کو فورم کی بنیادی رکنیت سے عارضی طور معطل کردیا ہے۔بے لاگ ٹیم نے نعیم خان کے ساتھ ایک ملاقات میں ان پرلگائے گئے الزامات اور متنازعہ ویڈیو کے بارے میں کئی سوالات پوچھے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اُن کی گفتگو پر مشتمل تحریر ملاحظہ کیجئے:

دلی کی ایک ٹی وی چینل کی جانب سے نشر کئے گئے ویڈیو، جس کے ذریعے میری کردار کشی کی گئی ہے، کے بارے میں میں روز اول سے ہی میں یہ کہتا آیا ہوں کہ یہ جھوٹ اور فریب کا ایک پلندہ ہے۔میں نے اب تک کئی بار اس ٹی وی چینل کو چیلنج کیا ہے کہ وہ پوری ویڈیو نشرکرے تاکہ دیکھنے والے خود فیصلہ کریں کہ میں نے کیا کیا باتیں کہی ہیں اور کس تناظر میں کہی ہیں۔ اس ویڈیو کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر میرے ساتھ یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ ہم نے یہاں سکول نذر آتش کرائے ہیں۔میرے جاننے والے لوگ بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس ویڈیو کا دھوکے پر منبی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ نعیم خان کے ساتھ سکول جلانے کا بے ہودہ الزام منسوب کیا گیا ہے۔جدیدٹیکنالوجی کے سہارے ایک گھنٹے سے زائدوقت کی گفتگو میں سے out of context چند جملوں کو نکال کر انہیں ایک running video clip تو آج کل کے بچے بھی بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کی بکواس سے بھارتی عوام کو تو گمراہ کیا جاسکتا ہے لیکن کشمیری قوم جو کئی دہائیوں سے دُشمن کے مکر و فریب کا شکار رہی ہے، قطعاًاس کے جھانسے میں نہیں آسکتی۔مجھے اس ٹی وی چینل کی اس فریب کاری، جسے ایک ’سٹنگ آپریشن ‘ کا نام دیا گیا ہے، پر کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ کشمیری عوام، کشمیری لیڈروں اورہماری تحریک آزادی کو بدنام کرنا اور اسے زک پہنچانے میں شائد بھارتی صحافیوں کا قومی مفاد مضمر ہو۔ بھارتی صحافیوں کو چھوڑیں ، بھارتی دانشور بھی کشمیر کے بارے میں کھلے عام جھوٹ اور بے بنیاد باتیں پھیلانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔

مجھے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کہ دلی کی ٹی وی چینلز اور ایجنسیز ہماری کردار کُشی کرتے ہوئے کیا کیا کہتے پھرتے ہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب صرف اور صرف اس مظلوم قوم کے سامنے جوابدہ ہیں۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہمارا دُشمن ہمارے بارے میں کیا پروپگنڈا کرتا ہے ہمیں اپنے عوام نے اعتماد دیا ہے ۔ کشمیر میں بھارتی ایجنسیوں اور میڈیا کی فریب کاریوں کا ایک طویل ریکارڈ ہے۔جبکہ میرے لوگوں کے سامنے میری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح موجود ہے۔ یہ تحریک کسی فردیا کسی خاندان کی جاگیر نہیں ہے۔اس تحریک کی آبیاری ہم سب نے اپنے لہو سے کی ہے۔ لاکھوں انسانی زندگیاں اس تحریک کیلئے قربان ہوئی ہیں۔ ہزاروں جوانیاں جیلوں میں سڑ گئی ہیں۔ عزتیں اور عصمتیں لٹ گئی ہیں۔یہ تحریک عظیم قربانیوں سے پروان چڑھی ہے۔

میں خود نمائی میں یقین نہیں رکھتا لیکن چونکہ آپ نے مجھ سے ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھے ہیں ،اسلئے مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں حادثاتی طور اس تحریک سے جڑا ہوا نہیں ہوں۔ بلکہ مزاحمت کا جذبہ مجھے اپنے والدین اور دیگر اسلاف سے میراث میں ملا ہوا ہے۔ میں تحریک کے ساتھ تب جڑ گیا تھا، جب ہمارے کئی قائدین کا اس کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ میرا خاندان 1947ء سے ہی تحریک حریت کا حصہ رہا ہے اور میرے اسلاف کی قربانیوں کا سلسلہ بھی اسی وقت سے شروع ہوگیا تھا۔میرے والدمحترم غلام محمد خان کو کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی طرفداری کی پاداش میں کئی تعذیب خانوں اور جیلوں سے گزرنا پڑاتھا۔جب 60ء کی دہائی میں شہید محمد مقبول بٹ آزاد کشمیر سے یہاں آئے تو میرے والد ہی تھے ، جویہاں ان کے ساتھ رہے۔ میری عمر رسیدہ والدہ کو 1991ء میں برزلہ کے سی آر پی ایف کیمپ میں14دن تک قید کیا گیاتھا۔میرے

چھوٹے بھائی گل محمد خان کو 1997ء میں شہید کیا گیا۔میرے ماموطارق احمد لون کو 1990ء کے اوائل میں گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا اور آج تک ہمیں پتہ نہیں وہ زندہ ہیں یا مارے جاچکے ہیں۔میرے چاچا اور انکی اہلیہ کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔جس شخص کی پست پر اپنے خاندان کی اس قدر لامثال قربانیاں ہوں، اُس کے بارے میں کوئی الزام تراشی کرنے سے پہلے ’اپنوں‘ کو سو بار سوچنا چاہیے تھا۔آج مجھے شہید عبدلغنی لون صاحب کی یاد شدت سے آرہی ہے، جو دُشمن کے مکر و فریب کو بخوبی سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے تھے۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دشمن ہم میں دراڑیں ڈالنے اور ہماری اعتباریت کو زک پہنچانے کے درپے ہے۔ لیکن افسوس آج ہم میں سے کسی کے پاس یہ ویژن نہیں ہے۔ہمیں دُشمن سے ہی سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ میجر گگوئی کی مثال سامنے ہے۔ اس کے ایک سنگین جنگی جرم کے باوجود اسکا پورا ملک اس کی حمائت میں کھڑا ہوگیا ہے۔ میں مسلسل 35سال سے تحریک کے ایک سپاہی کی طرح کام کررہا ہوں۔طالب علمی کے زمانے سے ہی میں تحریک مزاحمت سے جڑ گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب عوام تو عوام آج کے خواص بھی خواب غفلت میں محو تھے۔ طلباء تحریک کو منظم کرنے کی بات ہو یا مسلم سٹوڈنٹس لیگ اورمسلم متحدہ محاذ کے قیام کا معاملہ ہو۔ یا پھر حریت کانفرنس کا پلیٹ فارم تشکیل دینے کا واقعہ ہو،ان سب چیزوں میں میرا حقیر ہی سہی لیکن ایک کردار رہا ہے۔

مجھے حیر ت اس بات پر ہے کہ’ انڈین میڈیا ‘کو جانبدار اور کشمیر دُشمن قرار دینے والے ہمارے ’اپنوں ‘نے میرا موقف سنے بغیر ہی میرے لئے بیک جنبش قلم سزا تجویزکی۔ کسی

کو سُنے بغیر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا یا کوئی فیصلہ سنانانہ ہی اخلاقی اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی شرعی اور قانونی اعتبار سے۔یہ آمرانہ سوچ اور خود پسندی

کی ایک بدترین مثال ہے۔مقدس تحریکوں میں افراد کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی پرنہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔بدقسمتی سے میرے بارے میں ایسا نہیں ہوا۔ لیکن یقین کیجئے، مجھے اب اس کا کوئی گلہ بھی نہیں کیونکہ آج یہی انڈین میڈیا اُن کے خلاف بھی اناپ شناپ بک رہا ہے، جنہوں نے اس میڈیا کی شہ پر میرے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ لوگ آج یقیناًایک آزمائش سے دوچار ہورہے ہوں گے۔ ان کا ضمیر انہیں پریشان کررہا ہوگا کیونکہ یہی میڈیا آج ان پر بھی کیچڑ اچھال رہا ہے۔انہیں اب یہ کیچڑ بھی خود ہی صاف کرنا پڑے گا۔عوام بے وقوف نہیں ۔میرے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو اب یہ بتانا پڑے گا کہ کیا انڈین میڈیا سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔ اگر سچ کہہ رہا ہے تو پھر ان پر جوالزامات یہی میڈیا آج لگارہا ہے تو اس کا اُن کے پاس کیا جواب ہے؟ اور اگر انڈین میڈیا جھوٹ پھیلارہا ہے، جو کہ یقیناًجھوٹ پھیلا رہا ہے، تو میرے خلاف کارروائی کرنے کا ان کے پاس کیا جواز تھا؟عوام بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ دوہرے معیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

جہاں تک تحریک سے جڑے بنیادی اصولوں کی بات ہے میں نے ہمیشہ دو ٹوک الفاظ میں سچائی بیان کی ہے۔ تحریک کے بارے میں حقائق بیان کرتے ہوئے آج تک میری زبان کبھی نہیں ہچکچائی۔ مجھے جب بھی موقعہ ملا ، میں نے پاکستان سے گلہ کیا ہے کہ وہ ہماری تحریک کی سیاسی اور سفارتی مدد تو کررہا ہے لیکن اس کی مطلوبہ مالی معاونت نہیں کررہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج ہمارے ہزاروں متاثرین کی مدد کرنا یہاں تک کہ پلٹ سے زخمی ہوئے بچوں کو بہتر علاج و معالجہ فراہم کرنا ہمارئے لئے ممکن ہوپاتا۔ پاکستان کا پیسہ کشمیریوں کے لئے شیر مادر ہے۔ لیکن یہ پیسہ تحریک کی آبیاری کیلئے اور متاثرین کی اعانت کیلئے ہے نہ کہ کسی کے لئے ریاست میں بیرونی ملکوں میں اپنے محل تعمیر کرنے کے لئے۔لوگ سب جانتے ہیں۔ کبھی کبھی میرا دل پھٹنے کو آتا ہے۔ میں زبان کھولوں تو کئی دستاریں اچھل جائیں گی اور کئی چہروں سے نقاب سرک جائے گی۔لیکن تحریک کے وسیع تر مفاد کیلئے میں صبر تحمل کا دامن تھامے ہوئے ہوں۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

بشکریہ : بے لاگ ، سری نگر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے