میں سچے لفظ لکھتا ہوں 

دل کے بے کواڑ دریچے کھول کر سوچنے والے زندگی کے کسی بھی میدان میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھتے ، حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی سوچ کو پروان چڑھانے والے اور اپنی بات کو درست انداز میں دوسروں کو سمجھانے والے بھی کائنات کے رازوں کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے ہجوم کو قوم بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں ، مگر نجانے کیوں قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہمارے ملک میں ایسی شخصیات کا قحط ہی نظر آیا جو اپنے مفادات کو ایک طرف رکھیں اور ملک کو ترقی کی ایسی شاہراہ پر گامزن کریں کہ جس طرح دیگر ممالک کی شخصیات نے اپنے اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ بنانے کے ساتھ ساتھ قوموں کی خودداری اور خود مختاری کو متاثر ہونے نہیں دیا ۔

جناب میں چین میں گزشتہ 6ماہ سے موجود ہوں اگرچہ یہاں وہ نام نہاد جمہوریت جو ہمارے ملک میں ہے ہرگز نہیں ہے اور یہاں نظام اشتراکیت 1949سے قائم ہے ، میڈیا بھی ایسے بے لگام نہیں جیسا کہ وطن عزیز میں ہے ، جائیدادپر بھی حق ملکیت نہیں اور آبادی بھی زیادہ ہے دنیا کی آبادی کا ہر پانچواں شخص چینی ہے پھر بھی چینی عوام دن بدن خوشحال ہوتی جارہی ہے ۔ آخر ماجرا کیا ہے ؟

اکتوبر 1949میں چین نے اپنے عظیم لیڈر ماؤ زے تنگ کی قیادت میں آزادی حاصل کی اور کئی عشروں تک ماؤ اور اسکے رفقاء نے صرف اپنے اندرونی معاملات کو درست کیا بعد ازاں 1976میں کمیونسٹ پارٹی کا انتظام جب ڈینگ شیاؤ پھنگ نے سنبھالا تو جناب ڈینگ نے تمام دنیا کے سرمایہ کاروں کو چین کی جانب راغب کیا اور یوں چین نے ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز کیا ۔

پاکستان نے 1947میں آزادی حاصل کی مگر بدقسمتی نوزائیدہ ملک اپنے قیام سے خلفشاروں،ریشہ دوانیوں اور ہلڑ بازیوں کا شکار رہا ، یہاں جو بھی اقتدار کی مسند پہ براجمان ہوا وہی ملک کی بنیادیں کھوکھلا کر کے یہ جا وہ جا ،ہر سیاسی پارٹی کا منشور پرکشش ہوتا تھا مگر عمل ندارد اور اسی وجہ سے ملک کا اکثریتی طبقہ سیاسی گماشتوں کے حالات کو دیکھ ووٹ جیسی امانت کا استعمال کرنے سے بھی بیزار نظر آیا ۔

جب کسی نام نہاد جمہوری سیاسی جماعت سے سوال کیا جائے کہ آپ 2یا 3دفعہ حکومت کر چکے ہیں مگر عوام کے لیے آپ نے کچھ نہیں کیا تو جواب نہایت معصومانہ ہوتا ہے کہ جناب ہمیں ان ڈکٹیٹروں اور آمروں نے عوامی خدمت کا موقعہ ہی نہیں دیا ، اس بات میں بھی صداقت نظر آتی ہے کہ ملک میں ڈکٹیٹروں یعنی کہ فوجی حکمرانوں نے بھی عوام کے ساتھ کئی گھناؤنے مذاق کیے ہیں اور شاید انہی کیوجہ کئی عرصے تک فوج کا وقار بھی مجروح رہا مگر بعد میں جنرل (ر) راحیل شریف نے اسے دوبارہ بحال کیا ۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا بیڑہ غرق ہونے کی سب سے بڑی وجہ موروثی سیاست کا پروان چڑھنا ہے کیونکہ یہاں بدقسمتی سے لیڈرز نہیں چند خاندانوں نے حکومت کی ہے اور وہی پارلیمان کو اپنے پرکھوں کی جائیداد سمجھتے ہیں ، اگر میری بات کا یقین نہیں تو سابق صدر زرداری کا بیان پڑھ لیں ، بلاول ،مریم ،حمزہ اور دیگر کو دیکھ لیں بات اپنے آپ سمجھ آجائیگی ۔

چین کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ماؤ زے تنگ کے بعد اس کی اولاد نے چین کی بھاگ ڈور نہیں سنبھالی اور ان کے بعد آنے والوں نے بھی اپنی اولادوں کو چین کا حاکم بنانے کی کوشش نہیں کی ، یہی وجہ ہے کہ آج چین خود بھی خوشحال ہے اور دنیا کے 65ممالک میں 900بلین ڈالر کی سرمایہ کا ری کے ذریعے ان کو بھی خوشحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

اب یہ فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے کہ وہ تمام عمر محض نعروں کے ذریعے بیوقوف بنتے رہیں گے یا پھر اپنے حق کے لیے آواز اٹھا ئینگے ،کیونکہ گزشتہ کئی ایام میں جس طرح کرپشن کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو جن اعزازات سے نوازا گیا ہے وہ تو شاید قوم نے دیکھا ہے اگر بند آنکھوں سے دیکھا ہے تو پھر اللہ حافظ اگر کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے تو ممکن ہے کہ کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔
اور آخر میں شورش کاشمیری کے اس شعرپر ہی اکتفا کروں گا کہ 
"بہت قریب سے دیکھا ہے رہنماؤں کو 
کہوں تو گردش لیل ونہار رک جائے "

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے