نئے سال کی نئی فہرست

چند دن پہلے ایک عزیزہ ہمارے گھر آئیں، ان کے ساتھ گپ شپ ہوتی رہی۔ پڑھی لکھی خاتون ہیں، فیملی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، خود ایم اے ہیں، ایک ٹی وی چینل میں بطور پروڈیوسر کئی سال کام کرتی رہیں۔ چھوٹی بہن نے بھی ماسٹرز کر رکھا ہے، ایک نجی ادارے میں اچھی ملازمت ہے۔ والد بینکر تھے، چھوٹا بھائی سافٹ ویئر ڈویلپر ہے۔ اس سے چھوٹا بھائی اور بہن اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ کہنے لگیں، کالم پڑھتی رہتی ہوں، مگر پچھلے چند کالم نہیں پڑ ھ سکی کیونکہ نیٹ کا پرابلم تھا، اب ٹھیک ہوگیا ہے تو آرکائیوز میں جا کر پڑھوںگی۔ یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ پوچھا، گھر اخبار نہیں آتا؟ جواب نفی میں تھا۔ کہنے لگیں اخبار نہیں لگوایا ہوا، جسے پڑھنا ہوتا ہے، نیٹ سے پڑھ لیتا ہے۔ اس پر بڑی حیرت اور اس سے زیادہ کوفت ہوئی۔ ایک دو منٹ تو ضبط کیا مگر رہا نہ گیا۔ دریافت کیا ”اخبار لگوانے کا کتنا خرچ ہے؟ ایک اردو اخبار کا ماہانہ بل چار سو روپے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس سے زیادہ تو لوئر مڈل کلاس گھرانے کا فرد ایک وقت کے برگر پر خرچ کر دیتا ہے۔ آپ لوگ گھر کے لیے اخبارکیوں نہیں لگواتے؟ صبح ناشتے کی میز پر اخبار رکھا ہو گا توکوئی نہ کوئی چند منٹ سرخیوں پر نظر ڈال لے گا، جی چاہے گا تو کوئی کالم پڑھ لے گا،بچیاں شوبزکی خبریں، میگزین کے رنگین صفحات پڑھ لیںگی، سنڈے میگزین پڑھا جائے گا، اس طرح کچھ نہ کچھ مواد بچوں میں ذہنوں میں جائے گا اورمطالعے کی عادت بھی پڑے گی“۔

لمبی بات کی ضرورت نہ پڑی، عزیزہ فوراً متفق ہوگئیں۔ کہنے لگیں ٹھیک کہہ رہے ہیں، جاتے ہی لگوا لوںگی ۔گزشتہ روز ان کا فون آیا، کہنے لگیں نیا سال شروع ہونے سے پہلے اخبار لگوا لیا ہے۔ مجھے اچھا لگا۔ سچی بات ہے، پڑھے لکھے انسان کے گھر اخبار نہ آنا ناگوار حرکت ہے، جیسے بغیر منہ ہاتھ دھوئے ناشتہ کرلینا۔ اس لیے یہ نہیں کہہ رہا کہ میں خود اخبار میں کام کرتا ہوں اور میرے ادارے کا اخبار زیادہ بکنے سے فائدہ ہوگا۔ بات سیدھی سی ہے، بیشتر لوگ گھر کے لیے اخبار لگواتے ہیں نہ کتابیں خریدکر لاتے ہیں، پھر شکوہ کرتے ہیں کہ بچوں میں مطالعے کا شوق نہیں۔ بھلے لوگو، ان میں شوق کیسے پیدا ہو۔ اگر انہیں اخبار، رسالے اور کتب سے متعارف نہیں کرایا جائے گا تو وہ کیونکر پڑھیں گے۔ آج کل کارٹون پروگراموں کی شکل میں ایک نہایت دلچسپ اور پرکشش ذریعہ ان کے پاس ہے، وہ بھی ویڈیوکی شکل میں۔ پھر ویڈیوگیمز اور انٹرنیٹ وغیرہ دستیاب ہیں، ایسے میں ان کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا ہو تو شروع میں ہی اس جانب متوجہ کرنا ہوگا،کوشش کرنا ہوگی۔ مجھے یاد ہے، بچپن میں ہی اخبار پڑھنے کی عادت بن گئی تھی، دوسری تیسری جماعت سے۔ تب اخبار کی زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی، مگر اٹھا کر پڑھنے کی کوشش ضرورکرتا کہ روزانہ والد صاحب کو اخبار پڑھتے دیکھا کرتا تھا۔

آج کل نیو ایئر ریزولوشن یعنی نئے سال کے حوالے سے کیے گئے عہد کی فہرست پر بات ہو رہی ہے۔ یار لوگ فیس بک پر اپنی اپنی فہرست بنا کر پوسٹ کر رہے ہیں۔ گزشتہ رات میں نے بھی ایک پوسٹ کی تھی، قارئین سے محض اس لیے شئیر کرتا چلوں کہ شاید کسی کوترغیب ملے، وہ بھی اپنی پسند کی فہرست بنا سکے اور سال بھر اس پر عمل کرے۔ میری فہرست سادہ سی ہے۔ سال میں انشاءاللہ سوکتابیں جمع کروں گا، کچھ کتب کی نمائشوں سے خریدوںگا، اتوارکو انارکلی بازار کے نواحی فٹ پاتھوں سے بھی پرانی کتابیں لوں گا۔کچھ کتابیں تبصرے کے لیے مل جاتی ہیں اور کچھ یار دوست دے جاتے ہیں۔ چھتیس منتخب کتابیں یعنی تین کتابیں ہر ماہ لازماً پڑھنی ہیں۔ ان کتابوں میں فکشن (چند ترک ادیبوں کے ناولوں پر میری نظر ہے، برادرم فرخ سہیل گوئندی نے یاشر کمال، ایلف شفق اور بعض دوسرے ترک ادیبوں کے شاندار ناول شائع کیے ہیں، پڑھ لیے توقارئین سے بھی شئیرکروں گا)کے علاوہ تاریخ، سیاست، خود نوشت اورمذہب پر کتابیں شامل ہوںگی۔ مذہبی فکر کے حوالے سے بعض جرائد کا مطالعہ معمول بنایا جائے گا۔ اپنے کالموں کے انتخاب کی اشاعت یقینی بنانے کے ساتھ انشاءاللہ عسکریت پسندی پر کتاب مکمل کرنی ہے۔ یہ ہوگئے تو ایک اور آئیڈیے پر بھی کام کرنا ہے۔ شاہکار فلموں کی ایک فہرست بنائی ہے۔ ایک بڑی فلم دیکھنا شاندار تخلیقی تجربے سے کم نہیں، ذہنی اور فکری ارتقا کا ایک مرحلہ طے ہوتا ہے۔ ایک کام ذاتی نوعیت کا ہے، قرآن پاک کا مطالعہ ترجمے کے ساتھ کرنے کی عادت بنانا۔کئی تفاسیر اکٹھی ہوچکی ہیں، انہیں پڑھنے کے لیے روزانہ وقت نکالنا ہے۔ انشاءاللہ اس سال یہ کمی پوری ہوگی۔ جس پہلے ترجمہ نہیں پڑھا، اسے تفسیر کی جگہ ترجمہ پڑھنا چاہیے، ایک دو بار پڑھنے کے بعد تفسیرکی جانب آنا بہتر رہے گا۔

رات انٹرنیٹ پر ریسرچ کرتے ہوئے نیو ائیر ریزولوشن (New Year Resolutions)کے حوالے سے کئی کارآمد آرٹیکل دیکھے۔ ٹاپ ففٹی، ٹاپ ٹوئنٹی، ٹاپ ٹین، صحت مند ریزولوشن وغیرہ۔ ماہرین نے بہت سے کارآمد مشورے دیے ہیں۔ تین چار وہ باتیں ہیں جن پر عمل کرنے کی میری شدید خواہش ہے وزن کم کرنا، صحت مند غذا کا استعمال، سستی (Procrastination) دورکرنا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا۔ یہ عادات اپنانے کے لیے انٹرنیٹ پر مختلف ٹپس اور مشورے دستیاب ہیں۔ میں کوشش کر رہا ہوں، آپ بھی لگے رہیں، کچھ نہ کچھ تو بہتر ہوگا۔ بعض باتیں کتابی اور آئیڈیل معلوم ہوتی ہیں، جیسے ٹینشن نہ لینا، خوش رہنے کی کوشش کرنا، زیادہ کمانا وغیرہ۔ ان کے لیے پورا زاویہ نظر بدلنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی چھوٹی بہت سی باتوں سے ہم لطف اندوز ہوسکتے ہیں، کئی چھوٹی باتوں سے ہم پریشان رہتے ہیں حالانکہ ان میں بہت سی ہمارا مسئلہ نہیں ہوتیں،ان سے بآسانی کے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
چند ٹپس مجھے اچھے لگے پرانے تعلقات کی تجدید اور نئے دوست بنانا۔ تعلقات کی تجدید کے حوالے سے ایک دوست کا طریقہ دلچسپ اور مفید ہے۔ اس نے طے کیا ہوا ہے کہ روزانہ چند منٹ نکال کر دو فون ضرور کرنے ہیں، ایک کسی دوست کو اور دوسرا کسی رشتے دار کو۔ اس طرح ہر مہینے وہ دو درجن کے قریب عزیزوں سے سلام دعا کر لیتا ہے۔ اس طرح ایک دوسرے کی خیریت معلوم ہوجاتی ہے، مسائل کا پتا چل جاتا ہے، ضرورت پڑنے پر آدمی کسی کی مدد کر سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنی خیریت کا اپ ڈیٹ ٹیکسٹ میسج کئی دوستوں کو بھیج دیا، جواب آجائے تو بسا اوقات ٹوٹا رابطہ بحال ہوگیا۔ نئے دوست بنانے کے لیے نئی دلچسپیاں پیدا کرنا پڑتی ہیں۔ نئے کھیل،نئے کلب، لائبریری، واک گروپ، تھنکرزگروپ کا ممبر بن گیا، تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگا لیا تو یوںنئے دوست مل گئے۔

چند مشورے شخصیت کے حوالے سے ہیں۔ اپنی ڈریسنگ بہتر بنائیے۔ یہ اچھا مشورہ ہے۔ ہم اپنی مصروفیت میں بعض دفعہ اس قدر غرق ہوجاتے ہیں کہ آس پاس کی خبر نہیں رہتی، فیشن ٹرینڈز نظر نہیں آتے۔ اعتدال کے ساتھ سماج کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اچھی نیند پوری کرنا بہت ضروری ہے۔ آٹھ گھنٹے کی روزانہ نیند یقینی بنائی جائے۔ ایک مغربی ماہر نے ٹی وی کم دیکھنے کے ساتھ سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹوئٹر پر بھی کم وقت صرف کرنے کامشورہ دیا ہے۔ نہایت معقول بات ہے۔ ٹی وی کم دیکھنے کا تو میں برسوں پہلے قائل ہوچکا ہوں، اب فیس بک پر کم وقت دینے کا سوچا ہے۔ یہ مشغلہ آدمی کی تخلیقی توانائی کھا جاتا ہے۔ اپنے لکھنے کے بجائے بندہ دوسروںکی لکھی پوسٹیں پڑھتا رہتا ہے۔ ایک نئی زبان سیکھنے کا مشورہ بھی ہر ایک نے دیا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اس سال پشتو سیکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اگلے سال مہلت ملی تو بلوچی یا سندھی کی باری آئے گی۔ ایک عزیز سے طے کیا ہے کہ ایک فقرہ روزانہ فون پر سکھائیں گے۔ دیکھیں کس حد تک عمل ہوپاتا ہے۔ فہرست تو بنا لی ہے، آپ بھی اپنے مزاج، سوچ اور ماحول کے مطابق فہرست بنائیں، اسے لکھ کر اپنے کمرے کی دیوار پر لگا لیں، وقتاً فوقتاً دیکھتے رہیں اور پھر چھوٹے چھوٹے اہداف بنائیں۔ ہفتہ وار، ماہانہ بنیادوں پر چیک کرتے رہیں، انشااللہ عمل درآمد ہوگا۔ یار لوگ منفی تبصرے کریںگے، جو خود کچھ نہیں کرسکتے، وہ مذاق اڑائیں گے، ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے معمولات کے ساتھ جڑے رہیں۔ فہرست میں سے بہت سی باتیں سال کے آخر تک مکمل ہوجائیں گی، اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے