نظام تعلیم ، تعلیمی ادارے ، طلبا، جعلی ڈگری اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھائے گئے سوالات

پاکستان کا نظام تعلیم بھی خوب نظام ہے ،، پرائمری تک تعلیم نہ صرف ہر بچے کا بنیادی حق ہے بلکہ لازمی قرار دی گئی ہے ،، موجود حکومت نے ایک اور اقدام اٹھایا ہے اور بچوں کو پرائمری کی کلاسسز میں فیل نہ کرنے حکم جاری کیا گیا ہے ،،کچھ عرصہ قبل مار نہیں پیار کا نعرہ بھی لگایا گیا کہ بچوں کو اب کوئی بھی استاد مار پیٹ سے نہیں بلکہ پیار سے پڑھائے گا اسکے بعد اساتذہ کے مار اور بچوں کی دہائی کی ویڈیوز کافی تعداد میں منظر عام پر آئیں ۔۔۔ ایسے ہی کچھ عرصہ قبل 33 فیصد پاسنگ مارکس کو بڑھا کر 40 فیصد کردیا گیا تاکہ تعلیمی نظام میں بہتری لائی جا سکے،،لیکن پچھلی ایک دہائی میں ہوا کچھ کہ گورنمنٹ کے سکول ویران جب کہ نجی سکول بڑھتی تعداد کے باعث پریشان ہو گئے جس سے ایک فرق واضح نظر آیا وہ تھا نچلے اور متوسط طبقے کا ہائی کلاس یا امیر طبقے سے تھا ،، گورنمنٹ کے سکولوں میں غریب کے بچے جاتے تھے اور نجی چھوٹے سکولوں میں متوسط طبقے کے بچوں کا رجحان بڑھا ،، بات یہاں ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی ،، تعلیم اداروں نے انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی اور تعلیم عام کے نام پر نجی اور مہنگی یونیورسٹیاں قائم ہونے لگی ،، ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹیوں کے سربراہوں بارے کچھ قوانین متعارف کرائے گئے کہ وہ کم از کم اپنے شعبہ میں ڈاکٹر ہوں یا پروفیسر بننے کےلئے تعلیمی قابلیت ایم فل ہونی چاہیے لیکن یہ صرف قوانین ہی رہ گئے ،،، نہ ایچ ای سی نے پلٹ کر ان یونیورسٹیوں کی جانچ پڑتال کی اور نہ ہی ایسے قوانین پر عمل کروایا جا سکا سوائے چند ایک کے۔

اس ساری صورتحال میں یونیورسٹیاں ڈگریاں ہولڈرز تو پیدا کرنے لگی لیکن عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں یہ نونہال دو حصوں میں بٹ گئے ،، ہائی کلاس نے جو پڑھا اس سے کاروبار جما لیا اور متوسط طبقے نے نوکریاں شروع کر دی وہ بھی مارکیٹ ویلیو سے کم پر راضی ہو کر ،،رہی بات نچلے طبقے کی تو نچلا طبقہ نہ ہی تو کاروبار کر سکتا ہے اور نوکری کےلئے پھر سفارش کی ضرورت پڑتی جو انکی دسترس میں کم ہی آتی ہے

خیر یہ سب کچھ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں تعلیمی قابلیت جانچنے اور پرکھنے کےلئے کیا قائدہ کلیہ استعمال کیا جاتا ہے ،،، پرائیوٹ سکولوں کے ہونہار طلباء جب کسی گورنمنٹ یا نیم حکومتی تعلیمی ادارے میں داخلہ کےلئے جاتے ہیں تو ان میں بہت سے ٹاپ کرنے والے ٹیسٹ میں ہی فیل ہو جاتے ،،،سوال آخر کیوں ؟ اگر وہ قابل نہیں ہوتے تو اب تک ٹاپ کیسے کرتے رہے اور اگر قابل تھے تو فیل کیوں ؟ دوسرا مسلہ جس کا کچھ احباب شکار ہوئے اور شکایت کی کہ انکی پرانی ڈگری کسی اور کے نام جاری کی جا چکی ہے اور ان کے نام ریکارڈ تو ہے لیکن ڈگری ایشو کسی اور کی گئی ہے اس میں زیادہ کیسسز پنجاب یونیورسٹی کے سامنے آئے اگر ایسا ہوا تو کیوں ؟ اور فیک ڈگریاں جاری کرنے اور خاص طور پر سیاست سے وابستہ عوام کی جانب سے دو نمبر ڈگریوں کے کئی کیس میڈیا کی وساطت سے آپ تک پہنچ چکے ہیں انکو کس نے جاری کیا ؟ کب جاری کیا اور اس حوالے سے کیا کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی ؟ کیا ملزمان پکڑے گئے یا سرے سے کوئی کام ہی اس پر نہیں کیا گیا گیا اور جواب نہیں ہے تو کیوں ؟ مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ پنجاب یونیورسٹی سمیت دیگر کئی یونیورسٹیوں میں ریچیکنگ کا طریقہ کار کسی طور قابل قبول نہیں ،، اگر ریچیکنگ مارکنگ کی ہی ہونی تو کیا فائدہ ریچیکنگ تو سوالات کے جوابات کی ہونی چاہیے تا کہ بات واضح ہو جائے کہ چیکنگ کرنے والے کی غلطی ہے یا طلبا خود کچھ نہیں لکھ آئے ۔۔۔

یہ چند سوالات کس سے کیے جائیں ؟ ایچ ای سی سے ؟ یونیورسٹی انتظامیہ سے ؟ یا پاس کرنے والے ان تعلیمی اداروں سے جو بچوں کو اے گریڈ میں پاس کرتے یا کرواتے ہیں ؟ کیااس طریقہ کار پر کام کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ کیا پاکستان کے مستقبل بارے تعلیمی اداروں سے بڑھ کر کوئی سوچ سکتا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ زمہ داری ایچ ای سی پر عائد ہوتی ہے یا نہیں ؟ ان سب سوالوں کے جوابات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے