نوازشریف، پاناما اور سی پیک

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی انتشار یا پھر مارشل لا کے نفاذ کے جو ممالک شدید متمنی ہیں ان میں امریکہ اور ہندوستان سرفہرست ہیں۔ اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اس وقت اگر دنیا کا کوئی ملک پاکستان میں امن، سلامتی اور استحکام کا سب سے زیادہ متمنی ہے تو وہ چین ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ 1999 کے مارشل لاسے قبل امریکہ نے نواز شریف کو اشارے دیئے تھے کہ وہ ڈٹ جائیں اور مشرف کو اشارے دیئے تھے کہ چڑھ دوڑو۔(بارہ اکتوبر سے چند روز قبل میاں شہباز شریف کے دورہ امریکہ اور اس موقع پر اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کارل انڈرفرتھ کی طرف سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا بیان یاد کرلیجئے اور دوسری طرف پھر اسی امریکہ کی طرف سے پرویز مشرف کی سرپرستی ملاحظہ کیجئے)۔ اب بھی لگتا ہے کہ امریکہ اسی پالیسی کہ چور سے کہے چوری کرے اور گھر والے سے کہے کہ بیدار رہے،پر عمل پیرا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ اب بھی درپردہ یہ نعرہ لگارہا ہوگا کہ نوازشریف ڈٹے رہو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور دوسری طرف وہ یہ اشارے دے رہا ہوگا کہ جنرل صاحب قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس وقت امریکہ افغانستان اور ایٹمی پروگرام کے تناظر میں پاکستان کے بازو مروڑنا چاہتا ہے جبکہ اسے ہندوستان کے آگے بھی جھکانا چاہتا ہے۔ یوں یہ دونوں ممالک پاکستان میں مارشل لا یا کم ازکم سیاسی انتشار کے سب سے زیادہ متمنی ہوں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جو پرویز مشرف، نوازشریف کی حکومت میں کارگل کی مہم جوئی کرتا ہے، اقتدار سنبھالنے کے بعد واجپائی سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہے۔ جو پرویز مشرف اقتدار میں آنے سے قبل افغانستان میں طالبان کے معاملے پر امریکہ کی کوئی بات سننے کو آمادہ نہیں ہوتا، اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف طالبان کے خلاف امریکہ کو اڈے بھی فراہم کرتا ہے اور پورے پاکستان کو سی آئی اے کی چراگاہ بھی بنالیتا ہے۔ امریکہ اور ہندوستان کو یقین ہے کہ اس وقت مشرقی اور مغربی بارڈر پر ان کی خواہشات کی راہ میں پاکستانی فوج رکاوٹ ہے اور یہ پاکستانی فوج ہی ہے کہ جس نے اسٹرٹیجک حوالوںسے پاکستان کا رخ امریکہ سے چین اور روس کی طرف موڑنے کا آغاز کیا ہے۔ یوں کوئی کہے یا نہ کہے لیکن مجھے یقین ہے کہ امریکہ اور انڈیا اس وقت پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور پاکستانی فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کیلئے بے تاب ہوں گے تاہم جس طرح پاناما اسکینڈل منظر عام پر لانے، اسے عدالت میں لے جانے اور جے آئی ٹی بنانے میں امریکہ اور ہندوستان کا کوئی کردار نہیں ہے، اسی طرح یہ دعویٰ بھی انتہائی لغو ہے کہ سی پیک کی وجہ سے میاں نوازشریف کو نشانہ بنایا جارہا ہے یا پھر یہ کہ ان کی رخصتی سے سی پیک متاثر ہوگا۔ محنت اور کوشش آئی سی آئی جے کی تھی۔ پاناما اسکینڈل میں امریکہ کے بہت سارے چہیتے اور دوست ممالک کے حکمرانوں اور شہریوں کے بھی نام تھے۔ خود انڈیا کے لوگوں کے بھی نام آئے۔ پاکستان کے اندر اگر کسی کو کریڈٹ جاتا ہے تو وہ دی نیوز کے مایہ ناز تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ ہیں جنہوں نے آئی سی آئی جے کے نمائندے کے طور پر پاکستان سے متعلق حصے کی چھان بین کی۔ شریف فیملی کا موقف لینے کیلئے انہوں نے کئی ماہ قبل ای میل بھیجے تھے اور اس عرصے میں حکمراں خاندان نے ہر حربہ استعمال کیا ہوگا کہ عمر چیمہ پردہ ڈالیں۔ پاکستان کے اندر یہ خبر سب سے پہلے جنگ اور جیو نے بریک کی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شریف خاندان کے آف شور اکائونٹس کی موجودگی سے متعلق خبر کو روکنے کیلئے حکومت کی طرف سے کتنا دبائو تھا لیکن عمر چیمہ اور جنگ گروپ کے ادارتی عملےو انتظامیہ نے اس دبائو کے باوجود یہ خبر پاکستانی قوم تک پہنچا دی۔ پھر اگر کریڈٹ جاتا ہے تو جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسراج الحق کو جاتا ہے کہ جو سب سے پہلے اس کیس کو سپریم کورٹ میں لے گئے۔ ان کے چار روز بعد لاک ڈائون کو ناکام دیکھ کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اورشیخ رشید بھی عدالت میں گئے۔ یوں سراج الحق کے بعد ان دونوں کو کریڈٹ جاتا ہے۔ اس پوری ٹریل میں کہیں امریکہ آتا ہے اور نہ ہندوستان۔

پھر اس میں سازش کہاں سے آئی۔ ہاں عرب ممالک اور بالخصوص متحدہ عرب امارات نے حکمراںخاندان کی توقع کے برعکس جے آئی ٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ تو کیا امریکہ یا ہندوستان نے میاں صاحب سے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ناراض کریں۔ اب استعفیٰ نہ دے کر وزیراعظم صاحب معاملے کو تنائو اور ٹھکرائو کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں تو پھر وہ خود امریکہ اور ہندوستان کی سازش کو کامیاب بنانے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو چینیوں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ اس پروجیکٹ کا ابتدائی خاکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) احسان الحق کے ساتھ تیار کیا گیاتھا۔ پرویز مشرف ہی کے دور میں گوادر پر کام کا آغاز ہوا۔ آصف علی زرداری نے گوادر کو ہانگ کانگ کی کمپنی سے واپس لے کر چین کے حوالے کیا جبکہ سی پیک سے متعلق ایم او یو پربھی آصف علی زرداری کے دور میں دستخط ہوئے۔ چینی جانتے ہیں کہ ان کی دوستی سے متعلق پاکستان میں اجماع کی سی کیفیت تھی لیکن میاں نوازشریف نے سیاسی مقاصد کے لئے سی پیک کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا کہ پہلی مرتبہ چین سے متعلق پاکستان میں ناقدانہ آرا سامنے آئیں اور تحریک انصاف کی طرح نواز مخالف پارٹیوں یا پھر قوم پرست جماعتوں کا چین کے ساتھ تنائو پیدا ہوگیا۔ چین پاکستان کا وہ دوست ہے کہ جو اس کے داخلی نظام سے کوئی سروکار نہیں رکھتا، یہاں فوج کی حکومت ہو، پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ کی، چین کا پاکستان سے متعلق ایک ہی طرح کا رویہ ہوتا ہے لیکن نوازشریف اور ان کے حواریوں نے پہلی مرتبہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سی پیک ان کی ذہنی تخلیق ہے اور یہ کہ شریف خاندان کی وجہ سے ہی چینی سی پیک کی مہربانی کررہے ہیں۔

چین اردگرد اور بھی نصف درجن اکنامک کاریڈور بنارہا ہے لیکن کسی ملک میں ان کا کوئی پروجیکٹ متنازع نہیں ہوا لیکن چونکہ میاں نوازشریف نے اسے پاکستان کے اندر سی پیک کو قومی کی بجائے سیاسی اور خاندانی پروجیکٹ بنانے کی کوشش کی اس لئے یہاں اس سے متعلق تنازعات نے جنم لیا۔اسی طرح چین نے نہیں بلکہ وزیراعظم اور ان کے وزیر احسن اقبال نے مشرقی روٹ کو فوقیت دی، مغربی روٹ اور اورنج لائن منصوبے سے متعلق غلط بیانی کی جس کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا۔ چینیوں کی خواہش ہے کہ سی پیک سے پورا پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان اور گوادر مستفید ہوں۔ کوئی اورحکمراں ہوتا تو وہ یہی کرتا کہ پہلے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو مستفید کرواتا لیکن یہ میاں نوازشریف ہی ہیں جنہوں نے سی پیک کے فوائد کا رخ محروم اور حقدار علاقوں سے لاہور کی طرف موڑ دیا۔اسی طرح اہم اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے فوج مطالبہ کرتی رہی کہ اسے شریک کار بنایا جائے اور جنرل راحیل شریف کے دور میں باقاعدہ طور پر سول اور ملٹری قیادت کی مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز بھی دی گئی لیکن وزیراعظم صاحب نے اس پروجیکٹ کو اپنے اور اپنے خاص بندوں کی مٹھی میں بند رکھنے پر اصرار کیا۔ ہم جیسے طالب علم التجائیں کرتے رہے کہ جس طرح چین نے اپنے جے سی سی اور ورکنگ گروپس میں سنکیانگ اسٹیٹ کو شامل کیا ہے اسی طرح پاکستان کی طرف سے بھی جے سی سی میں تمام صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو نمائندگی دی جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیابلکہ صرف وزرائے اعلیٰ کو ذاتی حوالوں سے رام یا خوش کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ ہم مطالبہ کرتے رہے کہ بلوچستان کو فوقیت اور اس کو جائز حصہ دیاجائے لیکن بلوچستان کوجائز حق اور حصہ دینے کی بجائے اچکزئی صاحب اور ڈاکٹر مالک صاحب کو ان کے ’’حقوق‘‘ دیئے گئے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کو اس کا حصہ دینے کی بجائے وہاں کے وزیراعلیٰ کی وفاداری اور شرافت سے غلط فائدہ اٹھاکر خاموش کیا جاتا رہا۔ ہم مغربی روٹ اور خیبر پختونخوا کا جائز حصہ مانگتے رہے اور دھرنوں سے فراغت کے بعد پرویز خٹک نے بھی آواز بلند کی لیکن صوبے اور فاٹا کو حق دینے کی بجائے صرف پرویز خٹک کو ’’حق‘‘ دے کر خاموش کردیا گیا۔ اکنامک زون میرٹ کے خلاف پرویز خٹک کے حلقے کو دیا گیا۔ اسی طرح ان کے حلقے کو نوازنے کے لئے غیرضروری ماس ٹرانزٹ ٹرین کا پروجیکٹ عنایت کیا گیا اور یہ لالچ بھی دیا گیا کہ وہاں چینی کمپنیوں کو ٹھیکے ان کی مرضی سے ملیں گے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان ابتدا میں مغربی روٹ کے لئے نعرہ زن تھے لیکن انہیں ان کے ڈی آئی خان تک سڑک دے کر خاموش کردیا گیا۔ اسی طرح قوم سی پیک کے معاملے میں شفافیت چاہتی ہے لیکن آج تک نہ تفصیلات سامنے لائے جارہی ہیں اور نہ طے پانے والے سودوں کی شرائط سے کسی کو آگاہ کیا جارہا ہے مجھے تو یقین ہے کہ جب سی پیک کے منصوبوں کی تفصیلات سامنے آئیں گی تو ہم پاناما کیس کے جے آئی ٹی کےانکشافات کو بھول جائیں گے۔ ان حوالوں سے دیکھا جائے تو اس کی روح کے مطابق سی پیک کی کامیابی کے لئے میاں نوازشریف کی رخصتی ضروری ہے نہ کہ ان کا اقتدار میں رہنا۔ لیکن تماشہ یہ ہے کہ حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیںکہ سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے نوازشریف کو رخصت کیا جارہا ہے۔ حکمراں طبقے نے پاکستانی عوام کو تو بے وقوف سمجھ کر اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچا یا لیکن لگتا ہے کہ وہ اب چینیوں جیسی ذہین قوم کے ذہین ترین حکمرانوں کو بھی بے وقوف سمجھ کر اپنے آپ کو مزید رسوا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے