نواز حکومت اور میثاقِ جمہوریت کا وقت ابھی ختم نہیں ہوا

معروف ماہر معیشت غلام کبریا نے2001میں ایک دلچسپ ، مدلل اور چشم کشا کتاب لکھی۔ اصل کتاب انگریزی میں تھی ( Pre-Independence Indian Muslim Mindset) حسن عابدی نے ترجمہ کیا، ’’آزادی سے پہلے مسلمانان ہند کا ذہنی رویہ‘‘۔ بحث کو فکری تناظر دینے کے لیے اس کتاب کے بنیادی نکات عرض ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو صدیوں سے یہ غلط فہمی تھی کہ وہ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ پیدائشی برتری کا یہ احساس کسی بھی گروہ کو معاشرے میں الگ تھلگ کر کے رکھ دیتا ہے۔ کوئی گروہ دوسروں کے مفروضاتی دعوے پر اپنے معاشی اور معاشرتی مفاد سے دستبردار نہیں ہوا کرتا۔ چنانچہ، تناؤ اور تصادم ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ مشرق کی دوسری اقوام کی طرح ہندوستانی مسلمان بھی نشاۃ ثانیہ سے بے بہرہ رہے۔ نشاۃ ثانیہ نے علم، معیشت اور سیاست کے خدوخال یکسر تبدیل کر دئیے۔ ہندوستان میں یورپی اقوام کی آمد اس لحاظ سے ایک زبردست موقع تھا کہ قدامت اور جدیدیت کا فاصلہ کم کیا جا سکے۔ جنوب مشرق میں بسنے والی ہندوستانی آبادیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ شمال مغربی ہندوستان میں بسنے والوں نے پیوستہ مفادات کو لاحق خطرات کے پیش نظر احیا پسندی اور مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ احیا پسندی تبدیلی کی ضرورت کا احساس ختم کر کے ذہنی پسماندگی پیدا کرتی ہے۔ جدیدیت کی مزاحمت کے غلغلے میں ہندوستانی مسلمانوں نے جدید علم کو یکسر رد کر دیا۔ اس علمی پسماندگی کے نتیجے میں معیشت کے دروازے بند ہونے لگے۔ تاریخی طور پر مسلمان زراعت، مصنوعات اور تجارت کی بجائے جنگ کی معیشت کے اسیر رہے تھے۔ نئے علم سے پیدا ہونے والی ٹیکنالوجی نے قدیم جنگی معیشت کے امکانات ختم کر دئیے۔ توڑے دار بندوق سے چقماق والی بندوق کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

معیشت کی نئی راہیں بھی جدید علم سے نکل رہی تھیں۔ ادھر سرسید احمد خان کا تصور تعلیم سرکاری ملازمت اور اشرافیہ کے تحفظ کے گرد گھومتا تھا۔ علی گڑھ کے سیاسی شعور کا اندازہ تحریک خلافت سے کیا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور بیرون ملک تعلیم پانے والے معدودے چند سیاسی رہنماؤں کا سیاسی نصب العین ہندوستانی مسلمانوں کے عمومی شعور سے جداگانہ تھا۔ اخبار اور کتاب کی دنیا اس صورت حال میں تبدیلی پیدا کر سکتی تھی لیکن مولوی باقر علی سے محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، ظفر علی خان اور غلام رسول مہر تک اردو صحافت جذبات کا مرقع تھی۔ نتیجہ یہ کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی ایک خاص ذہن یہ ارادہ ظاہر کر چکا تھا کہ مسلم اکثریتی ملک حاصل کرنے کے بعد جناح کا کوئی کردار نہ ہو گا۔ قائد اعظم کی 11اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں افتتاحی تقریر شبیر احمد عثمانی نے 31اگست 1947ء کو دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر دی۔ قیام پاکستان کے بعد ابوالا علیٰ مودودی، عنایت اللہ مشرقی اور عطا اللہ شاہ بخاری مسلسل قائد اعظم کو ’’واہگہ سے دلی تک‘‘مسلمانوں کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ ایک کروڑ مسلمانوں کی بے گھری اور ہزاروں مسلمان عورتوں کے اغوا اور بے حرمتی کی ذمہ داری ’’اینگلو محمڈن ‘‘مسلمانوں پر ڈالتے رہے۔ یہ پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری ذہن کے تصادم کا نقطہ آغاز تھا۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد ایک نوع کی پسپائی تھی لیکن یہ ہزیمت کے تسلسل میں پہلا قدم تھا۔ کیونکہ لیاقت علی خان کو معاف نہیں کیا گیا۔ لیاقت اور ان کی اہلیہ پر رکیک الزامات لگائے گئے۔ خواجہ ناظم الدین کو جس قحط کا الزام لگا کر ’’قائد قلت‘‘کا خطاب دیا گیا اس قحط کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ سیٹھ قاسم کے پیش کردہ نولکھا ہار اور بھارت سے مفروضہ اسمگلنگ کی کہانیاں من گھڑت تھیں۔ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اخباری ڈیسک پر گھڑی گئی خبروں کا ناٹک تھی۔ 1977 میں پی این اے اور پیپلز پارٹی میں خانہ جنگی کا خطرہ کچھ زرخیز ذہنوں کی اختراع تھا۔ سندھو دیش اور جناح پور میں اتنی ہی حقیقت تھی کہ ضیاء الحق جی ایم سید سے ملاقات فرماتے تھے اور ایم کیو ایم تیس برس تک اقتدار میں شامل رہی۔ آصف علی زرداری سے بڑا بدعنوان اردو صحافت کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ پانچ برس وہ صدر مملکت رہے، ایک اسکینڈل کا الزام تک عائد نہیں کیا جا سکا۔ 2014 میں کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر 2013 میں دھاندلی ہوئی تھی تو برسراقتدار جماعت شکست کیسے کھا گئی؟ پچھلے چار برس میں بدعنوان ترین خاندان کی حکومت کے دوران ایک بھی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ تو آئیے کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔

پاکستان کے کسی شہر یا قصبے میں عوامی ہیجان یا ہنگامے کے کوئی آثار نہیں۔ ٹیلیوژن اسکرین پر البتہ قیامت کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ آئینی بندوبست کے انہدام یا تعطل سے حزب اختلاف کی حقیقی جماعتوں کو کسی فائدے کی امید نہیں۔ نواز شریف کی رخصتی کا خواب دیکھنے والوں کا ذاتی سیاسی سرمایہ اوچھا ہے۔ حکومت مخالف تحریک کا موقف استوار نہیں۔ کبھی انتخابی دھاندلی کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی کراچی میں بدامنی کا پرچم اٹھایا جاتا ہے۔ کبھی پانامہ پر کمیشن مانگا جاتا ہے تو کبھی جے آئی ٹی کی مذمت کی جاتی ہے۔ کیسی کڑھی ہوئی حکمت عملی ہے کہ اعتماد عدلیہ اور فوج پر ہے اور ارادہ پارلیمنٹ میں جانے کا ہے۔ طالبان اور داعش سمیت دہشت گردی کا خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ خطے میں عدم استحکام کے اشارے واضح ہو رہے ہیں۔ چین کا مفاد سی پیک کی تکمیل میں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق کو کسی قدر استحکام ملا ہے۔ موجودہ جمہوری تجربے میں کسی خلل سے وفاق کا توازن درہم برہم ہو جائے گا جس سے سی پیک سمیت تمام زیر تکمیل معاشی منصوبے متاثر ہوں گے۔ حکومت مخالف عناصر کے موقف میں متبادل بندوبست کے خدوخال واضح نہیں ہیں۔ مغربی دنیا پاکستان کے ساتھ واضح برگشتگی کے موڈ میں ہے۔ خلیج کی ریاستوں میں افراتفری ہے۔ ترکی کے اپنے حالات دگرگوں ہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کا کاروباری طبقہ نواز حکومت کے مخالفین پر اعتماد نہیں کرتا۔ یہ بددیانتی یا دیانت داری کا قصہ نہیں بلکہ معمولی معاشی فہم کا معاملہ ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھاؤ میں اس کے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیاسی اتھل پتھل کے اس ہنگام میں کسی جماعت کو دوسری جماعتوں کے اچھی یا بری شہرت رکھنے والے افراد کی شمولیت پر اعتراض نہیں۔ گویا بدعنوانی کا خاتمہ، احتساب اور شفافیت تو اصل وجہ نزاع ہی نہیں بلکہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر ناپسندیدہ قرار پانے والے افراد کو سیاسی منظر سے ہٹانا حقیقی مقصد ہے۔ عمران خان کے مطابق زرداری کے سوا باقی پیپلز پارٹی دودھ میں دھلی ہے۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ نواز شریف اپنی جماعت کے کسی دوسرے رکن کو وزیر اعظم بنا دیں۔ گویا مسئلہ مسلم لیگ کی سیاست سے نہیں، نواز شریف کے کسی خاص موقف سے ہے۔ اس مقدمے کے قانونی پہلو تو کمرہ عدالت میں طے ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت مخالف عناصر نے گلیوں میں ہنگامہ آرائی کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ سوچنا چاہئے کہ اگر بار بار عوامی احتجاج میں ناکام ہونے والے ہنگامہ آرائی سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں تو تین عشروں سے انتخابی تائید حاصل کرنے والے کس سطح پر سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ حالیہ بحران کو پانامہ کا شاخسانہ سمجھنا درست نہیں، یہ تو سیاسی اور غیر سیاسی ذہن کی ستر سالہ کشمکش کا نیا مرحلہ ہے۔ ریاست کے پاس بے پناہ قوت ہوتی ہے لیکن سیاسی حرکیات کی ڈوریاں سیاسی قیادت کی انگلیوں سے بندھی ہوتی ہیں۔ استاد محترم نے ہر کمال کے زوال کی نوید دی ہے، عرض ہے کہ زوال کا اندیشہ اسے ہونا چاہئے جس نے عشروں تک اوج کمال سے استفادہ کیا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ نواز حکومت اور میثاق جمہوریت کا وقت ابھی ختم نہیں ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے