نواز شریف کیا کرتے؟

نواز شریف صاحب نے اپنے عہد میں جی لیا۔ اب وقت تھا کہ وہ تاریخ میں جینے کا فیصلہ کرتے۔

سیاست میں قدم رکھنے والا ایک آدمی جو خواب دیکھتا ہے، نواز شریف صاحب نے ان سب کی تعبیر بچشمِ سر دیکھ لی۔ صوبائی وزارت سے وزارتِ عظمیٰ تک، اقتدار کی دیوی ان پر مختلف صورتوں میں مہربان ہوتی رہی۔ وہ تین بار وزیر اعظم بنے۔ یہ ریکارڈ شاید ہی ٹوٹ پائے۔ اقتدار کے ساتھ انہوں نے عوام کے دلوں میں بھی جگہ بنائی۔ ان کا شمار پاکستان کے مقبول ترین راہنماؤں میں ہو گا۔ اتنی کامیابیوں کے بعد، اب وقت کا ان سے مطالبہ تھا کہ وہ اقتدار کی سیاست سے بلند ہوتے اور تاریخ میں جینے کا فیصلہ کرتے۔ تاریخ میں جینے کا مطلب اقدار اور اصول کی سیاست ہے۔

میرا احساس ہے کہ انہوں نے چند سال پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا۔ بالخصوص، 2014ء کے بعد، انہوں نے جو سیاست کی، وہ اقتدار کی سیاست نہیں تھی۔ سیاسی مبصرین میں کم و بیش اتفاق ہے کہ وہ مروجہ سیاسی نظام کو قبول کیے رکھتے اور اسے چیلنج نہ کرتے تو آج بھی ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ ان کے ایک بڑے سیاسی مخالف، وزیر داخلہ اعجاز شاہ صاحب تو یہ بات زبانِ قال سے کہہ چکے۔
یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ ان جیسا تجربہ کار سیاست دان اس بات سے بے خبر تھا۔ وہ جانتے تھے کہ تاریخ میں زندہ رہنے کی ایک قیمت ہے اور یہ جان بھی ہو سکتی ہے۔ شدید بیماری کے باوجود، انہوں نے جس وقار کے ساتھ جیل کاٹی، وہ ان کے صاحبِ عزیمت ہونے کی دلیل ہے۔ اس دوران میں ان کے پاس بے شمار مواقع آئے جب وہ معاملہ کر سکتے تھے‘ مگر انہوں نے انکار کیا۔ یہ چند سال ان کی سیاسی زندگی کا ایک سنہری دور ہے اور کوئی مورخ اس کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

ان کی اس استقامت نے پاکستان کے سیاسی کلچر پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ ان کا بیانیہ، آج بھی سیاست کا سب سے طاقت ور بیانیہ ہے۔ ن لیگ، اپنے تمام تر سیاسی بانجھ پن کے باوجود اگر ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے تو اس کی وجہ یہ بیانیہ ہے۔ یہ ان کی جدوجہد کی وجہ سے ممکن ہوا کہ سیاست کے سب حجاب اٹھ گئے۔ آج ایوانِ اقتدار اور عوام کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں ہے۔ کون کہاں بیٹھا حکم دے رہا ہے اور کون بجا لا رہا ہے، اب سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی منظرنامے میں ایسی شفافیت پہلے کبھی نہ تھی۔ بعض چہروں کے نقوش عوام پر واضح نہیں تھے۔ اب ہر چہرہ پوری طرح روشن ہے اور صاف پہچانا جا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کا یہ بانکپن، اُس وقت کہاں گیا جب ن لیگ نے مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں ایک فرمانبردار کا کردار ادا کیا؟اس سوال کا جب کوئی قابلِ اطمینان جواب سامنے نہیں آیا تو لوگوں کو بہت کچھ کہنے کا موقع ملا۔ معترضین نے ان کے گزشتہ ماہ و سال پر بھی سوالات اٹھائے اور اس مقدمے کو چیلنج کیا کہ وہ کوئی صاحبِ عزیمت آدمی تھے۔

میں اس رائے سے اتفاق نہیں کر سکا۔ اگر اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو ان کی گزشتہ پانچ سالہ سیاست کی کوئی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔ اگر انہوں نے معاملہ ہی کرنا تھا تو اس کے لیے سب کچھ گنوانے کی کیا ضرورت تھی؟ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ فریقِ ثانی کی قوت کا کیا عالم ہے اور اس سے ٹکرانے کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک زرعی ملک میں رہنے والا محکمہ زراعت کی قوت سے بے خبر ہو؟

اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ سب کچھ گنوانے کے بعد، نواز شریف صاحب نے اس کمزوری کا اظہار کیوں کیا؟ وقتِ عصر روزہ کیوں توڑا؟ ایک ایسا فیصلہ کیوں کیا جس نے انہیں ایک دفاعی پوزیشن پہ لا کھڑا کیا؟ وہ بن بلائے مہمان کی طرح رقیبوں کے باراتی کیوں بنے؟ کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جنہوں نے اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا، ان کے جذبات پر کیا گزری ہو گی؟ کیا ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا؟

یہ معلوم ہے کہ ن لیگ میں دو مکتبِ فکر ہیں۔ ایک وہ جو موجودہ سیاسی بندوبست کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا وہ جو اس میں رہتے ہوئے، شریکِ اقتدار ہونا چاہتا ہے۔ پہلے گروہ کی ساری قیادت کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ اس کو زبان دینے کے لیے کوئی راہنما آزاد نہیں تھا۔ اگر کوئی تھا بھی تو عوام میں اتنا مقبول نہیں تھا کہ وہ کوئی تحریک اٹھا سکتا۔ دوسرا گروہ نسبتاً آزاد تھا اور اسے اسی لیے آزاد رکھا گیا کہ ن لیگ سے کوئی معاملہ ہو جائے۔

خان صاحب کی مایوس کن کارکردگی نے بھی مقتدر حلقوں کو مجبور کیا کہ متوازی سیاست قیادت کو زندہ رکھیں تاکہ بوقتِ ضرورت سیاست میں وہ خلا واقع نہ ہو جو کسی بڑے بحران کو جنم دے۔ یوں دونوں اطراف سے رابطے کے لیے کھڑکی کھل گئی۔ اس سے ن لیگ میں دوسرے مکتبِ فکر کو امید کی کرن دکھائی دی کہ اقتدار کی دیوی ان پر ایک بار پھر مہربان ہو سکتی ہے۔

اس دوران میں لیکن عوامی سطح پر ایک تبدیلی آ چکی ہے۔ نواز شریف صاحب کا بیانیہ عوام میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ ن لیگ کے دوسرے گروہ کو اس کا علم تھا لیکن اسے یہ اندازہ نہ تھا کہ خود ن لیگ کی قیادت کو، اب اس بیانیے سے انحراف کی صورت میں، اس قدر شدید عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لگتا ہے شہباز شریف صاحب نے اپنے بچوں کی عافیت کے لیے بھی نواز شریف صاحب کی منت کی کہ ان کا خاندان کسی عزیمت کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے وہ ان پر رحم فرمائیں اور انہیں موقع دیں کہ وہ مقتدر قوتوں سے معاملہ کریں۔

میرا خیال ہے کہ نواز شریف صاحب نے چھوٹے بھائی کی عمر بھر کی وفاداری کا صلہ دینے کا فیصلہ کیا‘ اور اپنے بیانیے کو، ان کی محبت میں، کم از کم اِس وقت، پسِ پشت ڈال دیا۔ یہ شہباز شریف کے لیے نواز شریف صاحب کی ایک بڑی قربانی ہے۔ اگر شہباز صاحب مقتدر حلقوں سے اپنا تعلق بحال کرتے ہوئے، ایک بار پھر اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ مریم نواز کے مستقبل کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اقتدار کی سیاست کے لیے شہباز شریف صاحب ہی کا فارمولہ قابلِ عمل ہے۔

اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے لیے نواز شریف صاحب کے پاس ایک اور راستہ بھی تھا۔ وہ اپنی صحت کی خرابی کو جواز بنا کر عملی سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کر دیتے اور معاملات کو شہباز شریف صاحب کے حوالے کر دیتے۔ وہ ایک بیان جاری کرتے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ اگر وہ عملی سیاست کرتے تو اسی کو آگے بڑھاتے؛ تاہم چونکہ ان کی صحت عملی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے وہ معاملات کو شہباز شریف کے حوالے کر رہے ہیں۔ اب یہ ان کا حق ہے کہ وہ ن لیگ کے لیے کیا لائحہ عمل طے کریں۔

نواز شریف اگر ایسا کرتے تو ان کا وقار مجروح نہ ہوتا۔ ان پر کسی ڈیل کا دھبہ نہ لگتا۔ ان کا بیانیہ اپنی جگہ کھڑا رہتا۔ تاریخ یاد رکھتی کہ انہوں نے ہر مشکل کو برداشت کیا مگر اپنے بیانیے سے انحراف نہیںکیا۔ اگر انہوں نے یہ سب کچھ مریم کے لیے کیا ہے تو مجھے اب اس کا امکان کم دکھائی دیتا کہ ن لیگ میں، اس تبدیلی کے بعد، ان کے لیے کوئی جگہ بن سکے۔ شہباز شریف صاحب کے بیانیے کے غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ن لیگ کا مستقبل اب حمزہ شریف ہیں۔ مریم کو اگر سیاست کرنی ہے تو انہیں نئی جماعت بنانا ہو گی۔

نواز شریف صاحب کے آخری اقدام سے اختلاف کے باوجود، انہوں نے گزشتہ چند سالوں میں جو استقامت دکھائی، وہ ہمارے تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور اس کے لیے میرے دل میں ان کی بہت قدر ہے۔ سیاست کے سینے میں لیکن دل نہیں ہوتا۔ اگر ن لیگ شہباز شریف صاحب کی قیادت میں عوام کے پاس جائے گی تو اس بار نواز شریف کے بیانیے کے حامی اس کا ہمرکاب ہونے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُس وقت تک ان کا بیانیہ ایک نئی قیادت تلاش کر لے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے