نواز شریف کی رہائی اور مولانا کا آزادی مارچ

سیاست میں بسااوقات ایک دن تو کیا ایک گھنٹے میں ہوئے فیصلے بھی کئی دہائیوں تک اپنا اثربرقرار رکھتے ہیں۔اتوار کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ آج سے شروع ہونا ہے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ وہ کیسے ا ور کس مقام سے اپنے مارچ کا آغاز کریں گے۔ یہ ہدف مگر طے ہوچکا ہے کہ وہ 31اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

پرویز خٹک کی قیادت میں قائم ہوئی حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اپوزیشن رہ نمائوں کواس امر پر قائل کرلیا ہے کہ مولانا کی قیادت میں آیا مارچ اسلام آباد کی ریڈزون میںداخل نہیں ہوگا۔ اس فیصلے پر کامل عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے JUIکے ایک رہ نما کے ساتھ سٹامپ پیپر پر دستخط بھی ثبت کردئیے ہیں۔یہ معاہدہ مگر قانونی اعتبار سے اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ اور اپوزیشن کے درمیان ہوا ہے۔ مولانا کے مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے پانچ دن درکار ہیں۔ان پانچ دنوں میں مارچ کے شرکاء کو مولانا کی قیادت میں پنجاب کے کئی اضلاع سے گزرنا ہوگا۔سوال اٹھتا ہے کہ ان اضلاع کی انتظامیہ مارچ کے ضمن میں کیا SOPsاختیار کرے گی۔

فرض کرلیتے ہیں کہ مولانا کی قیادت میں رواں مارچ کو پنجاب کے مختلف اضلاع کی حدود سے بغیر کسی رکاوٹ کے گزرنے کی اجازت بخوشی یا بادل نخواستہ مہیا کردی جاتی ہے۔ان ’’قافلوں‘‘ کے ساتھ مگرکیا سلوک ہوگا جو خیبرپختونخواہ کے بنوں ،ڈیرہ اسماعیل خان اور ہری پور جیسے اضلاع سے اسلام آباد آنا چاہ رہے ہوں گے۔ پاکستان کے نقشے کو کھول کر انتظامی افسر کی نگاہ سے اس کا بغور جائزہ لیں تو بآسانی دریافت ہوجائے گا کہ مارچ کا معاملہ فقط مولانا کی قیادت میں اسلام آباد کی جانب رواں ریلی تک ہی محدود نہیں ہے۔چھوٹے بڑے قافلوں نے خیبرپختون خواہ اور شمالی پنجاب کے کئی اضلاع سے بھی اسلام آباد کی جانب رواں ہونا ہے۔ مولانا فضل الرحمن انہیں لمحہ بہ لمحہ ہدایات دے نہیں سکتے۔

جے یو آئی کی دوسرے یاتیسرے درجے کی قیادت اس ضمن میں انگریزی زبان والی Micro Managementکررہی ہوگی۔ مقامی انتظامیہ بھی Autonomousانداز میں ان سے Dealکررہی ہوگی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باہمی اشتراک سے اس ضمن میں بنائے کسی ماسٹر پلان کی مجھے تو خبر نہیں۔اس پلان کے بغیر کسی بھی شہر میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس امکان کو ذہن میں رکھیں تو کامل پانچ روز تک پوری قوم مسلسل تنائو اور ہیجان کا شکار رہے گی۔نام نہاد X-Factorsسے گھبرائی ہوئی۔

شمالی پنجاب کے انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے گفتگو کے بعد میں یہ لکھ سکتا ہوںکہ سینکڑوں کی تعداد میں وہاں کنٹینروں کو جمع کرلیا گیا ہے۔مارچ شروع ہونے سے کم از کم تین دن قبل ہی ان کنٹینروں کو اپنے قبضے میں لے کر انتظامیہ نے گویا مختلف اجناس کی سپلائی کو دیگر شہروں تک پہنچانا ناممکن بنادیا ہے۔ٹرانسپورٹ کے دھندے سے متعلق افراد کو بھی سخت وارننگ دی جاچکی ہے۔کئی شہروں میں پیٹرول پمپ بند کرنے کا ارادہ بھی ہے۔گماں ہے کہ اس کی بدولت لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں کے ذریعے بھی اسلام آباد نہیں پہنچ پائیں گے۔انتظامی اعتبار سے ضروری تصور ہوتے ہوئے یہ اقدامات مگر کامل پانچ دنوں تک پاکستان کے بیشتر شہروں اور قصبات میں روزمرہّ زندگی کے معمولات کو مفلوج بنادیں گے۔مولانا کا اس تناظر میں اسلام آباد آنے یا نہ آنے کا سوال فروعی اور غیر متعلقہ نظر آتا ہے۔اہم ترین بات حقیقت کہ پانچ دنوں تک روزمرہّ زندگی کا تعطل ہوگی۔اس حقیقت کی جانب مگر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔

محمد خان جونیجو مرحوم نے جب ضیاء سے مارشل لاء اٹھوانے کا فیصلہ کروالیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے 10اپریل 1986کی صبح لندن سے لاہور ایئرپورٹ آنے کا اعلان کردیا۔جونیجو حکومت پر کئی ریاستی اداروں نے شدید دبائو ڈالا کہ وہ انہیں لاہور ایئرپورٹ اترتے ہی ’’حفاظتی نظربندی‘‘ کے نام پر گرفتار کرلیں۔جونیجو مرحوم نے انکار کردیا۔محترمہ ایئرپورٹ سے سورج نکلنے کے بعد روانہ ہوئیں تو ایک تاریخی ہجوم کے ساتھ سورج ڈھلنے کے قریب مینارِ پاکستان پہنچیں۔ ان کے خطاب کے بعد ہجوم منتشر ہوگیا۔ ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا۔ 10اپریل سے 3مئی 1986تک محترمہ نے پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں نفری کے اعتبار سے تاریخی اجتماعات سے خطاب کیا۔ میں ان تمام دنوں میں محترمہ کو بحیثیت رپورٹر Chaseکرتا رہا۔ کسی ایک شہر میں بھی روزمرہّ زندگی مفلوج نظر نہیں آئی۔ جہاں بھی گیا وہاں رونق اور میلے جیسے مناظر دیکھنے کو ملے۔ محترمہ کی ریلیاں رونق افروز کاررواں کی صورت اختیار کرگئیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہم وطنِ عزیز میں جمہوریت کے ’’استحکام‘‘ کی بڑھک لگارہے ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسا ’’استحکام‘‘ ہے جو پانچ دنوں تک پاکستان کے دو بڑے صوبوں کی روزمرہ زندگی کو مفلوج بنانے پر تلابیٹھا ہے۔وزیر اعظم عمرن خان صاحب اگراپوزیشن رہ نمائوں سے مذاکرات کرنا اپنی توہین تصور کرتے ہیں تو پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ پر مشتمل ایک کمیٹی مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن رہ نمائوں کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کے ذریعے ’’آزادی مارچ‘‘ کے پانچ دنوں کو خیروعافیت سے گزارنے کے لئے قابل عمل SOPsبناسکتی تھی۔یہ تردد ہوا نہیں ہے اور ہمیں نامعلوم یاX-Factorsکے خدشات کے ہیجان میں مبتلا کردیا گیا ہے۔

دریں اثناء نواز شریف صاحب کی صحت کے معاملات بھی بدستور تشویش ناک ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم کی نیب کی حراست سے طبی بنیادوں پر رہائی کا بندوبست کردیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو اب احتساب عدالت کی دی گئی سزا کامعاملہ ہے۔منگل تک اس ضمن میں ’’عارضی‘‘ ضمانت ہوئی ہے۔حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔نظر بظاہر عدالت اس امر پر اصرار کررہی ہے کہ حکومت کو ازخود اپنی قید میں موجود شخص کی صحت کے بارے میں کچھ اقدامات لینا ہوتے ہیں۔عدالتوں کو ایسے معاملات میں مداخلت سے بازرکھا جائے۔

ہفتے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ہوئے فیصلے کی تفصیلات ومضمرات کو جانے بغیرنون کے نام سے منسوب جماعت کے کئی رہ نماء اور کارکن شادمانی کا اظہار کرنا شروع ہوگئے۔یہ ویسی ہی ’’شادمانی‘‘ تھی جو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آئی تھی جس کے ذریعے نواز شریف کو پانامہ کی وجہ سے فوری بنیادوں پر نااہل قرار دینے کے بجائے ریاستی اداروں پر مشتمل ایک JITکے ذریعے مزید تحقیقات کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔

نواز شریف صاحب کے جذباتی پرستاروں کے بچگانہ رویے کے برعکس تحریک انصاف کے متوالوں کی پریشانی تھی۔وہ ا پنے تئیں یہ طے کر بیٹھے کہ نواز شریف کا اپنی دُختر سمیت بیرون ملک جانے کا ’’بندوبست‘‘ ہوگیا ہے۔سوشل میڈیا کی بدولت پھیلے ہیجان نے کسی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں دی کہ ٹھوس قانونی حوالوں سے یہ کالم لکھنے تک ایسی کوئی بنیاد ہی موجود نہیں تھی جو ہمیں اس گماں میں مبتلا کرے کہ نواز شریف کے غیر ملک جانے کا ’’فیصلہ‘‘ ہوگیا ہے۔ٹھوس قانونی بنیادوں پر محترمہ مریم نواز شریف ابھی تک نیب کی حراست میں ہیں۔وہ ’’پیرول‘‘ کی بنیاد پر اپنے بیمار والد کی تیمارداری کررہی ہیں۔ ان کی اپنی صحت نے بھی ان کی ہسپتال موجودگی ممکن بنائی ہے۔

ریگولر اور سوشل میڈیا میں لیکن ’’قانون کا سب کے لئے یکساں‘‘ نہ ہونے کا ماتم شروع ہوچکا ہے۔کرپشن کے جانی دشمن پارسائوں کو وہ ’’غریب‘‘ قیدی یاد آنا شروع ہوگئے ہیں جن کی سنگین بیماریوں کا ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کو احساس ہی نہیں۔یہ دہائی یقین مانیے عمران خان صاحب کی محبت میں نہیں بلکہ نواز شریف کی نفرت میں مچائی جارہی ہے۔اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی قوم میں ٹھوس حقائق کو زیرغور لانے کو کوئی تیار نہیں۔ Post-Truthہیجان ہے۔عقل (Reason)رخصت پر جاچکی ہے۔جذبات (Passion)کا جنون ہے۔یہ جنون میری ناقص رائے میں پنجابی محاورے والی ہاتھ سے لگائی گرہیں ہیں۔جنہیں کھولنے کے لئے اب ’’دانتوں‘‘ کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے