نیا نہیں پرانا پاکستان

علی سفیان آفاقی انتہائی نفیس، نستعلیق اور نک سک آدمی تھے۔ میر ٹھ سے آئے، لاہور میں آباد ہوئے اور ماڈل ٹائون میں رہائش اختیار کی۔ صحافت کے ساتھ ساتھ کہانی نویسی، ہدایت کاری، فلم سازی کے میدان میں خود کو منوایا۔

آپ نے نہ صرف اردو صحافت میں ’’فلمی صفحہ‘‘ متعارف کرایا بلکہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو جنم لیتے، پروان چڑھتے، جوان ہوتے اور پھر جوانی میں ہی دم توڑتے بھی دیکھا۔

آفاقی صاحب اس لاہور کے باسی اور ساتھی تھے جس میں مال روڈ اور اس کی سروس لین کے درمیان گھاس کے تختے ہوتے، سمن آباد کی جگہ کھیت لہلہاتے، ملتان روڈ کے فلم سٹوڈیوز سے پہلے دائیں بائیں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔

شام ڈھلے تانگے والے اچھرہ سے آگے کی سواری نہیں اٹھاتے تھے اور اگر مجبوراً ایسا کرنا پڑتا تو دو روپے سے ایک آنہ کم کرنے پر راضی نہ ہوتے اور تب دو روپے خطیر رقم سمجھی جاتی کہ وہ اکنّیوں، دنیّوں، چونّیوں اور اٹھنّیوں کا زمانہ تھا۔

پاکستان نیا نیا بنا تھا اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بہتر سال بعد، پاکستانیوں کو آدھے پاکستان کے بعد کسی نئے پاکستان کی تلاش ہوگی۔ یہ ’’ایک آنے کی روٹی دال مفت‘‘ کا زمانہ تھا جب منٹو جیسے جید لکھاری دس پندرہ روپے فی افسانہ بیچ کر پی بھی لیا کرتے تھے اور جی بھی لیا کرتے تھے۔

تب لکشمی چوک شہر کا دل تھا جس کے اک فلیٹ میں دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کی رہائش تھی، وہ ناصرخان جو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہیرو تھے پھر دلبرداشتہ ہو کر واپس بمبئی چلے گئے۔آفاقی صاحب اپنی بہت سی یادیں ’’فلمی الف لیلہٰ‘‘ میں محفوظ کر گئے ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ یہ نام احمد فراز نے تجویز کیا تھا۔ لکھتے ہیں۔’’ہم نے فلمی نگار خانوں کے چکر لگانے شروع کردیئے۔

وہاں جسے دیکھیے ہماری آئو بھگت میں لگا رہتا تھا۔ اس زمانے میں ایک یہ تبدیلی بھی رونما ہوئی کہ روزنامہ ’’امروز‘‘ اور اسی ادارے کے انگریزی روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نے بھی روزنامہ ’’آفاق‘‘ کی دیکھا دیکھی فلمی سرگرمیوں کو شائع کرنا شروع کردیا تھا۔

’’امروز‘‘ کے فلم سیکشن کے انچارج مسعود اشعر تھے اور’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں یہ ذمہ داری آئی اے رحمٰن صاحب کے سپرد کی گئی۔ یہ دونوں ہمارے دوست تھے۔

وہ باقاعدگی سے سٹوڈیو نہیں جا سکتے تھے اس لئے فلمی خبروں اور دوسری معلومات کے لئے ہماری خدمات حاصل کرتے تھے۔ ہم ہر ہفتہ فون پر انہیں اہم خبریں بتا دیا کرتے تھے۔ علاؤالدین سے ان کی پہلی ملاقات کا حال انہی سے سُنیے۔’’تانگے والا سوچ میں پڑ گیاپھر بولا ’’میں اچھرہ واپس جا رہا ہوں آپ کہیں تو وہاں تک لے چلتا ہوں‘‘۔ ہم نے پوچھا ’’اور وہاں سے آگے ہم کیسے جائیں گے؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا اور بولا ’’چلیں ماڈل ٹاؤن چھوڑ دوں گا لیکن کرایہ دو روپےسے کم نہ ہوگا۔‘‘حالات کے مطابق اس کا مطالبہ معقول تھا۔

ہم بھی سواری کے انتظار میں ٹہل ٹہل کر اور شدید سردی میں منہ سے بھاپ نکال نکال کر تھک گئے تھے اس لئے فوراً ہامی بھرلی اور تانگے میں سوار ہوگئے۔ ہم نے دیکھا کہ اسٹاپ پر موجود ایک صاحب بڑی حسرت سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ سوچا انہیں بھی ساتھ بٹھا لیں۔ پوچھا ’’کہاں جائیں گے؟‘‘ کہا ’’جی مجھے مسلم ٹائون جانا ہے‘‘ ’’تو پھر آجائیے آپ کو چھوڑ دیں گے ہم ماڈل ٹائون جا رہے ہیں‘‘۔ وہ پہلے تو تکلف کرتے رہے مگر پھر ہمارے اصرار پر رضا مند ہوگئے۔ تانگہ چل پڑا۔

ہم دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ پھر ہم نے انہیں بتایا کہ ہماری ماڈل ٹائون والی بس کیسے مس ہوگئی۔ وہ مسکرائے اور بولے ’’یورپ میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ اگر لڑکی یا بس مس ہو جائے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ دوسری آتی ہی ہوگی‘‘۔ہم نے کہا ’’ٹھیک فرمایا، مگر یہاں دوسری بس دوسرے دن ہی نظر آتی ہے‘‘۔ اس طرح بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انہیں ادب اور شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ کئی اشعار انہوں نے سنائے پھر فلموں کی باتیں شروع ہوگئیں۔ وہ نوجوان صحت مند اور خوش شکل آدمی تھے۔

باتوں باتوں میں تعارف ہوا تو ہم نے اپنا نام بتایا تو وہ بولے ’’میرا نام علائوالدین ہے‘‘۔علائوالدین کہتے ہوئے انہوں نے عین کے نیچے زیر لگا دیا کہ یہ پنجاب کا دستور تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اداکار ہیں اور دلیپ کمار کی فلم ’’میلہ‘‘ میں اداکارہ نرگس کے باپ کا کردار کیا ہے۔

ہمیں ہنسی آگئی کہ اتنی کم عمری میں وہ ہیروئن کے والد بزرگوار بن بیٹھے۔ مسلم ٹائون کے پل پر پہنچ کر انہوں نے کہا ’’مجھے یہاں اتار دیجیے۔ آپ کا شکریہ۔ یہ کہہ کر انہوں نے جیب سے چار آنے نکال کر ہمیں پیش کردیئے اور بولے ’’معافی چاہتا ہوں، سردست یہی پیش کرسکتا ہوں‘‘۔ وہ بہت اصرار کرتے رہے لیکن ہم نے انکار کردیا۔

علاؤالدین صاحب سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی جو بڑھ کر پرُخلوص دوستی کے رشتے میں تبدیل ہوگئی۔ علائو الدین نے بعد میں بہت ترقی کی۔ بہت اچھے دن دیکھے۔ ان کے پاس شاندار اور قیمتی کار بھی تھی۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل، شہرت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ وہ پہلے کیریکٹر ایکٹر تھے پھر ویلن بنے اور اس کے بعد ہیرو بن گئے وہ عوامی اداکار کہے جاتے اور ایک وقت تھا جب فلم ساز علائوالدین کے بغیر فلم بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے‘‘۔

اک اور باب میں لکھتے ہیں:’’دوپٹہ‘‘ کے زمانہ میں نور جہاں اپنے شباب پر تھیں۔ اداکاری بھی انہوں نے بہت اچھی کی تھی۔ فضلی صاحب کی ہدایت کاری بھی اعلیٰ درجہ کی تھی۔ اس فلم کے نغمے آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔’’چاندنی راتیںسب جگ سوئے… ہم جاگیںتاروں سے کریں باتیں‘‘اسی فلم کا نغمہ ہے۔ اس فلم کے نغمات مشیر کاظمی نے لکھے تھے۔

اس گانے کی شان نزول یہ بتاتے تھے کہ سخت کڑکی، مفلسی کے دن تھے۔ یہاں تک کہ فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی۔ گرمیوں کی چاندنی رات تھی، وہ صحن میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے، بھوک کے مارے نیند آنکھوں سے دور تھی اور وہ کروٹیں بدل رہے تھے جب دل کی آواز ان اشعار کے ذریعے ان کی زبان پر آگئی۔

’’چاندنی راتیں…. سب جگ سوئے …. ہم جاگیں…. تاروں سے کریں باتیں‘‘۔کیسے دن تھے، کیسے لوگ اور کیسا پاکستان لیکن یہ سب چھوڑیں اور مل جل کر ’’نیا پاکستان‘‘ تلاش کریں جہاں روٹی 6 روپے اور سادہ نان 10روپے کا، خمیری روٹی اور تلوں والا نان بارہ روپے کا جبکہ روغنی نان 20 تا 25 روپے کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے