وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو وہ نقصان میں جائیں گے: شہلا رضا

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شہلا رضا نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اقتدار منتقل نہیں کریں گے، جس سے مسئلہ بڑھے گا۔

شہلا رضا نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اقتدار منتقل نہیں کریں گے، جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔

رہنما پی پی پی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کو صورتحال سمجھتے ہوئے اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے، اگر ایسا نہ ہوا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف نقصان میں جائیں گے۔

شہلا رضا کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے پاناما اسکینڈل سامنے آنے پر کہا گیا تھا کہ ہم چاہیں تو وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرسکتے ہیں، اس کے بعد جب جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو پیپلز پارٹی نے اسے مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہوتے ہوئے گریڈ 19 کے افسران اُس طرح کام نہیں کر سکتے جس طرح انھیں کرنا چاہیے۔

پیپلز پارٹی رہنما نے مزید کہا کہ میں قانونی ماہر نہیں لیکن اس معاملے پر سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ کا آخری حصہ سامنے نہیں آجاتا، اُس وقت تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جے آئی ٹی نے بغیر دباؤ کے کام کیا، لیکن ایف آئی اے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی دباؤ کا شکار نہیں ہوا۔

جے آئی ٹی کے قانونی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے ماہر قانون سعد رسول نے کہا کہ یہ جے آئی ٹی عدالت عظمیٰ کی جانب سے تشکیل دی گئی اور اس کے ارکان بھی ان ہی کی جانب سے منتخب کیے گئے، جس نے ہر 2 ہفتے بعد عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کی۔

جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالت عظمیٰ کے متوقع اقدامات کے حوالے سے سعد رسول کا کہنا تھا کہ قانونی اورآئینی نقطہ نظر سے اب عدالت عظمیٰ کو کچھ ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ماہر قانون کے مطابق اگلی سماعت پر کچھ فریقین رپورٹ یا دیگر چیزوں پر اپنے اپنے اعتراضات فائل کریں گے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعتراضات فائل کرنے کے لیے فریقین عدالت سے مزید وقت طلب کریں۔

سعد رسول کا کہنا تھا کہ ان اعتراضات کو ججز کا یہی بینچ سن کر ان پر فیصلہ دے دے گا جس کے بعد اعتراضات پر دیے جانے والے فیصلوں سے جے آئی ٹی رپورٹ کو ایک حتمی شکل دے دی جائے گی جسے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے پاس بھیجا جائے گا۔

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل تھے۔

جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کی، جس کے مطابق 15 جون کو اپنی پیشی کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف ‘بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات’ نہ دے سکے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ‘وزیراعظم ٹال مٹول اور قیاس سے کام لیتے جبکہ تعاون نہ کرتے دکھائی دیئے’۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘دوران انٹرویو وہ زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے، ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا’۔

وزیراعظم کے بیان پر تحقیقاتی ٹیم کے تجزیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف غیرواضح جوابات دے کر ‘بیشتر سوالات کو رد کرتے رہے’ یا حقائق کو چھپانے کے لیے تفصیلات یاد نہ ہونے کا اظہار کرتے رہے۔

جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں نواز شریف نے اپنی ابتدائی زندگی، سیاست میں آمد اور 3 دہائیوں پر مشتمل سیاسی کریئر کے دوران اپنے عہدوں کی تفصیلات بتائیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ملکیت میں موجود یا انہیں حاصل ہونے والے تمام اثاثہ جات انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں واضح ہیں۔

ساتھ ہی نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں ظاہر کردہ اثاثہ جات کے علاوہ ان کی ملکیت میں کچھ اور موجود نہیں’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے