’’وہ تو کوئی اورتھا‘‘

’’پاناما سے پہلے میں نے اپنے وزیراعظم کو آخری بار دیکھا کیونکہ اس کے بعد جو دوسری طرف سے نکلا وہ تو کوئی اور تھا‘‘’’ن لیگ کا سین اون ہے‘‘قارئین!میں اعتراف کرتا ہوں کہ اوپر میں نے دو ٹی وی کمرشلز کے ساتھ ’’ٹمپرنگ‘‘ کی ہے لیکن جہاں ٹاپ پر ہر قسم کی ٹمپرنگ کا کلچر ’’اقدار کی سیاست‘‘ کہلانے پر مصر ہو، وہاں مجھ جیسا کالم نگار کس کھاتے اورشمارقطار میں؟ سیاسی قوالوں کو بہت دیر سے یاد آیا کہ 63-62پرتو سوائے ایک ہستی کے اورکوئی پورا اتر ہی نہیں سکتا۔ بات سچی ہے لیکن یہ سچ پہلے کسی کو سمجھ کیوں نہیں آیا؟ تیسری بار وزارت عظمیٰ ’’کمانے‘‘ کیلئے ترمیمیں ہوسکتی تھیں تواس میں بھی ترمیم کر لیتے۔ اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ دنیا کی تقریباً ہر مہذب قوم میں لیڈروں کیلئے اپنے اپنے انداز اوراسلوب میں ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ ہونا ضروری ہے۔ کوئی باعزت قوم کسی جھوٹے اور خائن کو بطور سربراہ قبول نہیں کرتی۔ پکڑا جائے تو چشم زدن میں گٹر برد کردیتی ہے جبکہ یہاں تو کوئی ایسا فورم ہی نہیں بچا جہاں دروغ گوئی کے نئے ریکارڈ قائم نہ کئے گئے ہوں یعنی ’’جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے۔

‘‘سراج الحق جیسے سادہ لوح روتے پھرتے ہیں کہ نواز فیملی کی آمدنی تو بے شمار، بے تحاشا ہے لیکن ذرائع آمدنی نامعلوم تو سراج الحق کو چاہئے اپنے وقت کی مقبول ترین فلم ’’سرفروش‘‘ دیکھیں جس کا مکالمہ محاورہ بن گیا تھا۔ ’’چوری میرا پیشہ نماز میرا فرض‘‘۔ حضور! چوری سے لیکر ٹھگی اور ڈاکے سے لیکر راہزنی تک باقاعدہ پیشے ہیں جن میں مہارت کیلئے پتا مارنا پڑتا ہے۔ جیب کترنا کالم کترنے سے کہیں مشکل۔ پانی میں بلیڈ چلانے کی مشق کرنا پڑتی ہے تو پھر کہیں جا کر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔کہتے ہیں JITمینڈیٹ سے آگے نکل گئی توبھائی! اگردستار سے لیکر دامن تک بے داغ ہیں تو JITجہاں مرضی گھومتی رہے۔ پھر کہتے ہیں بریگیڈئیر (ر) نعمان آئی ایس آئی کے ملازم نہیں توجب ڈان لیکس میں تھے توکیسے ٹھیک تھے؟ تیسری بار وزیراعظم ہو کر بھی علم نہیںکہ آئی ایس آئی کیسے اوپریٹ کرتی ہے؟ لوگ کنٹریکٹ پر بھی رکھتے جاتے ہیں۔ اس بونگی کا بھی جواب نہیں کہ واجد ضیاء نے اپنے کزن کی خدمات حاصل کیں توکیا وہ ڈرائی کلیننگ یا ہیئر کٹنگ کا کام کرتا ہے؟ پروفیشنل ہے اور ٹاپ کا ہے توسوفیصد ٹھیک ہے۔

منی ٹریل دو تو کھیل ختم،مخصوص سوالوں کے مخصوص جواب، بھیانک ترین تضادات کی وضاحت دیدو، ادھر ادھر کی کیوں ہانک رہے ہو؟ اور ہاں اگر JITمینڈیٹ سے آگے نکل گئی تو آپ خود اپنے مینڈیٹ سے اربوں ڈالر آگے نکل گئے۔ریکارڈ ٹمپرنگ، جعلسازی اور بیچارہ حجازی وغیرہ سب پر مٹی ڈالیں۔ JIT نے ایک اور کٹا کھول دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوازشریف نے 98قومی اثاثے بیچ کر مال بنایا۔ کھربوں روپے مالیت کے 98قومی ادارے صرف 61ارب روپے میں ’’دوستوں‘‘ کو دیدیئے۔ تفصیلات اس کی بھی بہت بھیانک اور ڈرائونی ہیں مثلاً غور فرمائیں حکومت سنبھالنے سے قبل شریف خاندان کے اثاثوں کی مالیت صرف 25کروڑ روپے تھی جبکہ 1993میں جب کرپشن کے الزام پر یہ حکومت برطرف کی گئی تو ان کے اثاثوں کی مالیت 235کروڑ روپے سے زیادہ تھی۔ ان 2سالوں میں نوازشریف نے 98قومی ادارے، 61 ارب روپے میں فروخت کئے حالانکہ ان کی اصل مالیت کھربوںروپے تھی (جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع) JITرپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ شریف فیملی کے اثاثوں میں 1992میں بے پناہ اضافہ ہوا (یہ ہیں وہ حقائق اور واقعاتی شہادتیں جنہیں چیلنج کرنا اور جھٹلانا ہوگا، باقی سب درد بھرے افسانے اور مزاحیہ شاعری ہے) جبکہ ان کے ذرائع آمدن وہی تھی جو ان کے والد کے زیر انتظام تھے۔

JIT نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ شریف خاندان کے خلاف آمدن سے کہیں زیادہ اثاثے بنانے کے حوالے سے ریفرنس ’’نیب‘‘ کوبھیجا جائے۔ نواز نے اہم قومی ادارے 1992 میں میاں منشا، طارق سہگل، ٹھیکیدار ایم اشرف بلوچ اینڈ برادرز اور حاجی سیف اللہ وغیرہ جیسے کاروباری دوستوں کو اونے پونے داموں فروخت کئے (جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع)الغازی ٹریکٹر 106 ملین میں فروخت کیانیشنل موٹرز صرف 15کروڑ میں ڈھال دیاملت ٹریکٹرز 31کروڑ میں چلتا رہابلوچستان وہیلز 27کروڑپاک سوزکی 172ملیننیا دور موٹرز 22ملینبولان کاسٹنگ 69ملینمیپل لیف سیمنٹ 486ملینوائٹ سیمنٹ پاک سیمنٹ 189ملینڈی جی خان سیمنٹ صرف 2ارب روپے میںغریب وال سیمنٹ 84کروڑ میںزیل پاک سیمنٹ 24کروڑ میںبہت لمبی فہرست ہے، ایک آدھ کالم اتنے بوجھ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

عرض صرف اتنی ہے کہ ارض پاک پر رحم کرو،ہم وطنوں پر ترسکھائو…… کیا یہ واقعی نہیں جانتے کہ ہوا کیا اور جناتی آمدنیوں کے اصل ذرائع کیا ہیں؟ JITنے بہت کیا لیکن سچ یہ کہ یہ بھی ٹپ آپ دی آئس برگ سے زیادہ کچھ نہیں او وہ نابغے جو کہتے ہیں ….. ایک ہی خاندان کا احتساب کیوں تو میاں! کہیں نہ کہیں سے تو آغاز ہونا تھا ….. باقیوں کی باری بھی دور نہیں۔اور جناب سپیکر!’’پاناما سے پہلے میں نے اپنے پرائم منسٹر کو آخری بار دیکھا کیونکہ اس کے بعد جو دوسری طرف سے نکلا وہ تو کوئی اور تھا‘‘تحقیقات کب ہوئیں؟ کس نے کیں؟ کیوں کیں؟ سب ثانوی ہے اصل سوال یہ کہ ناقابل تردید الزامات و تفادات کا جواب کیا ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے