’’وہ‘‘ تک مجھ جوکو رسائی نصیب نہیں

صرف اخباروں یا ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو جانچنے کی کوشش کریں تو ایک جماعت ہوا کرتی تھی پاکستان پیپلزپارٹی۔ 2013ء کے انتخابات تک اسے ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اس سال مئی میں ہوئے انتخابات کے نتائج آئے تو خبر ملی کہ 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی جماعت جس کا بانی جنرل ضیاء کے ہاتھوں پھانسی چڑھا اور جس کی بیٹی راولپنڈی میں قتل ہوئی، اب صرف دیہی سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔

پیپلز پارٹی سے غلط یا صحیح وجوہات کی بناء پر بے پناہ نفرت کرنے والوں کو اس جماعت کے ایسے ’’انجام‘‘ سے مطمئن ہوجانا چاہیے تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس جماعت کی ’’گڈ گورننس‘‘ کا عالم یہی رہا تو 2018ء کے انتخابات کے بعد اس جماعت کا اندرونِ سندھ میں بھی کوئی نام لیوا باقی نہیں رہے گا۔ گڑھی خدا بخش میں صرف بھٹو اور بے نظیر کی قبریں باقی رہ جائیں گی اور شاید عام دنوں میں وہاں اتنے ہی لوگ فاتحہ کرتے دکھائی دیں گے جتنے اسلام آباد میں فیصل مسجد کے احاطے میں فاتح افغانستان غازی ضیاء الحق شہید کی قبر پر ان دنوں نظر آتے ہیں۔
اپنے تعصبات سے نجات پاکر مستقبل پر نظر رکھنا مگر ہم لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے۔ تخت یا تختہ کے جنون میں مبتلا ہمارے ذہن اپنے دشمن کے مکمل خاتمے تک مطمئن نہیں ہوتے۔
خدا عمر دراز کرے ذوالفقار مرزا کی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران اپنی ضد، لگن اور جرأت کردار اور گفتار وغیرہ کی بدولت ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ میڈیا کی حد تک موصوف فاتح بدین ٹھہرے۔ بدین مگر ایک ساحلی شہر ہے۔ جرأت وبہادری کے اس فرزندِ سندھ کو اب ٹی وی سکرینوں پر عقل کل نظر آنے والے اینکر خواتین وحضرات نے ایک نئی جماعت بنانے پر مجبور کردینا ہے۔ سنا ہے موصوف کے ہونہار فرزندِ ارجمند پیپلز پارٹی سے ملی صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے استعفیٰ دے دیا تو وہاں کروانا پڑے گا ضمنی انتخاب۔
اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ کو ایک بار پھر بھاری اکثریت سے جیت کر موصوف سندھ اسمبلی میں لوٹ آئے تو ابھی تک اپنی صفائیاں دینے کے لئے اکثر دوبئی کے پھیرے لگانے والے پیپلز پارٹی کے چند نامی گرامی وڈیرے پھر شاید آصف علی زرداری کے فون بھی نہیں سناکریں گے۔ 21کے قریب افراد ٹارگٹ پر ہیں۔
منصوبہ یہ ہے کہ مارچ 2016ء کے اختتام تک یہ سب یک جا ہوکر ’’بھٹو اور بے نظیر کی جماعت کے احیائ‘‘ کے نام پر ’’زرداری لیگ‘‘ کی کرپشن کے خلاف اعلانِ جہاد کردیں۔ صوبائی رہ نمائوں کی اتنی بڑی تعداد جرأت وبہادری کے تازہ ایڈیشن یعنی ذوالفقار مرزا کی دبنگ قیادت تلے یکجا ہوگئی تو شاید قائم علی شاہ اپنی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کرنے پر مجبورہوجائیں۔ وہ مجبور کردئیے گئے تو صوبائی اسمبلی کے لئے نئے انتخابات کروانا پڑیں گے۔ ذوالفقار مرزا کی نئی جماعت سندھ کے اصلی اور وڈے پیر پگاڑا کی جماعت کے ساتھ مل کر مجوزہ انتخابات میں مشترکہ امیدوار کھڑے کرے گی۔
منصوبہ سازوں کو یقین ہے کہ اگر ایسی صورت بن گئی تو دیہی سندھ کے چند حلقوں میں شاید پیپلز پارٹی کو امیدوار بھی نہ ملیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کاجواب مجھے منصوبہ سازوں کے حقیقی یا اپنے تئیں ترجمان بنے حضرات ابھی تک فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ بہت رعونت کے ساتھ مجھے یاد بس یہ دلایا جاتا ہے کہ اس ملک کی سیاست میں بالآخر منظر وہی بن جاتا ہے جو ’’وہ‘‘ چاہتے ہیں۔
’’وہ‘‘ تک مجھے رسائی نصیب نہیں۔ اپنے گھر میں اکیلے بیٹھا What Nextوالے بیہودہ سوالات اٹھاتا رہتا ہوں جن کے جوابات نہیں مل پاتے۔ اپنی کوتاہ فہمی پر ندامت ہوتی ہے۔ میرے بے پیر من میں اکثر یہ خواہش مچل اٹھتی ہے کہ عصر حاضر کا کوئی عارف مل جائے۔ اس کے ہاتھ پر بیعت کروں اور کشفِ عارف سے بھیک مجھے کچھ سوالوں کے جواب کی صورت یوں عطا ہو جیسے کچھ سوالوں کے بارے میں گوگل کا سرچ بٹن دباکر میسر ہوتی ہے۔
کسی عارفِ عصر کی شفقت سے محروم میرا بھٹکا اور پریشان ذہن ان دنوں بس سوچ رہا ہے تو صرف اتنا کہ ذوالفقار مرزا کی صورت دیہی سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کا صفایا کرنے والا تو دریافت ہو چکا ہے۔ مگر ’’شہری سندھ‘‘ کا کیا ہوگا۔ وہاں ایک جماعت ہوتی ہے نام ہے جس کا ایم کیو ایم۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی اس میں سے ’’ذوالفقار مرزا‘‘ نکالنے کی کوششیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔ بالآخر مناظرِ عام پر آئے آفاق احمد اور عامر خان۔
ایک نہیں دو ’’ذوالفقار مرزا‘‘ باغیوں نے رونق لگائی تو ایم کیو ایم والوں نے 1993ء میں قومی اسمبلی کے لئے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ منصوبہ سازوں کی تسلی کا بندوبست ہوگیا مگر اچانک کسی کو خیال آیا کہ ایم کیو ایم کو مین سٹریم سیاست سے باہر کردیا گیا تو قومی سلامتی کے لئے طویل المدتی مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ایک صاحب ہوا کرتے ہیں امان۔ وہ کراچی میں کسی قومی سلامتی کے ادارے سے وابستہ تھے۔ انہیں حکم ہوا کہ ایم کیو ایم کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔ شاید ان کی ایسی ہنر مندی کے باعث ہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اسلام آباد والے گھر میںقائم دفتر کی سربراہی سنبھالنے پر قائل کردیا۔
آفاق بھائی ان دنوں ٹی وی ٹاک شوز میں اکثر اپنے خیالات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ ’’مہاجر کاز‘‘ سے اپنی وابستگی کی وجہ سے لیکن نشانہ جماعتِ اسلامی اور عمران خان کو بنائے ہوئے ہیں۔
ہوتا دراصل یوں ہے کہ اپنی جماعت سے کئی برس کی رفاقت کے بعد جرأت وبہادری کی علامت بنے افراد کو اپنی ’’دیانت‘‘ ثابت کرنے کے لئے Hard Lineلینا پڑتی ہے۔
اپنی بات سمجھانے کے لئے بھارتی پنجاب کا حوالہ دینے پر مجبور ہوں۔ یہ حوالہ دینے کی وجہ سے میرے ایمان پر خداراشبہ نہ کیجئے گا جو ویسے بھی کافی کمزور ہے اور گھبرائے ہوئے رہتا ہے۔
خیر بھارتی پنجاب پر کسی زمانے میں اکالی دل کا راج ہوا کرتا تھا۔ اس کا توڑ نکالنے کے لئے گیانی ذیل سنگھ نے مجبور کیا اندرا گاندھی کو کہ سرپرستی کی جائے جرأت وبہادری کے ایک پیکر سنت جرنیل سنگھ بھنڈ رانوالہ کی۔ اس کے سرپر ہاتھ رکھا گیا تو بالآخر جٹ وحشی ہوگیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ حال کی طرف لوٹتے ہوئے میں تو صرف اپنے سندھ میں نئے ’’جرنیل سنگھ‘‘ ابھرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

بشکریہ:نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے