وید بھسین: صحافت کا امام چل بسا!

جہاں لالہ ملک راج صراف کو جموں و کشمیر کا پہلا اخبار شائع کرنے کی وجہ سے اس خطے میں بابائے صحافت کا درجہ حاصل ہے، وہیں تاریخ کشمیر وید بھسین کو جدید صحافت کے بانی کے طور پر یاد رکھے گی۔ ان کے زیر ادارت انگریزی اخبار ‘کشمیر ٹائمز‘ نے نہ صرف تفتیشی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف صحافت کو پروان چڑھایا، بلکہ 1955ء سے اسے خطے کا پہلا منظم اور باقاعدہ اخبار بھی بنایا۔ یہ عظیم اور نابغہ روزگار شخصیت86 سال کی عمر میں 6 نومبر کو جموں میں انتقال کرگئی۔ چونکہ میں ایک دہائی تک ‘کشمیر ٹائمز‘ کے دہلی بیورو کے ساتھ وابستہ رہا، اور وید بھسین یا وید جی کے ساتھ کام کرنے کا براہ راست موقعہ ملا، لہٰذا میں ان کی بصیرت، ایمانداری، جرات، دانشورانہ مزاج اور صحافتی دیانتداری کا چشم دید گواہ ہوں۔ ‘کشمیر ٹائمز‘ سے وابستگی سے بہت پہلے، ایک محفل میں وادیٔ کشمیر کے ایک معروف معالج ڈاکٹر مفتی الطاف کو میں نے ایک دن یہ کہتے ہو ئے سنا تھا: ‘اگر وید بھسین مسلمان ہوتا، تو امامت کا حق دار ہوتا‘۔ وہ جموں کشمیر کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ وید جی کے ذہن میں ان گنت واقعات محفوظ تھے۔ چونکہ تاریخ کشمیر سے وابستہ کرداروں کے ساتھ ان کے خصوصی اور قریبی روابط تھے، اس لئے ان کے ساتھ چند پل کی گفتگو میں ہی ایسے دریچے کھل جاتے تھے، جو کہیں بھی کتابوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ 1947ء کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ بقول ان کے ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقہ میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں 19 سالہ وید بھسین پرنس آف ویلز کالج جموں کے طالب علم تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کیلئے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجہ کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناتے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ
اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اوم صراف نے جرات کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔ بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔ جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر ایڈمنسٹریشن کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، انہوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات 15 اگست سے پہلے ہی شروع ہو چکے تھے‘ مگر منظم قتل عام، اور بسو ں اور ٹرکوں سے لوگوں کو اتار اتار کر مارنے کا سلسلہ نومبر میں شروع ہوا، جب زمام اقتدار پوری طرح شیخ صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ ”ہم نے کئی بار ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا‘ مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھیڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے‘‘۔ ان واقعات کی ورق گردانی کرتے ہوئے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے وید جی کی آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی واضح نظر آتی تھی۔ تقریباً نصف صدی بعد بھارت کے ایک مشہور کالم نگار خشونت سنگھ نے ‘ہندوستان ٹائمز‘ میں مہاجن کی متعصب ذہنیت سے متعلق کئی اور انکشافات کئے۔ مہاجن بعد میں بھارت کے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہو گئے تھے۔ خوشونت سنگھ کے مطابق مہاجن نہ صرف مسلم مخالف تھے بلکہ سکھوں سے بھی اس کو خدا واسطے کا بیر تھا۔
80ء کی دہائی میں ‘کشمیر ٹائمز‘ مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوپور میں سکول کی چھٹی کے بعد، میں ہر روز بس ڈپو سے متصل یونیورسل نیوز ایجنسی کے باہر بھیڑ دیکھتا تھا۔ لوگ ‘کشمیر ٹائمز‘ حاصل کرنے کیلئے چھینا جھپٹی کر رہے ہوتے تھے۔ چونکہ اخبار جموں سے شائع ہوتا تھا، اس لئے سوپور اکثر دوپہر کو ہی پہنچتا تھا۔ کئی بار ہجوم کو قابو میں رکھنے کیلئے پولیس کو مداخلت کرنا پڑتی۔ اپنے سات دہائیوں پر محیط صحافتی کیریئر کے دوران وید جی نے لاتعداد صحافیوں کی سرپرستی کی، جو اب قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی موثر آوازیں ہیں۔ جب بھی وہ دہلی آتے، تو ہمیں بلا کر پریس کلب میں چائے یا لنچ کا اہتمام کرتے۔ الگ الگ اداروں میں کام کرتے ہوے بھی وید جی کی وجہ سے، ہم اپنے آپ کو ‘کشمیر ٹائمز‘ فیملی تصور کرتے تھے۔ خبروں کے حوالے سے انہیں چکمہ دینا بہت ہی مشکل تھا۔ وہ اس ٹریڈ کی سبھی ترکیبوں کو جانتے تھے۔ اگر کوئی رپورٹر انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے خبر فائل کرتا تو اس کی خوب خبر لیتے۔ میں خود کئی بار ان کے عتاب کا نشانہ بنا‘ مگر جلد ہی پدرانہ شفقت ان میں عود کر آتی۔ فروری 1984ء میں دہلی کی تہاڑ جیل میں محبوس کشمیری راہنما مقبول بھٹ کی پھانسی کا افشا وید جی نے ہی کیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی خبر تھی‘ جسے دبانے کیلئے ان پر دبائو بھی ڈالا گیا‘ کیونکہ افضل گورو کی طرح، حکومت اس وقت بھی پھانسی دیے جانے تک اس کو انتہائی خفیہ رکھنا چاہتی تھی۔ پھانسی دینے سے پانچ دن قبل 6 فروری کو جموں اسمبلی کمپلیکس میں ایک چھوٹے سے قد کا سانولا شخص وارد ہوا، جسے تیزی کے ساتھ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے چیمبر میں لے جایا گیا۔ جلد ہی وزیر قانون اور پولیس کے سربراہ بھی چیمبر آن پہنچے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے، وید جی کہتے ہیں کہ پہلے تو انہیں یہ ایک روٹین میٹنگ لگی، مگر بلڈنگ سے نکلتے ہی انہوں نے چیف جوڈیشل آفیسر، ٹھاکر پوتر سنگھ کو‘ جو اس وقت ایک سیشن جج تھے‘ گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان کو بھی وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں پہنچایا گیا‘ جس سے ان کی حس خبر پھڑک اٹھی۔ اسی دوران ان کو معلوم ہوا کہ جموں ایئرپورٹ پر کسی وی وی آئی پی کو دہلی لے جانے کیلئے انڈین ایئرلائنز کے طیارے کو انتظار کرایا جا رہا ہے۔ آخر ایک گھنٹہ کے بعد سانولا شخص، جو بھارت کی وزرات داخلہ کا ایک افسر تھا، ہاتھ میں بریف کیس لئے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ بعد میں پوتر سنگھ نے وید جی کو بتایا کہ ان سے چیمبر میں ایک طرح سے زبر دستی ڈیتھ وارنٹ پر دستخط لئے گئے۔ وہ پہلے مصر تھے کہ یہ ایک عدالتی کارروائی ہے، جو عدالت میں یا زیادہ سے زیادہ جج کے چیمبر میں ہونی چاہئے تھی۔ بہرحال اگلے دن ناصرف یہ ‘کشمیر ٹائمز‘ کی بڑی خبر تھی، بلکہ سرینگر کے بیوروچیف ظفر معراج کو بھی انہوں نے ہدایت کی کہ سینئر وکلا سے مشورہ کرکے اور ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے رجوع کرکے سزائے موت کو رکوانے کا انتظام کریں‘ مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔
2002ء میں دہلی میں مجھے آفیشل سیکرٹ ایکٹ جیسے سنگین قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ‘کشمیر ٹائمز‘ کا ملازم تھا۔ وید بھسین نے میرے دفاع کا بیڑا اٹھایا‘ انہوں نے ناصرف میری تنخواہ جاری رکھی، جس سے میری اہلیہ گھر کا خرچ چلاتی تھیں، بلکہ انہوں نے اپنی بیٹی انورادھا اور داماد پربودھ جموال کو دہلی بھیج کر کسی معروف وکیل کی خدمات لینے کیلئے بھی کہا۔ اگلے آٹھ ماہ میرے کیس کی پیروی مشہور وکیل وی کے اوہری نے کی اور ان کو محنتانہ کشمیر ٹائمز نے ادا کیا۔ میرا تجربہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اکثر آپ کی آرگنائزیشن مختلف وجوہ کی بنا پر ساتھ چھوڑ دیتی ہے‘ مگر ‘کشمیر ٹائمز‘ نے ناصرف آخر تک میرا ساتھ دیا، بلکہ جیل واپسی کے بعد‘ نارمل زندگی کی طرف لوٹنے میں بھی میری مدد کی۔ 1996ء سے لے کر 2002 ء تک فاروق عبداللہ کی حکومت نے ‘کشمیر ٹائمز‘ کے ریاستی اشتہارات بند رکھے۔ 2008ء کی امر ناتھ ایجی ٹیشن‘ اور
بعد میں 2010ء میں کشمیر میں برپا عوامی احتجاج کے بعد تو بھارتی وزارت داخلہ نے باضابطہ ایک حکم نامہ، تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو جاری کیا کہ کشمیر ٹائمز چونکہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لئے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے؛ حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دور رہیں۔ مجھے دہلی میں کئی بار حکومتی اداروں کے ذمہ داران نے کہا کہ وید جی کو وزیر اعظم من موہن سنگھ یا وزیر داخلہ پی چدمبرم سے ملنا چاہئے، مگر وید جی صرف اشتہارات بحال کرانے کیلئے وزیروں سے ملنے پر کبھی راضی نہیں ہوئے۔ دنیاوی نقصانات سہنے کے باوجود اس درویش کی گردن خم نہ ہوئی‘ حالت یہاں تک پہنچی کہ چند سال قبل انہیں سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑا۔ ‘کشمیر ٹائمز‘ کی سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ مگر اقدار اور اصولوں پر کبھی اس درویش نے حرف نہ آنے دیا۔
‘کشمیر ٹائمز‘ کی ایک سابق ساتھی اور اب بھارت کی مشہور صحافی آشا کھوسہ کے بقول، وید جی نے ہمیں اصولوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہ کرنے کا درس دیا۔ انہوں نے ہمیشہ یہی تلقین کی کہ میڈیا کو اختلاف رائے کا ذریعہ بنائو اور حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے ہر وقت اس کا احتساب کرتے رہو‘ چاہے تمہارے دوست ہی حکومت میں کیوں نہ ہوں۔2003ء میں جب ان کے دیرینہ دوست مفتی محمد سعید کی حکومت آئی تو ان پر سب سے زیادہ وار بھی وید جی نے ہی کئے۔ ان کی ہیلنگ ٹچ پالیسی کو وید جی نے ایڈیٹوریل میں ٹچ پالیسی قرار دیا۔
پیارے وید جی! اب آپ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ جموں میں اب کوئی زندہ آستانہ نہیں ہے، جہاں میں عقیدت نچھاور کرنے آ سکوں۔ میں نے زندگی بھر آپ کا درس نبھانے کی کوشش کی مگر آپ کے اقدار اور اصول میرے قد سے خاصے بلند ہیں۔ آ پ کی موت نے ایک بڑا خلا پیدا کیا ہے، جسے پر کرنا ناممکن ہے۔ مجھے آپ سے ایک شکایت ہے، میرے اور دیگر دوستوں کے اصرار کے باوجود آپ نے اپنی یادداشتیں تحریر نہیں کیں، جبکہ آپ کی بدولت کتنے ہی افراد صاحب کتاب ہوئے۔ اے صحا فت کے امام، کشمیر کی تاریخ تمہارے بغیر ادھوری ہے۔
بشکریہ:روزنامہ دنیا
Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے