ویڈیوجعلی تھی!

یہ چندلفظوں پرمشتمل ایک خبرہے جوملک کے اکثراخبارات میں سنگل کالم شائع ہوئی ہے جس کی وجہ سے کسی کوکانوں کان خبرتک نہیں ہوئی حالانکہ تقریباسات سال قبل جب مبینہ طورپریہ ویڈیومنظرعام پرآئی تھی تواخبارات نے اسے لیڈسٹوری کے طورپرشائع کیاتھا ۔اس پرسینکڑوں کالم ،سپیشل ایڈیشن اورخصوصی صفحات شائع کیے گئے تھے ۔موم بتی مافیابھی اسی وقت منظرعام پرآیاتھا، جس نے اس ویڈیوکے خلاف چندگنے چنے افرادپرمشتمل ’’بھرپور‘‘احتجاج کیاتھا ۔ این جی اومافیانے اس ویڈیوکوجوازبناکرپورے ملک میں شوروغوغامچایاتھا۔ طالبان کوجاہل ،دہشت گرد اور انتہاپسندقراردلانے کے لیے ویڈیوکوبطورمثال پیش کیاگیاتھا ۔ یہ ویڈیوہی تھی کہ جس کی وجہ سے ملکی داخلہ پالیسی تبدیل ہوگئی ۔ طے پانے والے معاہدے ختم ہوگئے۔ مذاکرات کی میزکواُلٹادیاگیا ۔ پھولوں کے تبادلے کی بجائے بارودکی بوہرطرف پھیل گئی۔ سوات کی وہ حسین وادی جہاں کے مسحورکن نظارے لوگوں کومبہوت کردیتے تھے، وہاں خوف کے سائے چھاگئے تھے ۔ اس ویڈیونے جہاں سینکڑوں لوگوں کے گھراجاڑے وہاں درجنوں افرادکی تجوریاں بھی بھریں۔ اس ویڈیوکے بعد جہاں ایک طرف ملالہ منظرعام پرآئی وہیں دوسری طرف ملافضل اللہ کانام بھی سامنے آیا۔ یہ دونوں کرداراگرچہ فی الحال ملک میں نہیں ہیں مگراس وقت بھی ملک میں کئی ملالائیں اورملافضل اللہ موجود ہیں مگرنہ کسی کوکوڑے مارے جارہے ہیں اورنہ ہی کوئی ویڈیومنظرعام پرآرہی ہے وجہ صاف ظاہرہے کہ مقصدپوراہوچکا ہے اور کام نکل چکاہے

[pullquote]آج لوگ اس ویڈیواوراس سارے واقعے کوبھول چکے ہیں ۔ لوگوں کے ذہنوں سے وہ واقعہ محوہوچکاہے کیوں کہ ہمیں عادت ہے جلدی بھول جانے کی ۔ویسے بھی اس واقعے کوسات سال کاعرصہ گزرچکاہے ،یہ ایک بھولی بسری داستان ہے۔ جب اخبار پڑھتے ہوئے میری توجہ اس سنگل کالم خبرپرپڑی تومیں ساری خبرپڑھنے پرمجبورہوگیا مگرتفصیل بھی دوسطروں سے زیادہ نہ تھی۔ تفصیل بس اتنی تھی کہ سوات میں سترہ سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو بالا خر جعلی ثابت ہوئی۔ عدالت عظمی نے سوات میں چاند بی بی کو کوڑے مارنے سے متعلق ویڈیو کے جعلی ثابت ہونے پر لئے گیے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا ہے۔
[/pullquote]

17سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی یہ جعلی ویڈیو 3 اپریل 2009 کو منظر عام پر آئی تھی۔ بس کیس نمٹادیایاگویاتاریخ نمٹادی گئی ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی نہیں پوچھاکہ اگریہ ویڈیوجعلی تھی توجن لوگوں نے یہ منظرعام پرلائی تھی، ان کامحاسبہ کون کرے گا ؟سات سال سے بہنے والے خون کاحساب کس سے لیاجائے گا ؟آج موم بتی مافیاکیوں خاموش ہوگیاہے ؟آج وہ اسلام آبادکی سڑکوں پرنظرکیوں نہیں آتے ؟آج چینلزاس ویڈیوپرپروگرام کیوں نہیں کررہے ؟آج سات سال بعد یہ ویڈیویک دم غیراہم کیوں ہوگئی ہے ؟کوئی توان سوالوں کے جواب دے ؟کوئی توبتائے ؟ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی ایک این جی اوسے تعلق رکھنے والی خاتون ثمر من اللہ نے اس کا چرچا کرنا شروع کردیا تھا۔آج وہ ثمرمن اللہ کہاں ہے ؟آج وہ آرام سے کیوں بیٹھی ہوئی ہیں ؟آج ان کے دل کوکیسے سکون آگیاہے ؟سوالات ہیں کہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہے مگرجواب دینے والاکوئی نہیں ۔

[pullquote]میں نے بہت کوشش کے بعد میں نے اس خبرکی مزیدتفصیل پڑھنے کی کوشش کی مگراس سے زیادہ کچھ نہیں تھا البتہ ایک آدھ اخبارمیں کچھ تفصیلات تھیں ،جس میں لکھاگیاتھا کہ اس مقدمے کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے کی۔جس میں جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ گلہ بان بچی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی تھی جسے میڈیا پر ریلیز کیا گیا۔یہی کچھ حکومتی وکیل نایاب گردیزی نے عدالت کو بتایا کہ وہ ویڈیو جعلی نکلی تھی۔ چاند بی بی اور اس کے خاوند نے بیان دیا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ مگر یہ حقیقت اول روز سے ہی عیاں تھی۔پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں اس معاملے کو فیصل ہونے میں سات برس لگ گئے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکاہے۔
[/pullquote]

ہمیں اس وقت بتایاگیاتھا کہ چاند بی بی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو موبائل فون سے بنائی گئی ہے اس لیے زیادہ صاف نہیں ہے ۔اس ویڈیوکا دورانیہ دو منٹ تھا۔ ویڈیو میں سرخ جوڑے میں ملبوس ایک جواں سال لڑکی کو دکھایا گیا تھا جسے زمین پر الٹا لِٹاکر کوڑے مارے جارہے تھے۔ ویڈیو میں اس بات کا التزام کیا گیا تھا کہ لڑکی کو کوڑے مارنے والے لوگ شکل وصورت سے طالبان کے حلیے کے محسوس ہوں۔ چنانچہ طالبان کے حلیے میں ایک شخص لڑکی کو پشت پر کوڑے برساتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ ایک دوسرے شخص نے لڑکی کے پیروں کو پکڑا ہوا تھا اور تیسرے شخص نے جسم کے اوپر کے حصے کو دبوچا ہوا ہے۔ اس موقع پر درجنوں افراد دائرے میں کھڑے اس منظر کو براہِ راست دیکھ رہے تھے۔ سزا دینے والے افرادپشتو زبان میں بات کررہے تھے۔ اور لڑکی بھی چیختی چلاتی پشتو میں فریاد کر رہی تھی ۔ اس کے الفاظ یہ تھے کہ "میرے باپ کی توبہ، میرے دادا کی توبہ آئندہ ایسا نہیں کرونگی۔”ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ پندرہ سے زائد کوڑے مارنے کے بعد لڑکی کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور لڑکی فورابعد شٹل کاک برقعہ میں ملبوس نظر آتی ہے۔ اسی وقت وہاں موجود بڑی داڑھی والا ایک شخص اس لڑکی کو قریب واقع ایک کمرے میں لے جاتا ہے۔

یہ وہ کہانی تھی جواس وقت قوم کوسنائی گئی تھی۔ یہ کہانی کچھ اس طرح بیان کی گئی تھی کہ ہرایک نے اس ویڈیوکودرست تسلیم کیا۔ میڈیاکے اس شوروغوغے میں کسی کوتوفیق نہیں ہوئی کہ وہ تصویرکادوسرارخ بھی بیان کرے ۔ ہمارے وہ تحقیقاتی جرنلسٹ جوپوری دنیاکواپنی عینک کی آنکھ سے دیکھ لینے میں مہارت رکھتے ہیں ، انہوں نے اس ویڈیودرست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازورلگایا مگرفریق مخالف اگرکوئی تھا تواس کامؤقف لیناتک گوارہ نہیں کیا۔

[pullquote]ایک تحقیقاتی رسالے’’ وجود‘‘ کے مطابق مذکورہ جعلی ویڈیو کو سامنے لانے والی ایک خاتون ثمر من اللہ تھی ،جو خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک این جی او سے تعلق رکھتی تھی۔ ثمر من اللہ نے دعوی کیا تھا کہ جن افراد نے لڑکی کو پکڑا ہے، ان میں خود اس کا اپنا بھائی بھی شامل ہے۔ثمر من اللہ نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ اس معاملے میں مرکزی کردار لڑکی کے پڑوسی نے ادا کیا ہے۔وہ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ٹیلی ویژن پر منفی پروپیگنڈے کے حوالے سے چیخ وپکار کرنے میں سب سے نمایاں تھیں۔ ان کے بعدطاہرہ عبداللہ نامی ایک خاتون نے بھی اس معاملے پر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خاتون طاہرہ عبد اللہ نے اس موقع پر یہ کہا تھا کہ طالبان کا یہ عمل غیر انسانی ہے۔
[/pullquote]

جہاں تک ویڈیوکے جعلی اورغلط ہونے کاتعلق ہے تواس وقت بھی کچھ سرپھرے ایسے تھے کہ جنھوں نے کہاتھا کہ یہ ویڈیوجعلی ہے مگر’’سچائی‘‘ کی اس دنیامیں ’’جھوٹ ‘‘کون سنتاہے ؟حالانکہ ویڈیو کے جعلی ہونے کا ثبوت ویڈیو کا تکنیکی جائزہ تھا۔ جو ماہرین نے اسی وقت پیش کر دیا تھا۔ مگر تب کسی نے اس پر دھیان تک نہیں دیا۔ خود ویڈیو میں کوڑے کھانے والی لڑکی کے متعلق کبھی یہ درست طور پر پتہ نہیں چل سکا کہ اسے کوڑے کیوں مارے گئے۔ اس کی وجوہات پر الگ الگ دعوے ہوتے رہے۔ اور جس لڑکی کوکوڑے مارے گئے، وہ لڑکی کون تھی ؟ اس پر بھی الگ الگ لڑکیا ں سامنے آتی رہیں۔ ابتدا میں کہا گیا کہ جس لڑکی کو ڑے مارے گیے، وہ چاند بی بی تھی اور وہ کنواری تھی۔ پھر بتایا گیا کہ نہیں وہ تو شادی شدہ ہیں۔

اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ایک اور خاتون سائرہ بی بی منظر عام پر آئیں، جس نے یہ دعوی کیا کہ ویڈیو میں دکھائی جانے والی لڑکی چاند بی بی نہیں بلکہ وہ خود ہے اور وہ کنواری نہیں بلکہ اس کے دوبچے بھی تھے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے چاند بی بی کے حوالے سے یہ دعوی بھی ہو چکا تھا کہ وہ کنواری ہے اور اسے شادی سے انکار پر کوڑے مارے گیے تھے۔ دو بچوں کی ماں سائرہ بی بی نے چار باغ میں ایک مقدمہ بھی درج کروایا تھا جس میں فضل ہادی نامی ایک شخص کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس کردار کا ذکر اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

الغرض مذکورہ ویڈیو کے پہلے دن سے ہی جعلی ہونے کی حقیقت سب کے علم میں تھی۔اس وقت کے کمشنر مالاکنڈ سید محمد جاوید نے ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اپنے عملے کے ساتھ علاقے کا دورہ کیا تھاتاکہ ویڈیوکے متعلق اصل حقائق کا سراغ لگایا جا سکے۔ تب کمشنر مالاکنڈ نے تحقیقات کے بعد ہی اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی ہے۔اس طرح کا کوئی حقیقی واقعہ سرے سے سوات میں پیش ہی نہیں آیا تھا۔جعلی ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے پندرہ روز بعد تب کے وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے بھی یہی کہا تھا کہ سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی ہے۔ طالبان سوات کے اس وقت کے ترجمان مسلم خان نے اس ویڈیو کو تب ایک سے زیادہ مرتبہ جعلی کہا تھا۔ انہوں نے اپنے ردِ عمل میں اس کے دو مقاصد بیان کئے تھے۔ مغرب زدہ این جی اوز ویڈیو کے ذریعے اسلام کو بدنام کر رہی ہیں۔ اور طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں باتیں درست ثابت ہوئیں۔ مگر اس معاملے نے اس سے بھی بڑا ایک نقصان کیا تھا۔جس کا اندازہ پاکستان کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقے تب لگا نہیں سکے تھے۔

[pullquote]میں اس حوالے سے ’’وجود‘‘ کی اس رپورٹ کاہی سہارہ لے رہاہوں، جس میں تلخ حقائق کوکھول کھول کربیان کیاگیاہے۔ اس میں لکھاگیاہے کہ طالبان نے تب طے کر لیا تھا کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ ان کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈے میں فریق ہیں۔ انہیں دونوں طرف کے موقف سننے کے بعد سچائی کو سامنے لانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے رفتہ رفتہ پاکستان کے اندر جاری مختلف معاملات میں اپنی پوزیشن کی وضاحت تک کرنے کے عمل میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کو ان قوتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا جو اِس پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی مرضی کا رخ دینا چاہتی تھیں جس طرح کے ویڈیو کے ذریعے کیا گیا تھا۔
[/pullquote]

اس نقصان نے پاکستان کے عوام کو پروپیگنڈے کی یلغار میں کسی دوسرے متبادل نقطہ نظر کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔ اس نے خود طالبان کی صفوں میں بھی ایک نہایت منفی ردِ عمل پیدا کردیا اور وہاں ایسے لوگ جگہ بنانے میں رفتہ رفتہ کامیاب ہوتے چلے گے ،جو ریاست پاکستان پر اپنا اعتماد کھو چکے تھے۔ اور جنگ میں ہر چیز کوجائز سمجھتے تھے۔ انہوں نے پھر موقع ملتے ہی نئی نئی قیامتیں بھی ڈھائیں ۔

[pullquote]دوسری طرف اس کا نقصان یہ ہوا کہ جعلی ویڈیو کے بنائے گیے مصنوعی تاثر میں حکومت اور طالبان میں ہونے والا امن معاہدہ ختم ہو گیا۔ اور فوج نے سوات میں "آپریشن راہ راست”شروع کیا۔ جس کے بعد سوات میں کئی لاکھ لوگ بے گھر ہوگیے اور ان میں مملکت کے خلاف منفی جذبات پیدا ہوگیے۔ یہ لوگ اور ان کے بچے بعد میں طالبان کے لئے سب سے نرم چارہ ثابت ہوئے اور اگلے برسوں میں بھڑکائی گئی
[/pullquote]

ہر آگ کا ایندھن یہی لوگ بنے۔ پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں میں اضافہ بھی اس آپریشن کے بعد ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ خود کش حملے 2009 میں ہی ہوئے۔ جن کی تعداد 76 تھی۔عالمی سطح پر اس جعلی ویڈیو کو ذرائع ابلاغ نے زبردست پذیرائی دی اور اِسے پاکستان کی چھوی (امیج) کو بگاڑنے کے لئے بری طرح استعمال کیا۔

سوات کی اس ویڈیو نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ریاستی دانش معاملات کے ادراک میں تہی دامن ہے ۔ اور کچھ مغرب نواز این جی اوز اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے خود ریاست کو بھی گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ پروپیگنڈے کے گردوغبار میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ۔ رحمن ملک نے ویڈیو کے اصلی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے سب سے انوکھی دلیل یہ دی کہ اب تک کوئی ایسا شخص ان کے سامنے نہیں آیا جو یہ کہہ سکے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔ اس لئے ویڈیو اصلی ہے۔ انہوں نے کمشنر مالا کنڈ کی تردیداور ماہرین کی طرف سے ویڈیو کے تکنیکی جائزے کو مکمل نظر انداز کردیا۔سب سے زیادہ طوفان اس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اٹھایا ۔ اور مذکورہ ویڈیو کے سامنے آنے کے صرف تین روز بعد 6 اپریل 2009 کو اس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ یہی وہ نوٹس تھا جسے فیصل ہونے میں سات برس لگ گے ۔ اس دوران پروپیگنڈے کے جتنے بھی مقاصد مطلوب تھے، سب حاصل کئے جا چکے ہیں۔ اور یہ معاشرہ بری طرح تقسیم ہو چکا ہے

آخری سوال

[pullquote]اب اس ویڈیو کے جعلی ثابت ہونے کے بعد اس کو اصلی ثابت کرنے والے اصل جعلسازوں کو کو ن سزا دے گا؟ اس کے پیچھے مقاصد کو کون افشا کرے گا؟اس سے پیدا ہونے والی نفرت کا ازالہ کب ہوگا؟ سوات آپریشن ، لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی، مملکت میں پیدا ہونے والی تقسیم کی گہری لکیریں، ریاست کی پروپیگنڈے کے ذریعے یرغمالی اور عدلیہ میں فیصلے کی تاخیر سے پہنچنے والے مسلسل نقصانات کی ذمہ داری کون لے گا؟۔ویسے یہ بھی جان لیں کہ اس ایشوکوسب سے زیادہ جس خاتون ثمرمن اللہ نے ہائی لائٹ کیاتھا وہ اسلام آبادہائی کورٹ موجودہ جسٹس جناب اطہرمن اللہ کی بہن ہیں ۔ یہ وہی اطہرمن اللہ جوسابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی برطرفی کے دوران ان کے ترجمان کے طورپرسامنے آئے تھے ۔ہم یہ مقدمہ جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں پیش کررہے ہیں اوریہ تمام سوالات بھی ان کے لیے چھوڑرہے ہیں ۔۔اس امیدکے ساتھ کہ وہ اس کافیصلہ ضرورکریں گے ![/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے