پانامہ لیکس پر سیاست ؟؟؟

اختلاف اگر مثبت ہوتو ترقی کی نئی راہیں کھولتاہے اور اگر اختلاف برائے اختلاف ہو تو معاشرے میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ اختلاف میں دونوں فریقوں کی نظر دلیل پر ہوتی ہے اور مخالفت میں دونوں فریقوں کی نظر دوسرے کو بدنام کرنے پر ہوتی ہے۔ انسانی فطرت ہے جب ہمیں کوئی انسان بُرا لگتا ہے تو اِس کی ہر بات بُری لگتی ہے ۔ہمارے ہاں بحث برائے بحث اور زاتی مفادات کے حسصول کے لیے ہوتی ہے کیونکہ اختلاف ہی ہمارا بنیادی حدف ہوتاہے۔

پاکستان میں حکومتیں اپنی نا اہلی اور نا قابلیت کی وجہ سے گرداب میں پھنسی رہتی ہے۔کرپشن اسکینڈل۔ ریمنڈ ڈیوس کیس۔ وکی لیکس۔ میمو گیٹ۔ کراچی ٹارگٹ کلنگ۔ این آر او۔ تو ہین عدالت۔ سوئس۔ رینٹل پاور۔ ایفیڈرن اسکینڈل۔ نندی پاور پروجیکٹ۔ میٹروبس۔ ماڈل ٹاﺅن۔پانامہ لیکس۔ مختلف معاملات کی وجہ سے مسائل اور اُٹھتے طوفان کی وجہ سے حکومتوںکی توجہ اور توانائیاں مُلک کی تعمیر و ترقی میں کم اورخود کو سچا ثابت کرنے صرف ہوتی ہیں اور مخالفین بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی اولین ترجیح ہوتی ہے کسی نہ کسی طرح حقائق مسخ کیا جائے۔ عرصہ دراز سے پاکستان میں الزام در الزام کی سیاست عروج پر ہے۔سیاستکاری کے ماہر پیالی میں طوفان کھڑا کرتے ہیں لیکن گزرتے دِن کے ساتھ یہ طوفان تھم جاتا ہے اور جب تک دوسراطوفان کھڑا نہیں ہوتا میڈیا پر بحث و مباحشہ جاری رہتا ہے۔ حکومت کی آراءسے نہ مخالفین مطمئن ہوتے ہیں اور نہ ہی مخالفین ہار مارننے کو تیار۔طرح طرح کی صفائیاں اور تشریحاں سُننے کو ملتی ہیں۔روز ایک نئی بحث جنم لیتی ہے اوربے نتیجہ ختم ہوجاتی ہے اور مخالفین کے بلند و بانگ دعوے، وعدے سب دھرے کے دھرے رہے جاتے ہیں۔ بغیر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم شدہ ۔

اِس بار بھی صورتحال ماضی سے مختلف نہیں۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر مُلک میں سیاسی تماشہ اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ ایک نا ختم ہونے والی جنگ چھڑ ی ہوئی ہے۔الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف تندوتیز بیانات شائع ہورہے ہیں۔ لاءحاصل گفتگو، تبصرے ، تجزیہ اور تشر یحا ت کا سلسلہ جاری ہے۔ پانامہ لیکس پراور غیر زمہِ درانہ طرزِ سیاست نے اِس مسلے ¾ کو مکمل طور پر سیاسی بناڈالا۔ ایسا لگتا ہے کہ بحرانِ مسلسل کے بنیادی محرک اور فتنہ و فساد کا اصل مقصد کرپشن سے نہیںبلکہ منتخب جمہوری حکومت سے چھٹکارا پانا ہے۔ پارلیمانی بالادستی کے گیت گانے والوں کی شدید خوائش ہے کہ جمہوری سسٹم جلد از جلد زمیں بوس ہوجائے۔وقت بڑا بے رحم ہے ۔ تین سال سے منتشر حزبِ اختلاف یکجا تو ہوگئی ہے جمہوری حکومت کے خلاف جمہوری اتحاد معرضِ وجود میں آچکا۔ اتفاق ہو نا سوالیہ نشان ہے۔

کڑوا سچ ہے کہ چند دِن پہلے تک حزبِ اختلاف میں شامل مختلف جماعتوں کے اراکین ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برساتے نہیں تھکتے تھے۔ ایک دوسرے کو مختلف القابات سے نوازا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کی کرپشن داستان چیخ چیخ کر بیان کیا جاتا تھا۔ جلسوں میں للکارہ جاتا تھا۔ عوامی نمائندے ٹی وی ٹالک شوز میں اخلاقی اقدار کی حد پار کر کے ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ مگر آج ایسا کیا ہوگیا کہ ماضی کے حریف گرمجوشی کے ساتھ بغلگیر ہیں۔ عجب تماشہ ہے شور وہ لوگ مچا رہے ہیں جن پر سب سے زیادہ مالی بدعنوانی اور اقرباپروری کے الزامات اور کیسس ہیں۔ آج کے اتحادی اپنے ماضی میں جھانکنے کی زحمت نہیںکرر ہے۔ اخلاقی جواز کی بات پر ہرزُباں پر ہے۔ کاش لوگ اپنی ناقص یاداشت کو کو پھر سے توانا کر لیں تو یہ سیاسی تماشہ اختتام پزیر ہوجائے۔ معاملہ اتنا پیچید ہ نہیں ہے مگر اِس کھیل کے اپنے تقاضے بھی ہیں۔ حزبِ اختلاف باخوبی واقف ہے کہ اِس میں سے کچھ نہیں نکلنا۔ TORs کی تشکیل پر حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کی سوچ یکسا ں ہے۔ اپنے لوگوں کے بچاﺅ اور ذاتی مفاد کے تحت TORsبنائے جارہے ہیں۔کرپشن کرپشن کا ڈرامہ جاری ہے۔

اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت میں سو خرابیا ں ہیں۔ حکومتی اراکین بھی کرپشن میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ مگر حزبِ اختلاف پہلے اپنی صفوں سے بھی بدعنوان عناصر خارج کرے تب ہی کرپشن کے خلاف مہم کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر حقیقتاً سیاسی جماعتیں کرپشن کے خاتمے پر سنجیدہیں تو سیاست برائے سیاست سے گریز اور ماضی کی تلخیوں کو بُھلا کر سنجیدگی سے وطنِ عزیز سے کرپشن کے ناسور ختم کرنے کی قانونی اور آئینی جدوجہد کریں۔ اِس طرح جماعتیں بھی بدعنوان عناصر سے پاک اور ملک بھی۔ کسی بھی معاشرے میں اِس سے بڑھ کر کوئی نقصان دہ چیز نہیں ہوسکتی کہ جب کسی کو کسی سے زاتی عناد ، رنجشی یا اختلاف ہو تو وہ جنگ میں سب کچھ حلال ہے کا ابلیسی اصول اختیار کر لے۔ ایک دوسرے پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات کی یلغار کرے۔ جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے اِس کے نقطہ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہوتو اِسے غدار اور دشمن وطن ٹہرائے، بحیثیت پوری قوم کا نقصان ہے۔ جس سے بالآخر خود وہ لوگ بھی نہیں بچ سکتے جو اختلاف کے اِس بیہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔

کچھ زکر خاص میڈیا کا کرتے ہیں۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے پاکستان میں میڈیا کے کچھ عناصرہمہ وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوجائے یا پھر کمزور پڑجائے۔ موجودہ صورتحال میں میں میڈیا کا کردار بھی جانبدار ہے۔ صحافی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا کے کچھ عناصر نے پوری طاقت کے ساتھ حکومت وقت پر یلغار کی ہوئی ہے۔ حکومت کے اچھے کاموں اور مثبت اقدامات کو بھی غلط پیرائے پر نشر کرکے تنقید کے نشتربرسا ئے جارہے ہیں۔ نام نہاد صحافی ایجنڈے کے مطابق تجزیے ، تبصرے و تشریحات بیان کر رہے ہیں۔ سول اور عسکری کے درمیان محاز آرائی کی کیفیت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ پیمرا کچھ وقت لے لیے محترک ہو ا تھا مگر پھر سے ماضی کا میڈیا سر اُٹھارہا ہے۔ خاکسا ر نے کچھ دِن پہلے اپنے کالم میں تحریر کیا تھا کہ اگر پیمرا نے صرف نوٹسز پر اکتفا کیا تو نہ ہی نوٹس کیااہمیت رہےگی اور نہ ادارے کی اتھارٹی کی۔ یقین جانئے میڈیا کا یہ کردار دُنیا کے جمہوری ممالک میں نہیںہوگا۔ حکومتی کی غلط پالیسز پر انتہاءتک تنقید کی جاتی ہے لیکن وقت سے پہلے حکومت کوختم کرنے کی مثال نہیں ملتی ۔

جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں، مذہبی و سیاسی جماعتیں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہئے وہ ہے صداقت اور باہمی انصاف۔ اختلاف اگر ایمانداری کے ساتھ ہو، دلائل کے سا تھ ہواور اِسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح مختلف نقطہ نظر اپنی صیحح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انہیںدیکھ کر خود رائے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ اِن میں سے کس کو قبول کریں ۔ بد قسمتی سے نارواداری اور بدگمانی اور خودپسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وبائے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اِس کے ارباب اختیار مبتلا ہیں، سیاسی پارٹیاں اِس میں مبتلا ہیں، مذہبی گروہ اِس میں مبتلا ہیں، اخبار نویس اِس میں مبتلا ہیں حتیٰ کہ بستیوں اور محلوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک میں اِس کے زہریلے اثررات اتر گئے ہیں۔ اِس کا مداوا صرف اِس طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرز عمل سے لوگوں کو تحمل، برداشت اور وسعت ظرفی کا سبق دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے