پاکستانی ٹرمپ؟

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا خوشحال، خوش پوش، پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ عمران خان کی اصل طاقت ہے۔ اس طبقے کے لوگ زیادہ تر شہروں میں رہتے ہیں۔ وہ دیہات جو شہروں سے قریب ہیں وہاں بھی عمران خان پر اعتماد کرنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ میری رائے کے مطابق یہ زیادہ تر 18 سال سے 50 سال تک کی عمرکی خواتین و حضرات ہیں۔ ان لوگوں کی اگر پاکستان کی مجموعی آبادی کے تناسب سے تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ کل آبادی کا تقریباً 15 فیصد بنتے ہیں جبکہ شہری آبادیوں کے حساب سے یہ تناسب تقریباً 50 فیصد بنتی ہے۔ یہ یقیناً بہت بڑی تعداد ہے اور اگر ان کا ووٹ منظم انداز میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے حق میں استعمال ہو گیا تو تحریک انصاف کی کامیابی یقینی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے چاہنے والے خوش پوش ووٹر سیاست کے اتار چڑھاؤ سے بالکل نابلد ہیں۔ خود عمران خان انتخابی سیاست میں کوئی بہتر پلان آج تک سامنے نہیں لا سکے۔ حلقے کی سیاست کو سمجھے بغیر الیکشن جیتنا بالکل ناممکن ہے۔ پھر عمران خان کا ووٹر بکھرا ہوا ہے جسے کسی زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ ہی فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔ اس مرتبہ چونکہ دیگر پارٹیوں سے بہت سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں اور وہ سب کے سب الیکشن لڑنے کے خواہشمند ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ ابھی تحریک انصاف کے حقیقی ووٹرنے انہیں دل سے تسلیم نہیں کیاہے۔ بہت سے انتخابی حلقوں میں دوسری پارٹیوں سے آنے والے بڑے نام پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے متمنی ہیں اور وہ جنہوں نے عرصہ دراز سے ان حلقوں میں پی ٹی آئی کا جھنڈا بلند کر رکھا ہے اور پارٹی ٹکٹ اپنا حق سمجھتے ہیں، بہت بے چین ہیں۔ یہ تنازعہ ابھی سے زور پکڑ چکا ہے اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
بیشتر کالم نویس اور تجزیہ نگار آئندہ انتخابات کو عمران خان کا الیکشن قرار دے رہے ہیں۔ میڈیا سمیت کئی حلقوں نے مصالحت اختیار کر لی ہے لیکن میں ابھی تک عمران خان کے آئندہ وزیراعظم بننے کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہوں۔ اس کی وجوہات ہیں مثلاً تمام مذہبی سوچ کے حامل افراد تحریک انصاف سے الرجک ہیں۔ گاؤں دیہات کے رہنے والے عمران خان کو نہ ایک درست مسلمان مانتے ہیں اور نہ ہی پاکستانی ثقافت و روایات کا حامل سمجھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام بیورو کریسی خواہ اس کا تعلق کے پی کے سے ہی کیوں نہ ہو عمران خان سے بدظن ہے اور جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ تحریک انصاف اور عمران خان کی پالیسیوں کے خلاف کام کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ میں گزشتہ روز ایک وفاقی سیکرٹری سے ملاقات کرنے گیا تو اچانک ان کے کمرے میں لگے ٹی وی پر عمران خان نمودار ہوئے اور خلائی مخلوق سے متعلق بیان داغا۔ مذکورہ وفاقی سیکرٹری نے سب کو متوجہ کیا اور کہا ”عمران کی ایک اور چول پن“ سنیں۔ کمرے میں گریڈ 21 کے دو دیگر افسران بھی تشریف فرما تھے۔ سب نے خوب انجوائے کیا۔ یہ مخص ایک وفاقی سیکرٹری کے آفس کا ماحول نہیں۔ میں نے کبھی کسی اعلیٰ سرکاری ٓافیسر بالخصوص ڈی ایم جی کے آفیسر کو عمران خان کی کسی پالیسی سے متفق نہیں دیکھا۔ ایسی بیورو کریسی کے ہوتے ہوئے عمران خان الیکشن کیسے جیتیں گے؟
کل شام کو میں نے ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب کو فون کیا اور ان سے درخواست کی کہ جناب بتائیں فوج والے کیا سوچ رہے ہیں۔ ٹاپ کی قیادت کو چھوڑ دیں، اپنے سپاہی سے لے کر بریگیڈیئر تک کے فوجیوں کے دل کی بات بتائیں۔ ان کا جواب میرے لئے حیران کن تھا کہ "بھائی پہلے ٹاپ رینکرز کی بات سن لو! ان کا خیال ہے کہ عمران خان اگر وزیراعظم بن گئے تو یہ پاکستان کے ٹرمپ ثابت ہونگے۔ ٹرمپ نے امریکی صدر بننے کے بعد امریکی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو تباہ کر دیا۔ ٹرمپ صرف امریکا نہیں دنیا میں کہیں بھی قابل قبول نہیں۔ سپاہی سے بریگیڈیئر تک فوج کے کلچر میں عمران خان کی کوئی جگہ نہیں۔ کرنل صاحب سے گفتگو کرنے سے قبل میں ایک سینئر صحافی سے گفتگو کر رہا تھا تو انہوں نے بالکل ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میں باقی تمام باتیں نظر انداز کر دوں تو پھر بھی چونکہ عمران خان کرپشن کا جو بھوت مارنا چاہتے ہیں جو کہ خاکی کے اندر بھی سرایت کیا ہوا ہے۔ عمران جیساضدی اس طرف گھوم گیا تو کیا ہو گا؟ کرپشن کا بھوت بھاگے نہ بھاگے، ادارے کا وقار ضرور مجروح ہو گا جو کسی کے لئے قابل قبول نہیں۔
ایک اور وجہ سے بھی عمران خان کو وزیراعظم بنتے نہیں دیکھ رہا۔ پاکستانی سیاست کے موجودہ سب سے بڑے کھلاڑی آصف علی زرداری جس انداز میں کام کر رہے ہیں اور جو ان کا انداز گفتگو ہے، وہ بتا رہا ہے کہ اسٹبلیشمنٹ نے ان سے بنا کر رکھی ہوئی ہے اور میدان ان کے لئے بھی پورا کھلا ہے۔ بلوچستان کا پختون ہمیشہ پیپلزپارٹی سے دور رہا۔ اب یہ پشتو بولنے والا زرداری کا دست راست ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بنک جو ٹوٹ چکا تھا بلاول کی انٹری کے بعد بہت حد تک یہ ووٹر واپس آ چکا ہے۔ اس ووٹر کی تسلی بلاول بھٹو کے بغیر ہو بھی نہیں سکتی۔ دوسری طرف ایم ایم اے جن کی کوششوں سے بنی تھی اب اگر عمران خان ان قوتوں کے لئے کنفرم ہوتے تو ایم ایم اے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہ انتظام بھی تو عمران خان کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

ایک آخری بات! عالمی قوتیں عمران خان کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔ اس میں مجھے کچھ ابہام ہے۔ ہو سکتا ہے عمران خان کو بیرونی قوتوں کی مزاحمت کا سامنا نہ ہو، لیکن ایک معصومانہ سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کہ بینظیر بھٹو کا بیٹا اپنی ماں کے مشن اور پروقار چہرے کو دنیا میں باآسانی بتا اور دکھا سکتا ہے۔ عمران خان مولانا سمیع الحق کے سوا اور کیا دکھا سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے