پاکستان میں فرقہ واریت اور ایران سعودی مخاصمت

پاکستان میں ضیاء اور خطے میں افغانستان اور ایران میں یکے بعد دیگرے آنیوالی تبدیلیوں یا نام نہاد انقلابات نے آگ اور خون کا ایسا کھلواڑ کھیلا جس پر آخر کار دونوں ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونیوالی مخاصمت نے جلتی پر تیل کا کام دکھلایا ۔ یہ قصہ آج کا نہیں چاردہائيوں پر محیط ہے۔

پریہ قصہ کروٹن کے پتوں پر الطاف حسین کی تصویر دکھلائی دینے سے بہت پہلے کی بات ہے جب حیدرآباد کے ٹنڈو جہانیاں میں علم پر آیت اللہ خمینی کی شبیہ دکھائی دیتی بتائی گئی تھی جسے دیکھنے ایک ایرانی سفارتکار آیا تھا۔ پہلے ضیا آیا ، پھر ایران اور پھر افغانستان جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ ڈالا۔ یہ بھٹو اور اسکی حکومت کے چل چلائو کے دن تھے جب نو ستاروں کی دائیں بازو کی تحریک انکے خلاف زوروں پر تھی بھٹو اپنی حکومت بچانے سعودی عرب کے چکر کاٹ رہے تھے اور ملک پاکستان میں اسوقت کا سعودی سفیر ریاض الخطیب اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے گویا "دسواں ستارہ” بنا ہوا تھا۔ عوام الناس کی قوت و پرواز تخیل کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ فوجی آمر ضیاء الحق کے دنوں میں سعودی بادشاہ شاہ خالد کا انتقال ہوا بھٹو جیل میں تھے اور ایک نواب کے قتل کا مقدمہ بھگت رہے تھے، ضیاء الحق شاہ خالد کی تدفین میں سعودی عرب گیا۔ بھٹو کے حامی کہتے ” کاش اس موقع پر بھٹو ہوتا وہ شاہ خالد کی قبر میں اتر کر کھڑا ہو جاتا اور کہتا شاہ خالد کی جگہ پر مجھے دفن کرو۔” بھٹو نے خطے میں ظہور پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے مدو جزر بھانپ لئے تھے اور انہوں نے اپنی کال کوٹھڑی سے اسوقت کے فرانسیسی صدر کو لکھا تھا اگر وہ ہوتے تو خطے میں ایسی تبدیلیاں کبھی ہونے نہ دیتے۔ مگر یہ ہو نہ سکا اب یہ عالم ہے۔

ایران میں آنیوالی تبدیلی نے مشرق وسطیٰ میں خاص طور اور جنوبی اور مغربی ایشیا میں خاص طورایک سونامی کی سی کیفیت برپا کردی۔ خاص طور پر شیوخ اور بادشاہ و مطلق العنان حکمرانوں کو اپنے اپنے عوام سے خطرہ رہنے لگا کہ کہیں آریا مہر جیسے دبنگ شہنشاہ کی پہلوی سلطنت کے زوال کی طرح انکی بھی کھٹیا کھڑی نہ ہوجائے۔کیونکہ ہم نے دیکھا کہ انقلاب یہاں نہ گھوڑے ہاتھی پر چڑھ کر آیا تھا نہ گدھے پر اور نہ ہی ٹینکوں پر بلکہ عوام کے نچلے متوسط طبقات تھے بلکہ بعد میں فوج بھی انکے ساتھ مل گئی تھی جو انقلاب لائے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ عوام کا اقتدار اعلیٰ عوام اور باشعور لوگوں کے حوالے کرنے کے بجائے بازیگروں نے اپنی بچھائی ہوئی بساط کے مطابق کٹھ ملائوں کے حوالے کردیا۔ برزنسکی نے ایرانی انقلاب پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح انہوں نے اسکے لئے پیرس میں آیت اللہ خمینی سے ابراہیم یزدی صادق قطب زادہ اور انکے دیگر جلاوطنی ساتھیوں کے ساتھ مذاکرات کئے تھے۔ یعنی کہ ایک این آر او ایرانی ملائوں سے بھی کیا ہوا تھا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ تہران کے ہر لیمپ پوسٹ پر پھانسیاں گڑی گئیں اور یہ ضرب المثل بنی کہ ایران میں ناشتے، ظہرانے اور عشایے میں کتنے مخالفین کے سر کھا ئےجاتے ہیں۔ ساوک کی جگہ انقلاب کے حامیوں نے لے لی۔ انہی دنوں میں میرے دوست حسن درس نے اپنی نظم میں کہا تھا:
خانم گگوش کی تصویر کے فریم میں ایک ملک بند ہے
جہاں کی سرحدوں میں جوانی منع ہے۔

یہ وہ دن تھے جب ہمارے ہاں پاکستان میں ایرانی کیفے یا تو بند ہونے لگے تھے یا پھر کئیوں میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی تصویر کے فریم کی جگہ پر آیت اللہ خمینی کی تصویر والے فریموں نے لے لی تھی اور اب کائونٹروں پر روضوں کیلئے چندے کی پیٹی بھی رکھی جانے لگی تھی۔ وگرنہ شہنشاہ ایران بھی ایک راسخ العقیدہ شیعہ مسلمان تھا۔ یہ وہ دن تھےجب بینظیر بھٹو قدرے ماڈریٹ ایرانی عالم ڈاکٹر علی شریعتی کی کتابیں اور ایران میں پلے بڑھے پاکستانی دانشور سروش عرفانی کے ایران پر لکھے مضامین پڑھنے لگی تھیں۔ لیکن ابھی پاکستان کی دیواروں پر کافر کافر کے نعروں کی سیاہی شروع نہیں ہوئی تھی۔فوجی آمر ضیاء الحق ایک بہت بڑی فلم تھا۔ بھٹو خاندان خاص طور پربینظیر بھٹو، اسکی پاکستان پیپلزپارٹی کے بعد اسکی ذات اور مطلق العنانی کو سب سے بڑا خطرہ وہ اپنے تئيں سمجھے بیٹھا تھا پاکستان میں دوسری بڑی مسلم مذہبی اقلیت شیعہ اور پڑوس فارس میں آنےوالی تبدیلی کو۔ دوسری طرف اس نے کابینہ اور کچن کابینہ و شوریٰ میں اسی عقیدے سے تعلق رکھنے والی شخصیات اپنے قریب رکھی ہوئی تھیں جن میں مصطفی گوکل، آقائے مرتضی پویا، علامہ نصیر الاجتہادی، فخر امام اور عابدہ حسین شامل تھے۔

اسلام آبـاد میں شیعہ دینیات اور خمس و زکوۃ کے مطالبات پر سی ایم ایل اے یا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سیکرٹریٹ کا کچھ دن جاری گھیرائو ضیا اور اسکے ساجھے دار ٹولے کیلئے بہت بڑے خطرے کی گھنٹی نہیں گھنٹہ گھر تھا۔ ضیاء فوجی راج نے اسے لاٹھی اور گولی سے برتنے کا فیصلہ کیا (جیسے وہ ملتان کالونی مل سے لیکر سندھ، پنجاب و فاٹا تک کرتا آیا تھا) ۔ اسلام آباد سیکرٹریٹ کے دھرنا داروں کے خلاف کارروائی میں پولیس فائرنگ سے مارے جانیوالے ایک نوجوان کا تعلق کہیں اور سے نہیں بدقسمتی سے جنوبی پنجاب کے شور کوٹ سے تھا اور وہ جھنگ و شور کوٹ کی فرقہ وارانہ کشیدگی کے ایک کردار کا رشتہ دار تھا۔ کہتے ہیں اسلام آبـاد میں متعین ایک سفارتکار نے شورکوٹ کے اس مقتول نوجوان کے لواحقین سے تعزیت کی تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ اسکی تدفین میں شرکت کی تھی۔ جھنگ اور شور کوٹ میں فرقہ وارانہ کشیدگی شروع ہوگئی۔ جھنگ کی تنگ گلیوں میں نویں دسویں جماعت کا ایک سنی نوجوان قتل کردیا گیا۔ اب جھنگ اور شور کوٹ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا منبع بنا۔ یہ سب کچھ جھنگ شورکوٹ ، آبپارے جدہ اور تہران سے شروع ہوا جس طرح کہتے ہیں کہ ایوب خان نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں خیرپور میرس کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات سے اپنی آمرانہ حکومت کے باقی دس سال نکالے تھے اسی طرح جھنگ اور شورکوٹ سے شروع ہونیوالی فرقہ واریت کی آگ کو سارے ملک میں ہوا دیکر ضیاءاپنی آمریت کے گیارہویں سال تک پہنچا تھا کہ انکا طیارہ ’’فضا میں پھٹ گیا‘‘۔ لیکن انکی موت کی وجہ کوئی شیعہ عالم عارف الحسینی کے قتل کا مکافات عمل کہتاہے تو کوئی انکے فضا میں پھٹ جانے والے طیارے سی ون تھرٹی کے پائلٹ مشہود بھائی کا تعلق ایک مذہبی مکتب فکر سے بتاتاہے۔ جتنی دریا میں لہریں اتنی باتیں۔

ہاں مگر اب یہ تاریخ ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات میں کہیںایران تو کہیں عرب ممالک کا ہاتھ نظر آتاہے ، وگرنہ کیسے جھنگ اور شور کوٹ کا پپو کمہار اور پاولی جھرولی، کہاں سلیم فوجی تو کہاں ذوالقرنین، کہاں ماسٹر منظور کہاں کالا پہلوان ! اس جنگ میں لاہور میں سینئر ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی بھی قتل کردیا گیا۔ حج اور زیارات کے اجتماعات بھی ایسی نعرے بازیوں کا مرکز بنے۔ نوے کی دہائی میں یہ عام بات تھی کہ مذکورہ سفارتخانوں کے اہل کار شام ہوتے ہی کراچی میں فٹ پاتھوں سے گزرنے والے نوجوانوں کو انکی پسند کی شدت پسند فرقہ وارانہ تنظیم میں کام کرنے کی پیشکش کرتے نظر آتے۔ اب بھی ہوتا ہوگا کہ کسے خبر ہے۔ لیکن جو خبر ہے مجھے وہ یہ ہے کہ سندھ کے تھر اور دیگر مقامات پر کئی ایسے بھی مدرسے ہیں جوخلیجی ممالک کے پیسوں سے چلتے ہیں اور شکارپور شہر میں ایک مدرسے میں یہ تختی لگی ہوئی ہے کہ یہ مدرسہ فلاں شہزادے کے عطیے سے قائم کیا گیا ہے۔ لیکن کیا کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں راتوں رات کھڑے ہونے والے یہ مدارس اصل میں کن کن کا لعدم تنظیموں نے قائم کئے ہوئے ہیں! کیا عرب عجم کی وہ لڑائی جو چودہ سو سال میں حل نہ ہوسکی تھی اسکی جنگ کا ایک بڑا میدان پاکستان بھی بننے جا رہا ہے؟۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے