پاکستان کا راستہ نہ روکیں

pakistan flagآج کل دانشوروں کی محفلوں میں یہ سوال اکثر زیر بحث رہتا ہے کہ بیسویں صدی کے وسط میں وجود میں آنے والا ہمارا ملک کیا اکیسویں صدی کے تقاضوں پر پورا اتر سکے گا؟ اس سوال کے جواب میں ایک حلقہ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں، دیگر قومیں ہم سے حسد کرتی ہیں، ہمیں جو بھی المیے دیکھنے پڑے ہیں ان میں ہمارا قصور کم اور بیرونی سازشوں کا دخل زیادہ تھا۔

دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ جس سیاسی بندوبست کے تحت ملک کو اب تک چلایا گیا ہے وہ ناکام ہوچکا ہے، سیاستدان بے اختیار ہیں، اصل اختیار فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے، ملک کو بچانا ہے تو ایک نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہوگا ورنہ ہمارا مستقبل بہت غیر یقینی ہے۔ اس بارے میں جو تیسرا نقطہ نظر سامنے آتا ہے وہ بہت زیادہ مقبول نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر رکھنے والوں کے بارے میں فتویٰ جاری کردیا جاتا ہے کہ وہ حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور امریکا تینوں کے طرفدار ہیں۔ تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمیں ماضی کا اسیر نہیں ہونا چاہیے۔

آج کی دنیا جو بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہے وہ کسی بھی ملک میں شکست و ریخت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ آج یہ بات سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی خطے میں پیدا ہونے والا عدم استحکام صرف ایک علاقے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پوری دنیا کے معاشی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

آج مشرق وسطیٰ میں جو عدم استحکام، انتشار اور خانہ جنگی نظر آتی ہے، وہ سرد جنگ کی باقیات ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس خطے میں بھی استحکام آجائے گا۔ تمام بڑی اور علاقائی طاقتیں خود کو 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں مصروف ہیں، ان کی دلچسپی کسی ملک کو توڑنے یا نئے ملک بنانے میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے دیکھئے تو پاکستان کا مستقبل ہرگز مخدوش نہیں ہے۔ میں تیسرے نقطہ نظر سے اتفاق کرتی ہوں اور ملک میں ہونے والی پیش رفت کو اسی تناظر میں دیکھتی ہوں۔

پاکستان اس وقت خود کو نئے عالمی حالات کے مطابق ڈھالنے کے ایک مشکل، پیچیدہ اور انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزر رہا ہے۔ ایسا کرنا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ مجبوری یہ ہے کہ ہم چھ دہائیوں سے نہایت غلط اور بے ہنگم طور پر ملک چلاتے رہے اور اسی لیے آج بدترین صورت حال سے دوچار ہیں۔

اب سے کچھ دنوں پہلے ہمارے غیر جمہوری رویوں کی حمایت امریکا، یورپ اور چین سب کیا کرتے تھے۔ اب ان ملکوں کے مفادات نہ صرف تبدیل ہوئے بلکہ گہرے طور پر ایک دوسرے سے وابستہ بھی ہوچکے ہیں۔ انھیں ماضی کے پاکستان کی نہیں بلکہ مستقبل کے پاکستان کی ضرورت ہے ۔

ہمارے ارباب اختیار کو سیاست دانوں اور فوجی اشرافیہ سب کو یہ حکم نما مشورہ دیا گیا ہے کہ پرانا کھیل دنیا سے ختم ہوچکا ہے، امریکا ، چین ، یورپ اور ہر براعظم کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں ایک دوسرے کی شراکت دار اور دوست بن چکی ہیں، ہم سے کہا گیا ہے کہ آپ بھی اب پرانے دور سے باہر نکل آئیں ورنہ آپ کا ساتھ دینا ہمارے لیے مشکل ہوجائے گا۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ان ملکوں کا مشورہ ٹالا نہیں جاسکتا کیونکہ ہمارے معاشی اور فوجی دونوں مفادات ان ملکوں سے براہ راست وابستہ ہیں۔ ’’مشورے‘‘ سے انحراف کا عمل ہمیں سنگین بحرانوں سے دوچار کردے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بدلے ہوئے عالمی ماحول سے خود کو ہم آہنگ کرنا مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن یہ ہماری ضرورت کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی کے فوجی آمروں نے پاکستان کو جس خطرناک دلدل میں دھکیل دیا ہے اس سے باہر نہ نکلنے کا نتیجہ دلدل میں دھنستے چلے جانا ہے۔

پاکستان پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکمرانی کرنے والی فوجی آمریتوں نے ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو فطری انداز میں نہیں چلنے دیا بلکہ اسے اپنے مفادات کے تابع رکھا۔ ہر آمر کے دور میں پاکستان پر تجربہ کرنے کے لیے نئی لیبارٹری یا تجربہ گاہ بنائی گئی۔

لطف کی بات یہ تھی کہ ہر تجربہ گاہ دوسری سے قطعاً مختلف تھی۔ جنرل محمد ایوب خان کی لیبارٹری میں پاکستان کو بلڈوزر کے ذریعے ایک قوم بنانے کا تجربہ کیا گیا۔ حکم صادر ہوا کہ ہم ایک قوم ہیں لہٰذا وفاقی نظام کی کیا ضرورت ہے۔ مشرقی پاکستان سمیت ملک کی دیگر وفاقی اکائیوں نے جب اپنے جمہوری حقوق کی بات کی تو انھیں غدار وطن قرار دیا گیا۔ ایک قوم بنانے کا ’’تجربہ‘‘ بنگلہ دیش کے نتیجے میں سامنے آیا۔ ان ’کارہائے نمایاں‘ کے سبب ملک دولخت ہوا، اس کے باوجود جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان پورے قومی و فوجی اعزاز کے ساتھ دنیا سے رخصت کیے گئے۔

اب باری تھی جنرل ضیاء الحق کی جنھوں نے ایوب خان سے بالکل مختلف طرح کی تجربہ گاہ بنائی اور تجربات کا سلسلہ شروع کردیا۔ ابتدا انھوں نے پاکستان کو آئین دینے والے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے کر کی۔ اس ظلم کا جواز یہ دیا گیا کہ پاکستان کے سیاست دان قاتل اور کرپٹ ہیں، ان سے کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔

دوسرا تجربہ یہ کیا گیا کہ پاکستان کو فرقہ وارانہ جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ مقصد کسی مسلک سے محبت نہیں بلکہ اپنے حامی بعض ملکوں کی خوشنودی کا حصول تھا۔ جنرل موصوف کی قائم کردہ ’’قومی لیبارٹری‘‘ میں پاکستان پر پے در پے ایک سے بڑھ کر ایک تجربات کیے گئے۔ خواتین کے خلاف امتیازی قوانین بنائے گئے، سوویت یونین کے خلاف امریکا کی قیادت میں لڑنے کے لیے پوری دنیا کے جہادیوں کے لیے ملکی سرحدیں کھول دی گئیں، افغان خانہ جنگی میں فعال مداخلت نے پاکستان میں ہمیں ڈرگ اور کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دیا، آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، سیاست دانوں کو مطعون کیا گیا اور قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کردیا گیا۔ وہ فضا میں دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے ’’شاندار کارناموں‘‘ کے اعتراف میں مکمل قومی اعزاز کے ساتھ دفنائے گئے۔

ان کے بعد فوجی سرپرستی میں روتے دھوتے کچھ بے اختیار سویلین حکومتیں قائم ہوئیں۔ جس منتخب وزیراعظم نے حکم عدولی کی اسے بدعنوان اور نااہل قرار دے کر نکال باہر کیا گیا۔ پھر 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ موصوف نے وقت ضایع کیے بغیر پاکستان پر تجربات کے لیے تیسری لیبارٹری قائم کردی۔ اس لیبارٹری میں احتساب کے نام پر ان سیاستدانوں کو بدعنوان، نااہل اور بدکردار ثابت کیا گیا جو جنرل موصوف کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ دوسرا تجربہ ’خطرناک سیاستدانوں‘ کو ملک بدر کرنے کا تھا کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ تیسرا تجربہ دہشت گردی کی جنگ کو کھینچ کر پاکستان کے اندر لانے کا تھا تاکہ امریکا کی تادیر حمایت یقینی بنائی جاسکے۔

چوتھا تجربہ طالبان اور امریکا دونوں کو ایک ساتھ چکمہ دینے کا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ہی ان سے ناراض ہوگئے۔ پانچواں تجربہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملنے والی اربوں ڈالر کی امداد سے ایک جعلی خوش حالی پیدا کرنے کا تھا۔ ان کی روانگی کے ساتھ ہی یہ خوش حالی بھی پاکستان سے رخصت ہوگئی۔ ان کی لیبارٹری میں چھٹا تجربہ ایک تابعدار ٹیسٹ ٹیوب عدلیہ پیدا کرنے کا تھا جو آخرکار خود انھیں لے ڈوبا۔

پاکستان پر مختلف آمروں کی لیبارٹریوں میں اتنے متضاد تجربات کیے گئے کہ وہ معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر دیوالیہ اور بدحال ہوگیا۔ معاشی صورتحال یہ تھی کہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے جب کہ ہمارا پڑوسی ہندوستان کہیں آگے نکل گیا، حد تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے بھی ہمیں پیچھے چھوڑ دیا۔ ہندوستان میں مڈل کلاس میں اضافہ ہونے لگا اور ہمارے یہاں وہ فنا ہونے لگی۔ مالیاتی مسائل سنبھالنے مشکل ہوئے اور ادارے برباد ہوگئے، توانائی کا خطرناک بحران پیدا ہوگیا۔

سرمایہ کار ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان نازک حالات میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو فوج کے سربراہ کو اقتدار سنبھالنے کی کھلے عام دعوت دیتے ہیں اور جمہوریت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ رواداری ناپید ہے اور ہر شخص تشدد پر آمادہ ہے۔ مذکورہ تناظر میں، اب پاکستان کی سیاسی، فوجی، کاروباری اشرافیہ کی مجبوری کے ساتھ یہ ضرورت بھی ہے کہ پاکستان کو پرانے دورسے نکالا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو جو بھی ہوگا اس کا سب بڑا نقصان ان طبقات اور اداروں کو اٹھانا پڑے گا جو ماضی میں پاکستان کے وسائل سے اپنے حق سے کہیں زیادہ وصول کرتے رہے ہیں۔

ہمیں امید کرنی چاہیے کہ پاکستان میں اب کوئی اور فوجی آمر ایک چوتھی لیبارٹری بنا کر پاکستان پر نت نئے تجربات کرنا شروع نہیں کرے گا۔ ہمارے بعض سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ہیجانی، جذباتی اور جنونی سیاست کا راستہ ترک کر کے تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کریں۔ ملک کو جمہوریت کی راہ پر چلنے اور پاکستان کو آگے بڑھنے دیں۔ اس کا راستہ نہ روکیں۔

بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے