پاک بھارت چین مثلث اور معاشی ترقی : کیوں نہیں ؟

اگر بھارت چین پاکستان اکنامک راہداری میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو ہم مغرب میں پاکستان ، افغانستان اور وسط ایشیا ء تک زمینی رابطہ قائم کرسکتے ہیں ۔ بھارت اور چین دونوں مل کر بنگلہ دیش بھارت چین برما اکنامک راہداری کی تعمیر بھی کرسکتے ہیں ۔

ایسا کیونکر ممکن ہے کہ کوئی پاکستان جائے اور سی پیک پہ بات نہ کرے ۔

بہت سے بھارتی وہ چاہے دانشور ہوں یا عام شہری پاک چین اکنامک راہداری ( سی پیک) کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ منصوبہ بھارت کے مفادات کے خلاف پاک چین اتحاد کا ثبوت ہے ۔ کیوں ؟ وہ پوچھتے ہیں ۔ کیا سی پیک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزرے گا جوکہ بھارت کا علاقہ ہے ۔ یہ ایک اور مشہور خیال ہے جو کہ مغربی میڈیا میں پھیلے ہوئے ایک اور خیال کے ساتھ ساتھ شہرت پا رہا ہے کہ چین پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی کالونی بنا رہا ہے جس طرح اس نے دیگر ایسے ممالک کے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا ہوا جو’ون روٹ ون بیلٹ ‘ منصوبےمیں شامل ہورہے ہیں ۔

یہ شائد اس موضوع کے لئے مناسب جگہ نہیں ہے کہ میں ان وہمات کے برعکس اپنے خیالات کا یہاں تفصیلی اظہار کروں میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ میں چین پاکستان اکنامک راہداری اور ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کا پرزور حمایتی ہوں اور میری رائے میں بھارت کو اس میں شامل ہونا چاہیئے ۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ بھارت پاکستان اور چین تینوں کو مل بیٹھنا ہوگااور جامع مکالمہ کر ہونا کیونکہ یہ جنوبی ایشیا کے مستقبل کو بدلنے کے لئے لازمی ہے ۔ میں اپنے ملک میں ان چند لوگوں میں شمار ہوتا ہوں جو اس تعاون کے پرزور حمایتی ہیں ۔ میں ان چند لوگوں میں بھی شمار ہوتا ہوں جن کا بھرپور ماننا ہے کہ پاک چین اکنامک راہداری منصوبے سے پاکستان میں تعمیر و ترقی کا نیاباب کھلنے والا ہے ۔

مجھے میرے ان تاثرات کو اظہار کرنے کا موقع اُسی کانفرنس میں میسر آیا جہاں میری ملاقات پاکستان کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جنجوعہ سے ہوئی تھی ۔ اس کانفرنس کا عنوان ” جنوب ایشیائی ممالک میں رابطہ و علاقائی تعا ون ” تھا۔ یہ کانفرنس پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد نے منعقد کروائی تھی جس کے سربراہ ایک جواں سال دانشور محمد عامر رانا ہیں ۔ذیل میں میری کی ہوئی گفتگو کا خلاصہ درج ہے ۔

اگر بھارت چین پاکستان اکنامک راہداری میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو ہم مغرب میں پاکستان ، افغانستان اور وسط ایشیا ء تک زمینی رابطہ قائم کرسکتے ہیں ۔ بھارت اور چین دونوں مل کر بنگلہ دیش بھارت چین برما اکنامک راہداری کی تعمیراور چین نیپال انڈیا اکنامک راہداری کی تعمیر بھی کرسکتے ہیں ۔

ہمارے وزیر اعظم مسٹر نریندرا مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ سربراہی اجلاس میں جو کہ جون میں کنگڈاؤ میں منعقد ہوا تھا کہا۔’ ہم ایسے مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں فزیکل اور ڈیجیٹل روابط نے جغرافیئے کے معانی بدل دیئے ہیں ۔ اسی بناء پر اپنے ہمسائیوں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھیوں کے ساتھ روابط میں اضافہ ہماری ترجیح ہے ۔

اب ان مبصرین کے لئے جو ایشیا ئی معاملات خصوصاََ جنوب ایشیائی معاملات پہ نگاہ رکھتے ہیں یہ امر اہمیت کا باعث ہونا چاہیئے کہ اگر بھارت اپنے ہمسایہ ممالک اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے فزیکل اور ڈیجیٹل روابط چاہتا ہے تو وہ پاکستان یا چین کو نظرانداز نہیں کر سکتا ۔ یہ بھی کہ جغرافیائی روابط اسے ایسا کرنے بھی نہیں دے سکتے ۔

جنوب ایشاء کے اندر خاص طور پر بھارت اور پاکستان اور چین کے مابین تعاون اور باہی رابطے کی اشد ضرورت ہے ۔ بھارت پاکستان اور چین کی مثلث میں ایک زاویہ بہت مضبوط ہے ۔ یہ پاک چین تعلقات ہیں ۔ دوسرا زاویہ یعنی ہند چین تعلقات آہستگی سے مضبوط ہورہے ہیں ۔ پچھلے 4 سالوں میں وزیر اعظم مودی اور صدر شی مختلف مواقعوں پہ 14 بار ملاقاتیں کر چکے ہیں ۔ آخری ملاقات 15ویں بار تھی جو کہ جوہانسبرگ میں برکس کی سربراہی کانفرنس میں جولائی کے آخری ہفتے میں ہوئی ۔اس طرح کا تزویزاتی (اسٹریٹیجک) ابلاغ تزویزاتی طرز کے اعتماد اور سمجھ بوجھ کی بنیاد ہے ۔ تاہم اس مثلث کا تیسرا زاویہ یعنی پاک بھارت تعلقات حالیہ عرصے میں بہت کمزور ہے ۔

پاک بھارت دشمنی کے سبب جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ سارک تقریباَ بے عمل ہوکررہ گئی ہے ۔ جنوب ایشیاء اس وقت دنیا میں کے سب سے کم جڑے ہوئے خطے میں شمار ہوتا ہے ۔حتیٰ کہ پاکستان اور بھارت کے دارلحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازیں تک نہیں ہیں ۔ لہذا جب تک اس مثلث کا تیسرا زاویہ پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہوتے جنوب ایشیائی ممالک میں رابطے اور مشترکہ ترقی کی حقیقی امید پیدا نہیں ہوسکتی ۔یہاں تک کہ جنوب ایشیاء میں امن اور تحفظ کا خواب بھی دیکھنا ممکن نہیں ہے ۔

میرے لئے میرے حالیہ دورہ پاکستان کا سب سے خوبصورت اور یاد گار لمحہ وہ تھا جب مجھے بابا گورونانک کی جنم گاہ ننکانہ صاحب کی زیارت کا موقع ملا ۔ ایک امر جس کا مجھے یقین ہے کہ اگر پاک بھارت تعلقات ٹھیک ہوجائیں تو ان دونوں ممالک کو اپنی اپنی حیثیت میں ، مشترکہ طور پر ، علاقائی ممالک کے ہمراہ اور جنوب ایشیاء بطور ایک خطہ اور چین ہر حوالے سے عظیم ترقی و کامیابی کی منزل پائیں گے ۔

اس کانفرنس میں مجھے اپنا تصور پیش کرنے کا موقع ملا جہاں میں نے بیان کیا کہ اگر بھارت چین پاکستان اکنامک راہداری میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو ہم مغرب میں پاکستان ، افغانستان اور وسط ایشیا ء تک زمینی رابطہ قائم کرسکتے ہیں ۔ بھارت اور چین دونوں مل کر بنگلہ دیش بھارت چین برما اکنامک راہداری کی تعمیراور چین نیپال انڈیا اکنامک راہداری کی تعمیر بھی کرسکتے ہیں ۔

اس طرح ہم چین اور جنوب ایشیاء کے درمیان کے رابطے اور تعاون کی ایک عظیم راہداری قائم کر نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارا خطہ دنیا بھر میں ترقی یافتہ خطہ قرار پائے گا ۔ اس کے تحت خطے کے ممالک خاص طور پر پاک بھارت سطح پر باہمی انحصار بڑھے گا اور عوام کی سطح پر رابطوں میں فروغ کی وجہ کشمیر کا تاریخی تنازع طے کرنے کا نادر موقع میسر آئے گا ۔

اس کانفرنس کے دوران مجھے ایک بہترین چینی سفارتکار سے ملاقات کا موقع ملا ۔ لی جیان ژاؤ پاکستان میں چینی سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ مشن بلا شبہ پاکستانی دارلحکومت میں موجود اہم ترین سفارتکاروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ سی پیک کے بنیادی منصوبہ سازوں میں شمار ہوتے ہیں اور پاکستانی صحافی اور دانشوران ان کی صلاحیتوں کے خوب معترف ہیں ۔ کیوں؟ جب میں نے یہ پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ ان کے پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح کے حکام تک سے روابط ہیں ۔

اپنے کلیدی خطاب میں انہوں نے کہا کہ چین نے ہمیشہ جنوب ایشیاء کی ثقافت اور روایات کا احترام کیا ہے ۔ ہم جنوب ایشیائی ممالک کے مخلص دوست ہیں ۔ ہم باہمی احترام اور تعاون پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آسانی پیدا کر کے ہم ایک طویل مدت تعلقات کی بنیا د رکھیں ۔

صرف اور صرف باہمی سطح پر فوائد کے حصول سے ہی ہم مشترکہ ترقی کا خواب پورا کرسکتے ہیں ۔

دلی سے لاہور آنے والی پی آئی اے کی پرواز کے اڑان بھرنے سے پہلے میں نے ٹوئٹر پہ لکھا ۔ ” میں دس دنوں کے لئے پاکستان جا رہا ہوں ۔ میں امن کا پیامبر بن کر دو عظیم قوموں کے درمیان رابطے کا پل بننے کی ایک عاجز سی کوشش کروں گا ۔ میرا دل دعاؤں سے بھرا ہوا ہے ۔ پاک بھارت امن ممکن ہے ۔ کوشش کرنے والوں کی ہارنہیں ہوتی ۔ خدا ہم پہ رحم کرے ۔ ”

جب میں دلی کے ہوائی اڈے پہ واپس اترا تو میرے دل میں اطمینان کے جذبات تھے کہ میں نے پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے عظیم مقصد میں اپنی حیثیت کے مطابق ایک ادنیٰ مگر پوری کوشش ضرور کی ۔ مجھے یقین ہے کہ مجھ جیسے جذبات رکھنے کئی پاکستانی جن سے میری ملاقاتیں ہوئیں وہ بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہوں گے ۔ مجھے خاص طور پر بہت خوشی ہے کہ میری ملاقاتیں آغاز ِ دوستی کے نام سے پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں کوشاں نوجوان لڑکے لڑکیوں سے ہوئیں ۔

(لکھاری سدھیندرا کلکرنی بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے معاون رہ چکے ہیں ۔ آج کل پاک بھارت اور بھارت چین تعلقات کی بحالی و بہتری کے لئے کوششیں کرتے ہیں)

بشکریہ نیشنل ہیرالڈ انڈیا

مترجم : شوذب عسکری

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے