’پراپرٹی‘ کا بلبلہ

ملک کے کثیر الاشاعت انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ بہت سے لوگ حیران ہیں کیونکہ ایسے واقعات کم ہی منظر عام پر آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نیب کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر لیک کی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف نے نیب کے چیئرمین قمرالزمان کو ٹیلی فون کر کے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی میں 62 ارب روپے کا گھپلا کرنے والے فوجی اور سویلین افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کو کہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق: ”جنرل شریف نے نیب کے چیئرمین کو پیغام دیا ہے کہ فراڈ میں جو کوئی ملوث ہے اس کو چھوڑا نہیں جانا چاہیے، چاہے ان کے بھائی ہی ملوث کیوں نہ ہوں‘‘۔

نیب نے حال ہی میں سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں اور DHA کے کچھ افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ دوسری جانب اشفاق پرویز کیانی کے بھائی برگیڈیئر(ر) امجد کیانی نے روزنامہ ”دنیا‘‘ کو بیان دیا ہے کہ ان کے بھائی کامران اور سابق جنرل صاحب کا اس معاملے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ سکینڈل واضح کرتا ہے کہ پراپرٹی کا کاروبار اور کرپشن کس طرح ریاست کے اہم ترین اور طاقتور اداروں کو اندر سے کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے ریاست کی کارکردگی پر اثرات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اداروں کا مقصد ہی بدل رہا ہے۔ ایک پیشہ ور ادارے میں جب اتنے بڑے پیمانے کی دولت سرایت کر جائے تو اس کا ڈسپلن ٹوٹنے لگتا ہے۔ حالیہ سکینڈل کا انت جو بھی ہو لیکن یہ حقیقی صورت حال کی معمولی سی جھلک ہے۔کالا دھن اور کرپشن اس ملک کی سیاست، معیشت اور ریاست پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں اور ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ سب کچھ چند مہینوں یا سالوں میں نہیں ہوا بلکہ دہائیوں سے جاری اس عمل کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کا آغاز 1979ء میں ڈالر جہاد سے ہوا تھا۔

[pullquote]اپریل 1978ء کے افغان ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے جب یہاں کی ایجنسیوں کی مدد سے سی آئی اے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن سائیکلون کا آغاز 1979ء میں کر رہی تھی اس وقت پاکستان میں کالی معیشت کا حجم سرکاری یا قانونی معیشت کے 5 فیصد سے بھی کم تھا۔ آج اس معیشت کا حجم سرکاری اعداد و شمارمیں آنے والی معیشت سے بھی بڑھ چکا ہے، بلکہ کئی معتبر اندازوں کے مطابق دو گنا ہو چکا ہے۔ کالی معیشت کے اس پھیلائوکا پراپرٹی اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے گہرا تعلق ہے۔
[/pullquote]

پلاٹوں اور زمینوں کی خرید و فروخت پاکستان میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا منافع خوری کا طریقہ کار ہے۔ اس شعبے کے تیز پھیلائو کی کئی وجوہات ہیں: اول تو معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر صنعت و زراعت میں سرمایہ کاری پر شرح منافع نسبتاً کم ہے، اس کی وجہ سے بڑے سرمایہ داراور نودولتیے کم وقت میں بھاری منافعوں کے لیے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ دیوالیہ معیشت کو ‘کک سٹارٹ‘ کرنے کے لیے بینکوں کی شرح سود کو مسلسل کم کرنے کا عمل ہے۔ بینک چونکہ اب زیادہ منافع نہیں دے رہے اس لیے بینکوں میں پڑا سرمایہ نکال کر پراپرٹی کے کاروبار میں ڈالا جا رہا ہے، نتیجتاً سٹہ بازی کی وجہ سے پلاٹوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں کم شرح سود کی وجہ سے سٹہ بازی کے لیے سرمایہ بھی سستے قرض کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تیسری اہم وجہ کالے دھن کو سفید کرنے کی واردات ہے۔ عمومی طور پر منشیات، بھتہ خوری یا کرپشن وغیرہ سے کمائے گئے کالے دھن کی سرمایہ کاری انتہائی کم مدتی ہوتی ہے۔ اسے سٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی وغیرہ کے کاروبارمیں ڈالا جاتا ہے جہاں صبح خریداری کر کے شام کو فروخت کی جا سکے۔

[pullquote]جس ملک میں مجموعی معیشت کا اکثریتی حصہ جرائم اور بدعنوانی کے کالے دھن پر مبنی ہو وہاں پراپرٹی کا کاروبار بھلا کیسے شفاف ہو سکتا ہے؟ ریاست کے اعلیٰ افسران کو یہ پراپرٹی مافیا خرید لیتے ہیں یا ملازمت پر رکھ لیتے ہیں۔ کالے دھن کی اس وسیع سرایت کی وجہ سے پاکستان میں پراپرٹی کی قیمتوں کا بلبلہ بہت پھیل چکا ہے۔ لیکن ہمارے سامنے 2008ء کی مثال موجود ہے جب امریکہ اور یورپ میں اس طرح کے بلبلے پھٹے تھے اور پوری عالمی معیشت کو بحران میں ڈبو دیا تھا۔ ایسے امکانات یہاں بھی واضح طور پر موجود ہیں۔ آثار پہلے ہی نظر آ رہے ہیں اور بڑے ”ادارے‘‘ بحران زدہ ہو کر بڑی تعداد میں ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔کوئی بڑا کریش پہلے سے زبوں حال معیشت کو دھڑام کر سکتا ہے۔ سٹہ بازی جوئے کی بھیانک شکل ہوتی ہے، اس لیے کھربوں روپے جب جوئے میں ہارے جائیں گے تو کہرام مچے گا۔
[/pullquote]

پراپرٹی کے اس کاروبار کے سماجی نفسیات پر اثرات بڑے بھیانک ہیں۔ آج دوسری اذیتوں کے علاوہ معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس ہر فرد میں پایا جاتا ہے۔ مستقبل کے سہارے کے طور پر جائیداد کی ہوس خصوصاً درمیانے طبقے میں انتہا پر ہے۔ اس دوڑ میں لگتا ہے کہ دنیا پاگل ہوتی جا رہی ہے۔ جن کے پاس نہیں ہے وہ حصول کی تگ و دو میں ہیں اور جن کے پاس ہے وہ مسلسل اضافے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھر مار ہو رہی ہے۔ ملبوسات، کاروں اور زیورات کی طرح یہ شعبہ بھی درمیانے اور بالادست طبقات کے لئے ”سٹیٹس سمبل‘‘ بن گیا ہے۔

نمائش کا یہ چلن خود غرضی، فریب، دوسروں کو روندنے اور چھیننے کو معمول بنا چکا ہے۔ فطرت کو برباد کیا جارہا ہے۔ زرخیز زمینوں، سرسبز و شاداب لہلہاتے کھیتوں پر کنکریٹ کے جنگل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ حس لطافت ناپید ہے۔ طرز تعمیر ثقافتی اقدار کا سب سے ٹھوس اظہار ہوتا ہے۔ ان مہنگی سوسائٹیوں میں طرز تعمیر انتہائی ناقص، بھدہ اور گھٹیا قسم کے امریکی آرکیٹیکچر کی بھی بدنما شکل ہے۔

لالچ، ہوس اور مقابلہ بازی کی بیماریاں لاحق نہ ہوں تو انسان بنیادی ضروریات کے ساتھ ایک چھت کے نیچے بڑی خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔ اس کی زندگی کے مقاصد بلند نظریات پر عملی جدوجہد، فنون لطیفہ اور تسخیر کائنات بن سکتے ہیں، لیکن مقابلہ بازی کے اس نظام زر نے انسان کو انسان رہنے ہی کب دیا ہے!
[pullquote]اس سماج میں زندگی کے ہر شعبے کی طرح ریئل اسٹیٹ اور پراپرٹی کے کاروبار میں بھی قدم قدم پر دھوکے ہیں۔ دکھایا کچھ جاتا ہے، بیچا کچھ جاتا ہے۔ پیسے لینے کے بعد آنکھیں ہی پھر جاتی ہیں۔ سینکڑوں پلاٹوں کی ہزاروں فائلیں بکتی ہیں۔ لُٹ جانے والے عدالتوں کے دھکے کھاتے پھرتے ہیں جہاں دو ہاتھ آگے کی بدعنوانی کا راج ہے۔ جو کوئی مکان یا کوٹھی بنا لیتا ہے وہ ”سٹیٹس‘‘ برقرار رکھنے کی اذیت میں غرق ہو جاتا ہے۔ اس طبقاتی سماج میں غریبوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو درمیانہ طبقہ اپنا معیار زندگی قائم رکھنے کو دن رات ہاتھ پیر مار رہا ہے۔
[/pullquote]

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ غریب امیروں سے زیادہ فراغ دل ہوتے ہیں۔ دولت اور جائیداد جتنی بڑھتی ہے انسان اتنا چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے، دل تنگ اور ضمیر مردہ ہوجاتے ہیں۔ انسانی محنت کا مسلسل استحصال کر کے ہی سرمایہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ جہاں انسانیت سرمائے کی غلام بن جائے وہ معاشرہ انسانی کسی طور نہیں ہو سکتا۔ اس غلامی سے نجات کے لیے سرمایہ داری کا خاتمہ لازم ہے اور یہ فریضہ محنت کش طبقہ ہی ادا کر سکتا ہے۔ انسانیت کی بقا کی ضمانت ایسا نظام ہی بن سکتا ہے جہاں تمام دولت اور وسائل اشتراکی فلاح کے لیے صرف ہوں اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ناپید ہو۔ مانگ اور محرومی کا خاتمہ کر کے ہی انسان حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور منافع پر مبنی معیشت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اسی صورت میں لالچ ، خود غرضی اور مقابلہ بازی کو سماجی نفسیات پر سے کھرچا جا سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے