پشاور: جہاں تین منٹ کا سفر طے کرنے میں گھنٹا لگ جاتا ہے .

آج میں بات کروں گی کہ پشاور شہر کے وسط میں واقع سول سیکریٹریٹ تک ایک عام شہری کا پہنچنا کتنا دشوار ھے۔عام زندگی میں روز آپ کو کہیں ایسے موضوع ملتے ہیں جن پرکوئی بات کرتا ھے اور نا ہی کسی کا دھیان جاتا ھے۔ میں ان روز مرہ کے کچھ عام لیکن حقیقت میں بہت خاص پہلو پر کام کروں گی جن پر ایک عام آدمی بول تو سکتا ھے لیکن ان پر بات کرنے کے لیے ان مخصوص اداروں تک پہنچنا ایک عام شہری کے لیے بہت دشوار گزار ھے۔پشاور صوبہ پختون خواہ کا سب سے بڑا اور مصروف ترین شہر ھے جہاں پرصوبائی اسمبلی سمیت ہائی کورٹ اور دوسرے بڑے ادارے کام کرتے ہیں۔

پشاور کا سول سیکریٹریٹ پولیس لائن اور پولیس والوں کے لیے مخصوص ہسپتال کے بالکل پڑوس میں ھے۔ پی سی ھوٹل اور اسمبلی کراس کرنے کے بعد اسی خیبر روڈ سے بائیں جانب پولیس لائن شروع ہوتی ہے۔ پولیس لائن کے بعد انکا یسپتال اور اس کے بعد سول سیکریٹریٹ آتا ھے۔ سول سیکریٹریٹ پہنچنے میں خیبر روڈ سے تقریبا تین منٹ لگتے ہیں لیکن کیا یہ تین منٹ کا سفر ایک عام شہری کیلئے ایک عذاب سے کم نہیں ۔


خیبر روڈ سے سول سیکریٹریٹ تک تقریبا پولیس چار جگہ پوچھ گچھ کرتی ھے، ٹھیک ھے مان لیا پولیس حفاظتی اقدام کے لیے یہ سب کرتی ھے لیکن کیا عام آدمی بغیر کسی ادارے کے ٹھپہ لگے بغیر پہنچ بھی سکتا ھے یا نہیں۔ یہ تین منت کا سفر کسی ادارے کا ٹھپہ لیے بغیر طے کرنا کبھی کبھار انتہائی دشوار ھو جاتا ھے کیونکہ خیبر روڈ سے پولیس لائن میں داخلے کے لیے رکشہ اور ٹیکسی سے اترنا پڑتا ھے. اگر اجازت مل جائے تو اگے کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ھے۔

پولیس چوکی پر بیٹھے ھوئے لوگ کافی اچھی طرح سے سوال جواب کر کے اگے جانے کی اجازت دے دیتے ھیں لیکن میں پاکستان کے عام شہری کی حیثیت سے یہ سوچتی ھوں کہ اگر میں کسی ادارے کا ٹھپہ لگے بغیر سول سیکریٹریٹ تک پہنچ سکتی ھوں ، میں پاکستان کی شہری ھوں کسی بھی ادارے میں جانا میرا حق ھے ۔ عام لوگ جو کہ اپنے کسی کام سے سول سیکریٹریٹ آتے ہیں ان کا پہنچ جانا کام کی نوعیت پہ ھوتا ھے۔

مان لیا بہت بڑے بڑے ادارے یہاں واقع ہیں ، حفاظتی اقدامات کرنا انک حق ھے لیکن پاکستان کا ایک عام شہری کیا صرف اس بنیاد پہ سول سیکریٹریٹ پہنچ سکتا ھے کہ وہ خواہش کرے کہ چلو آج سول سیکریٹریٹ جا کے دیکھتے ہیں کہ تعلیم یا صحت کے میدان سے وابستہ لوگ کیسے کام کرتے ہیں ؟ کیا حفاظتی اقدامات کا بہانہ بنا کر لوگوں کو اداروں میں داخلہ بند کردینا چاہیے . پالیسیاں بناتے وقت عام شہری کا بھی خیال رکھا جائے ۔ فیصلہ آپ کا؟

[pullquote]
سبا رحمن مومند [/pullquote]
فاٹا سے تعلق رکھنے والی پہلی فوٹو جرنلسٹ ہیں انہوں نے نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کواٹر واشنگٹن سے فوٹو گرافی میں مہارت حاصل کی ۔ پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ایم اے کیا . صحافت کا آغاز بی بی سی اردو سے کیا۔ وہ بی بی سی ، ٹی آر ٹی کیلئے بطور فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پہ کام کرتی ہیں اور ایک یونیورسٹی میں فوٹو جرنلزم کی تعلیم بھی دیتی ہیں۔
سبا رحمن مومند "آیٰ بی سی اردو” کے لیے "اندر کی بات” کے نام سے ہر ہفتے کسی ایک موضوع پر لکھا کرینگی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے