’’پنجاب … پنجاب‘‘ گرمجوشی کا گزرا موسم

پٹیالہ اگر اب بھی ایک ریاست ہوتی تو بھارتی پنجاب کا موجودہ وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اس کا مہاراجہ ہوتا۔

پاکستان کے ضلع ناروال کی تحصیل شکر گڑھ میں راوی کے کنارے جس کرتارپور کا ان دنوں بہت ذکر ہورہا ہے ایک زمانے میں سیلاب کی نذر ہوگیا تھا۔ پانی اُترجانے کے کئی برس بعد اسے بازیاب کروایا گیا۔ بازیابی کے بعد اس دربار کی بحالی اور تعمیر نو کا بھاری بھر کم خرچہ امریندرسنگھ کے دادا نے برداشت کیا تھا۔ اس تاریخ کی وجہ سے امریندر سنگھ کے لئے عام حالات میں اس مقام سے بھارتی سرحد تک راہداری کی تعمیر کی تقریب میں پاکستانی حکومت کی دعوت پر حصہ لینا ذاتی اور جذباتی حوالوں سے بہت ضروری تھا۔ اس نے مگر شرکت سے انکار کردیا ہے۔

امریندر سنگھ بھارتی پنجاب کا 2002میں بھی وزیر اعلیٰ تھا۔ کچھ عرصہ تک فوج کی نوکری سے فراغت کے بعد اس کا سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اندراگاندھی کا بیٹا راجیو مگر ڈیرہ دون کے مشہورزمانہ سکول میں اس کا ہم جماعت تھا۔ اس نے مجبور کیا تو کانگریس میں شامل ہوگیا۔ جون 1984میں سنت جرنیل سنگھ کے خلاف ہوئے آپریشن کے بعد اس کے لئے یہ تعلق برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ کانگریس سے جدا ہوکراس نے’’اکالی‘‘ جماعت بنانے کی کوشش کی۔ ناکام رہا کیونکہ سکھ مذہب کے نام پر سیاست صرف قیام پاکستان سے کئی سال قبل بنائی اکالی دل ہی کو راس آتی ہے۔واپس کانگریس میں چلا گیا۔اسی کی وجہ سے 2002میں بھارتی پنجاب کا پہلی بار وزیر اعلیٰ بناتھا۔

پاکستان میں ان دنوں جنرل مشرف حکمران تھے۔ انہیں مسئلہ کشمیر کا کوئی "Out of Box”حل ڈھونڈنے کی بہت جلدی تھی۔ امریندر سنگھ خصوصی طورپر موصوف سے ملنے آیا۔ دوران ملاقات ان دونوں نے 1965کی جنگ سے وابستہ قصوں کو اپنے فوجی تجربات کے حوالے سے دہرایا اور اک دوجے کے متر ہوگئے۔

اتفاق سے ان دنوں پاکستانی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ایک نامی گرامی جاٹ چودھری پرویز الٰہی تھے۔ ان دونوں جاٹوں نے بہت لگن کے ساتھ ’’پنجاب-پنجاب‘‘ روابط استوار کرنے کی کوشش کی۔ امرتسر سے ننکانہ صاحب تک چار لین والی شاہراہ کا منصوبہ مکمل ہوا۔ مشرقی اور مغربی پنجاب میں کبڈی کے میچ ہوئے۔ لاہور،امرتسر اور چندی گڑھ میں پنجابی مشاعرے اور ادبی سیمینار ہونا شروع ہوگئے۔امریندر سنگھ اور چودھری پرویز الٰہی کی ذاتی دلچسپی کے بغیر ایسی گرم جوشی برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔

ان دنوں میں جس انگریزی اخبار سے وابستہ تھا اس نے بھارت کے معاملات پر رپورٹنگ کو میری Beatبنادیا۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے مجھے سال میں کئی ماہ دلی میں رہنا پڑتا۔ میرے اخبار کا اصرار تھا کہ میں وہاں رہائش اختیار کرلوں۔ مجھے لیکن دلی میں رہنا پسند نہیں تھا۔ بچیاں میری ویسے بھی اپنی نانی اور دادی کی دیوانی تھیں۔ان کے بغیر ایک پل گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

ذاتی طورپر ایک پکا لاہوری ہوتے ہوئے بھی مجھے لیکن ’’پنجاب -پنجاب‘‘ کے حوالے سے جاری سرگرمیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جہاز کے ذریعے سیدھا دلی جاتا اور چند ہفتے وہاں گزار کر اسلام آباد لوٹ آتا۔ امرتسر وغیرہ جانے کی کبھی خواہش نہ ہوئی۔لاہور کے کئی صحافی اور ادیب مگر وہاں جانے کو بے چین رہتے۔ اس ضمن میں ویزا کے حصول کے لئے مجھ سے بھی رابطہ کرتے۔

’’پنجاب-پنجاب‘‘ گرم جوشی کے اس گزرے موسم میں لیکن ایک سفارتی تقریب میں بھارتی سفیر وی شنکر مینن سے ملاقات ہوگئی۔ریٹائرمنٹ کے بعد یہ صاحب بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے قومی سلامتی کے بارے میں طاقت ورمشیر بھی لگائے گئے تھے۔جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے اس سفارت کار کو خارجہ امور کا بہت ماہر تصور کیا جاتا ہے۔اس کا باپ بھی برطانوی انڈیا کا کاشغر میں سفارت کار تھا۔سسرکی تعیناتی تبت میں رہی۔ اپنے خاندان،سسرال اور ذاتی تجربات کی بنا پر مینن کو چینی امور کا حتمی ماہر بھی گردانا جاتا۔وہ چینی زبان کو چار مختلف لہجوںمیں بول اور سمجھ سکتا ہے۔ٹھنڈے مزاج کا بہت گہرا آدمی تھا۔ میرے ساتھ مگر تھوڑا کھل جاتا تھا۔

’’پنجاب-پنجاب‘‘ گرم جوشی کے گزرے موسم کے دوران اسلام آباد میں ہوئی اس سفارتی تقریب میں وی شنکر مینن نے مجھے دیکھا تو ہاتھ ملانے کے بعد ایک کونے میں لے گیا۔سفارت کارانہ مہارت کے ساتھ اس نے بہت ہی ملفوف زبان میں مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’دلی والے (یعنی بھارتی حکومت)‘‘ پاکستانی اور بھارتی پنجابیوں کے درمیان بڑھتے اور گرم جوش ہوتے تعلقات سے زیادہ خوش نہیں۔لاہور سے تعلق رکھنے والے اپنے صحافی دوستوں کو مجھے سمجھانا چاہیے کہ وہ صرف امرتسر یاجالندھر وغیرہ کا ویزا نہ مانگا کریں۔ ’’انڈیا کا ویزا مانگیں پنجاب کا نہیں‘‘۔

میں نے اس کے فقرے کو بظاہر لاتعلقی سے سنا۔دل مگر کھٹک گیا۔ایک جہاندیدہ سفارت کار کے محتاط ترین الفاظ نے بہت کچھ سمجھادیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس سے ہوئی اس ملاقات کے بعد میں نے خود زندگی میں پہلی بار امرتسر جانے کا فیصلہ کیا۔اس شہر کے پٹھورے اور چھولے کھائے۔ وہ شہر لیکن مجھے بہت اداس لگا۔ بزرگوں سے اس شہر کی رونق کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ وہ رونق جانے کیوں محسوس نہ ہوئی۔سعادت حسن منٹو کی خاطر ان کے کوچہ وکیلاں کو ڈھونڈا۔آغا حشر اور ممتاز بیگم سے وابستہ ’’کنہیاں دا…(جانے کیا)‘‘ علاقہ بھی دیکھا۔اور فقط ایک رات گزار کر صبح کی ٹرین پکڑی اور دلی چلا گیا۔

وی شنکر مینن سے ’’انڈیا کا ویزامانگیں پنجاب کا نہیں‘‘ میں نے تقریباََ 14برس قبل سنا تھا۔ شاید حافظہ سے محو ہوجاتا۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے لیکن گزشتہ جمعہ بھارتی وزیر خارجہ کو ایک ٹویٹ کے ذریعے کرتارپور راہداری کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کرلیا۔ وہاں سے معذرت آئی تو فوراََ یہ فقرہ ذہن میں ابھرآیا۔ سمجھ آگئی کہ ’’دلی والے‘‘ یعنی بھارتی حکومت یا وہاں کی دائمی اشرافیہ کرتارپور والی پیش قدمی کو کھلے دل سے نہیں شکوک سے بھرے تعصب سے دیکھ رہی ہے۔سشماسوراج کی جانب سے آئی ’’معذرت‘‘کی سمجھ آگئی۔ سکھوں کے مذہبی جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتارپور راہداری سے قطعی لاتعلقی اختیار کرنا بھی لیکن بھارتی حکومت کے لئے ممکن نہیں تھا۔ بھارت کا ایک سرکاری وفد ہمارے ہاں 28نومبر کو ہونے والی تقریب میں شریک ہونے پر مجبور ہے۔ اس شرکت کو مگر ’’دلی والے‘‘ خود پر مسلط ہوا تصور کریں گے۔

کرتارپور کی راہداری والی پاکستانی پیش قدمی نے بھارتی حکمرانوں کوجس مخمصے سے دو چار کیا ہے اسے مزید بہترانداز میں سمجھنا ہو تو بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی اس تقریر کو بغور سننا اور دیکھنا ہوگا جو پیر کے دن اس نے بھارت سے اس مقام تک آنے والی سڑک کی افتتاحی تقریب میں کی ہے۔

اس تقریر کا دورانیہ 14منٹ ہے۔ اس کا بیشتر حصہ امریندر سنگھ یہ سمجھانے میں صرف کررہا ہے کہ مذہبی اور اپنے پرکھوں کے حوالے سے وہ ایک مستند اور جدی پشتی سکھ ہے۔اس کے ساتھ ہی مگر وہ بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی ہے۔اس منصب کی وجہ سے اس کی چند ’’ذمہ داریاں‘‘ ہیں۔ان ذمہ داریوں نے اسے 28نومبر2018کو ہونے والی تقریب سے دور رہنے کو مجبور کیا۔یہ اصرار کرتے ہوئے اس کی تقریر کارُخ ہمارے آرمی چیف کو براہِ راست مخاطب کرنے کی طرف مڑجاتا ہے۔’’جنرل باجوہ‘‘ کو یاد دلایا جاتا ہے کہ امریندر سنگھ ایک ’’فوجی‘‘ بھی ہے اور اس کی رگوں میں پنجابی خون بھی دوڑ رہا ہے۔

باباگورونانک کی صوفی منش ہستی سے وابستہ تقریب میں امریندر سنگھ کی جانب سے ایسی تقریر کا بظاہر کوئی جواز موجود نہیں تھا۔سیاستدان ایسی تقاریب کو اپنے بارے میں Feel Goodپیدا کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔امریندر سنگھ نے ایسا کرنے سے اجتناب برتا۔ کرتارپور کی راہداری پاک-بھارت تعلقات کے تناظر میں وہ ماحول پیدا کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے جس کی امید باندھی جارہی تھی۔

(ضروری وضاحت) :میںنے اپنے گذشتہ روز کے کالم میں میاں نواز شریف پر جوتا پھینکے جانے کا واقعہ سہوا ً جامعہ اشرفیہ کے ساتھ منسوب کر دیا۔ یہ واقعہ جامعہ اشرفیہ میں نہیں ٗجامعہ نعیمہ میں رونما ہوا تھا ۔میر ے قارئین بھی اس کی تصیح فرما لیں! ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے